مسلمان یا اسلام پسند؟

May 30, 2021

فی زمانہ مسلمان ہونا یا اسلام پسند ہونا دو علیحدہ شناختیں سمجھی جاتی ہیں، کہتے ہیں اسلام پسند کی بازگشت پانچ دہائیاں قبل 1970میں پاکستان کے پہلے عام انتخابات میں بڑی شد و مد کے ساتھ سننے میں آئی تھی جب جماعت اسلامی پاکستان کے انتخابی امیدواروں کے پوسٹرز پر بڑے جلی حروف میں ’اسلام پسند‘ امیدوار لکھا جاتا تھا، تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی قدرے منصفانہ انتخابات ہوئے تو وہ یہی 1970کے انتخابات تھے۔ ان غیرجانبدارانہ انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ اور شیخ مجیب الرحمٰن کی ’’عوامی لیگ‘‘ کے درمیان اصل مقابلہ تھا، یہ انتخابات اپنی غیرجانبداری کے علاوہ اس لئے بھی یادگار تھے کہ بھٹو صاحب نے اپنے ایک انتخابی جلسے میں بڑے وثوق سے یہ پیش گوئی کی تھی کہ ’پورے پاکستان میں کامیابی کی دعویدار پورے پاکستان میں قومی اسمبلی کی چار سے زیادہ نشستیں نہیں ملیں گی اور وہ بھی اس لئے کہ ’’جنازہ‘‘ اٹھانے کے لئے چار افراد کی ضرورت ہوتی ہے‘۔ انتخابی نتیجہ آیا تو ’’عوامی لیگ‘‘ کو سب سے زیادہ 160، پاکستان پیپلز پارٹی کو81، جمعیت علماء پاکستان اور جمعیت علماء اسلام کو 7، 7اور جماعت اسلامی کو چار نشستیں ہی حاصل ہوئیں۔ اسی طرح تین چار مسلم لیگوں کو بھی آٹھ، نو اور دس سے زیادہ نشستیں نہ مل سکیں۔ بھٹو صاحب نے جماعت اسلامی کے بارے میں چار نشستوں کی بات ممکن ہے جوش خطابت میں یا محاورتاً کہی ہو لیکن ریکارڈ موجود ہے کہ جب نتیجہ آیا تو اسلام پسندی کا سلوگن لے کر چلنے والی جماعت اسلامی کو مشرقی و مغربی پاکستان سے چار نشستیں ہی مل سکیں۔

بقول شخصے جو ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اس ملک کے مسلمان ’اسلام پسندوں‘ کو پورے ملک میںصرف 4نشستیں دیتے ہیں اور یہ صرف پچاس سال پہلے کی بات نہیں ہے بلکہ صورت حال آج بھی وہی ہے کہ 73سال گزر جانے کے بعد صورت حال ویسی ہی ہے 2013کے انتخابات میں بھی جماعت اسلامی کو چار ہی نشستیں ملیں۔ اس کی وجہ کیا ہے آخر؟ بظاہر تو اسلام اور مسلمانیت کا ورد جس قدر پاکستان میں ہوتا ہے شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ہوتا ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ اسلام پسند جماعتیں چار یا دس پندرہ نشستوںسے آگے نہیں بڑھ پاتیں حالانکہ جماعت اسلامی کے اندر جمہوریت بھی ہے اور اس کا نظم و ضبط بھی مثالی قرار دیا جاتا ہے۔ ’اسلام پسند‘ کی اصطلاح سے سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ایک عام مسلمان اسلام پسند نہیں ہوتا اور اگر یہ ایک ہی بات ہے تو پھر پاکستان کے 97فیصد مسلمان اسلام پسندوں کو ووٹ دے کر مسند اقتدار پر کیوں نہیں بٹھا رہے یا انہیں ڈر ہے کہ پاکستان میں کوئی حقیقی شرعی نظام حقیقت میں کہیں نافذ نہ ہو جائے، میرے ذاتی خیال میں تو کوئی شخص مسلمان ہوتا ہے یا غیر مسلم تو پھر درمیان میں اسلام پسندی کا لیبل چہ معنی دارد؟

پاکستان میں جاری نظام بھی اسی قسم کا کھچڑی جیسا نظام حکومت ہے جسے نہ تو اسلامی کہا جا سکتا ہے اور نہ غیراسلامی، ہم عرف عام میں اسے جمہوری پارلیمانی سسٹم کہتے ہیں چنانچہ یہ خلافت یا ملوکیت بھی نہیں ہاں! ذرا ذرا بادشاہت ضرور لگتی ہے کیونکہ سارے کا سارا ریاستی سسٹم شخصیت پرستی کے گرد گھومتا ہے، 70سال سے جاری اسی نفسا نفسی اور رسہ کشی کے نظام نے پرانی نسل کو اور نہ ہی نئی نسل کو شفافیت سے کچھ سوچنے سمجھنے کا کوئی مواد فراہم کیا ہے اور نہ ہی موقع۔ اسلام پسندی اور مسلمانیت کی انہی بھول بھلیوں سے نکل کر جب پاکستانی مسلمان ملک سے باہر تہذیب یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں مقیم ہوتے ہیں تو بھی ان کے اذہان مسلمان اور اسلام پسندی کے فرق سے باہر نہیں نکل پاتے اور وہ اپنی بکھری ہوئی سوچوں، قدروں اور کم علمی کی بنیاد پر انتہاپسندانہ رویے سے متاثر ہونے لگتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں لکھی سادا اور صاف باتوں پر عمل کی بجائے ’’گلی کی فکر‘‘ کے امام مسجد کی بتائی ہوئی نادرست مذہبی تاویلات پر استوار اپنی سوچ اور پراگندا خیالی کی موشگافیاں مغربی ملکوں میں بھی یہاں وہاں انڈیلتے نظر آتے ہیں۔

پاکستان کی اثرانداز ہونے والی قوتوں بشمول تمام ریاستی اداروں کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر اسکولوں میں پڑھائے جانے والے سلیبس کو اکیسویں صدی کی ضرورتوں کے مطابق ہم آہنگ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت دینی معاملات میں بھی دوٹوک انداز میں فیصلہ کرے کہ ہمیں اپنے ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کرنا ہے اس لئے حکومتی اور مذہبی مسائل کو علیحدہ علیحدہ رکھ کر ملکی معاملات چلائیں، حکومت اپنی رٹ کے بل پر اس بات پر پابندی عائد کرے کہ ملک میں صرف حکومتی سند یافتہ اور مستند علماء ہی مذہب کے سلسلہ میں رائے زنی کا اختیار رکھتے ہیں اور ہر کس و ناکس کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے اپنے ذہنی فکری اور فقہی مزاج، سوچ اور مفاد کے مطابق دین کی تشریح کرتا پھرے لیکن ایسا تبھی ممکن ہے جب خود حکومت اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے والدین کی طرح سوچ رکھے۔ اگر ہمیشہ کی طرح سیاسی مفادات کے تحت ہی سب کچھ ہوتا رہا تو ہم اندرون ملک تو انتشار کا شکار رہیں گے ہی بیرونی دنیا میں بھی خود پر لگا انتہاپسندی کالیبل آنے والی کئی دہائیوں میں بھی ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوپائیں گے اور ’جہلا‘ مسلمان اور اسلامی پسند کے الفاظ کو کبھی یکجا ہونے نہیں دیں گے چنانچہ یہ خلیج مزید وسیع ہوتی چلی جائے گی جو یقیناً دنیا بھر میں ہماری نیک نامی کی بجائے جگ ہنسائی اور بدنامی کا باعث بنے گی۔