تین خبریں تین کہانیاں

June 11, 2021

کسی نے حضرت علی ؓ سے پوچھا کہ انسان بعض انسانوں کے ساتھ کھیلتا ہے، ان کے ساتھ پڑھتا ہے، ایک محلے یا شہر میں رہتا ہے اور ان سے دوستی نہیں ہوتی مگر بعض انسانوں کو صرف دو لمحوں کے لئے ملتا ہے اور ان سے دوستی ہو جاتی ہے حالانکہ انسان نہ ان کے ساتھ کھیلا ہوتا ہے، نہ اکٹھے تعلیم حاصل کی ہوتی ہے، نہ ہی ان کا تعلق ایک شہر، محلے یا قبیلے سے ہوتا ہے۔ علم کے دروازے نے نگاہوں کو آسمان کی جانب بلند کیا اور فرمایا ’’یہ معاملہ آسمانوں پہ طے ہوا تھا‘‘۔ پوچھنے والا کہنے لگا وہ کیسے؟ جواباً ہتھیلی پہ کائنات دیکھنے والے نے فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ نے عالمِ ارواح میں روحوں کو جمع کیا تھا تو جو روحیں ایک دوسرے کے نزدیک تھیں وہ دنیا میں جب کہیں جہاں کہیں ملیں گی، اُن کی دوستی فوراً ہو جائے گی اور جو روحیں وہاں ایک دوسرے سے دور تھیں وہ بے شک دنیا میں ایک مدرسے میں پڑھیں، ایک میدان میں کھیلیں، ایک محلے یا شہر میں رہیں، ایک گھر میں رہیں حتیٰ کہ ایک بستر پر سوئیں، ان کی دوستی کبھی نہیں ہو سکتی‘‘۔ میں نے اس قول کو زمانۂ طالبعلمی سے لے کر عملی زندگی تک پرکھا، اس کا لفظ لفظ صداقت کی گواہی دیتا رہا۔ رشتے آپ کو عطا ہوتے ہیں، دوستیاں آپ خود یعنی آپ کی روح پیدا کرتی ہے۔ مشہور ہے کہ بھائی گھر سے ملتے ہیں جبکہ دوستوں کا انتخاب آپ خود کرتے ہیں۔ بھائی آپ کے دوست ہوں یہ ضروری تو نہیں، تاریخ میں اس بات کی گواہی برادرانِ یوسف ؑ سے ملتی ہے اور دوستی کی گواہی کے لئے صدیق اکبرؓ ہی کافی ہیں۔

آٹھ جون میرے لئے خوشگوار دن تھا۔ اس دن مجھے اپنے تین دوستوں کے بارے میں اچھی خبریں ملیں۔ سب سے پہلے جنرل عابد لطیف نے بتایا کہ انہیں ڈی جی اے ایس ایف لگا دیا گیا۔ ابھی آگ برساتا سورج ڈھلا نہیں تھا کہ پروفیسر طاہر ملک کا فون آ گیا۔ انہوں نے پروفیسر فتح محمد ملک سے بھی بات کروائی، دونوں باپ بیٹا خوش تھے اور خوشی سے خبر دے رہے تھے کہ آپ کو مبارک ہو طارق ملک کو چیئرمین نادرا لگا دیا گیا ہے۔ ملک صاحبان کا فون بند ہوا ہی تھا کہ مبشر حسن سے بات ہو گئی۔ مبشر حسن کو سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کا ایم ڈی لگایا گیا ہے۔

یہ تینوں خبریں میرے تین دوستوں سے متعلق تھیں سو مجھے خوشی ہوئی۔ تینوں کے ساتھ تین کہانیاں جڑی ہوئی ہیں۔ میرے دوستوں کو معلوم ہے کہ میرے دوستی کے معیارات بڑے عجیب ہیں۔ یہ بھی کسی دن بتائوں گا فی الحال جنرل عابد لطیف کی کہانی سن لیجئے۔ یہ دہشت گردی کا موسم تھا، پاکستانی فوج امنِ عالم کی خاطر دہشت گردی کے خلاف پوری طاقت سے لڑ رہی تھی۔ اس دوران ہمارے دشمنوں نے خاص طور پر بلوچستان کو ٹارگٹ کر رکھا تھا۔ ان دنوں ہمارے راوین جنرل راحیل شریف آرمی چیف تھے۔ سدرن کمانڈ جنرل عامر ریاض کے سپرد تھی۔ میڈیا وار کو جنرل عاصم باجوہ نے سنبھالا ہوا تھا۔ اس دوران کئی مرتبہ صحافیوں کو بلوچستان لے جایا گیا۔ ایک شام جنرل عامر ریاض کی طرف سے دیے گئے عشایئے میں ایک دراز قد، خوبصورت فوجی افسر سے لمحہ بھر ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات پھر دوستی میں بدل گئی۔ میں اسلام آباد میں رہتا ہوں اور وہ پیشہ ور فوجی ہیں، ان کی ڈیوٹی کبھی کہیں تو کبھی کہیں، ایک دن پرائیویٹ نمبر سے فون آیا، فون کرنے والے نے کہا ’’سر آپ سے ڈی جی سی جنرل عابد لطیف بات کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ خیر بات ہوئی پھر ملاقات ہوئی۔

اب طارق ملک کی کہانی سن لیجئے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں انتہائی نفیس، پڑھے لکھے اور قابل آدمی کو چیئرمین نادرا بنایا۔ اس نے اپنے ملک کی بڑی جانفشانی سے خدمت کی۔ طارق ملک بہت محنت سے کام کر رہا تھا کہ رات ساڑھے دس کی تقریر کے بعد ن لیگ کی حکومت بن گئی۔ انہوں نے طارق ملک سے کچھ ناجائز کام کروانے چاہے مگر یہ چکوالی جوان ڈٹ گیا، اس کا اڑنا پسند نہ آیا تو اس وقت کے وزیر داخلہ نثار علی خان نے شاہ کی وفاداری میں حدیں کراس کر دیں، اس نے طارق ملک کے اہل و عیال تک کو پریشان کرنا شروع کر دیا، محکمے اس کے پیچھے لگا دیے گئے، طارق ملک شریف آدمی تھا، ملک سے چلا گیا پھر جس وقت دنیا طارق ملک کو مان رہی تھی اس وقت نثار علی خان ایک ٹکٹ کے ہاتھوں پریشان تھا، اس کے علاقے نے قومی اسمبلی کے لئے اسے مسترد کر دیا۔ اب اس نے تین سال بعد صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھایا ہے اور دوسری طرف طارق ملک پھر سے نادرا کا چیئرمین ہے۔

مشرف دور میں ہمارا وزارتوں میں آنا جانا کم تھا۔ پی پی کی حکومت آئی تو انتہائی سمجھدار پارلیمنٹرین شیری رحمٰن کو وزیر اطلاعات بنایا گیا۔ وہاں ہمارا کافی آنا جانا تھا۔ ہمدم دیرینہ رائو تحسین علی خان منسٹر آفس کے ڈی جی تھے۔ شیری رحمٰن کے ساتھ مبشر حسن اور انعام وزیر ہر وقت متحرک نظر آتے، دونوں باصلاحیت تھے، دونوں سے یہیں دوستی ہوئی۔ مبشر حسن بعد میں فلم سنسر بورڈ کے چیئرمین اور بیت المال کے ڈپٹی ایم ڈی رہے۔ مبشر حسن باصلاحیت آدمی ہیں ان کے آنے سے یقیناً اے پی پی کا حلیہ تبدیل ہو گا۔ ان کے ذہن میں صحافیوں کے لئے بہت سے پروگرام ہیں۔ تینوں دوستوں کی کامیابی کے لئے دعا کے ساتھ ایک اور پیارے دوست حسن عباس رضا کا شعر پیش خدمت ہے کہ ؎

تیرے بغیر شہر سخن سنگ ہو گیا

ہونٹوں پہ اب وہ ریشمی لہجے نہیں رہے