دلیپ کمار۔ پاکستان اچھے دوست سے محروم

July 14, 2021

یہ مئی 1999 کی بات ہے۔ اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف دن بھر کی مصروفیات کے بعد رات گئے نیند کی آغوش میں تھے کہ اچانک سرہانے رکھے سرخ رنگ کے ہاٹ لائن فون کی گھنٹی نے انہیں نیند سے بیدار کردیا۔ وزیراعظم ہڑبڑا کر اٹھے اور فون اٹینڈ کیا تو دوسری طرف بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اُن سے مخاطب ہوئے۔ نواز شریف نے پریشانی کے عالم میں واجپائی سے اتنی رات گئے فون کرنے کا مقصد دریافت کیا جس پر واجپائی نے کہا ’’میاں صاحب! میں کھلے دل کے ساتھ آپ کے پاس آیا تھا لیکن آپ نے میری پیٹھ پر چھرا گھونپ دیا، آپ ایک طرف میرے ساتھ اعلانِ لاہور کررہے ہیں تو دوسری طرف آپ نے کارگل پر اپنی فوج اتاردی۔‘‘ نواز شریف نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’یقین کریں، مجھے اس کا علم نہیں۔‘‘ واجپائی نے کہا کہ میرے ساتھ دلیپ کمار بھی بیٹھے ہیں جو آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کہہ کر واجپائی نے دلیپ کمار کو فون تھمادیا۔دلیپ کمار نے نواز شریف سے شکایتی لہجے میںکہا کہ ’’میاں صاحب! آپ تو ہمیشہ امن کا درس دیتے تھے، آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے ایسا کرنے سے بھارت میں رہنے والے 20 کروڑ مسلمان خوف میں مبتلا ہیں اور اس ایڈونچر کی قیمت یہاں کے مسلمانوں کو ادا کرنا پڑے گی۔‘‘ نواز شریف اس وقت تک کارگل کی صورتحال سے واقف نہیں تھے، انہوں نے اپنی خفگی اور شرمندگی مٹانے کیلئے یہ کہہ کر بات ختم کی کہ ’’میں صورتحال معلوم کرکے آپ سے رابطہ کروں گا۔‘‘

قارئین! اس تاریخی گفتگو کا ذکر مشرف دور حکومت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب "Neither a Hawk Nor a Dove" میں کیا ہے۔ مذکورہ بالا واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دلیپ کمار کو اقتدار کے ایوانوں میں رسائی حاصل تھی اور وہ سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے بہت قریبی سمجھے جاتے تھے جبکہ دلیپ کمار کی کوششوں سے مسئلہ کشمیر پر نواز شریف اور واجپائی کے درمیان ’’اعلانِ لاہور‘‘ طے پایا، اٹل بہاری واجپائی 1999 کو بذریعہ بس لاہور آئے، مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہوکر ’’نظریہ پاکستان‘‘ کی تائید کی اور خطے میں نئے تعلقات کی بنیاد رکھی مگر بدقسمتی سے ڈائیلاگ شروع ہونے کے صرف ڈھائی ماہ بعد کارگل کا واقعہ پیش آگیا اور پاک بھارت جنگ چھڑگئی۔ اس طرح دلیپ کمار کا دونوں ملکوں کے درمیان امن معاہدے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا جس کا دلیپ کمار کو مرتے دم تک دکھ رہا۔

دلیپ کمار نہ صرف ایک بڑےاداکار بلکہ عظیم انسان بھی تھے۔ وہ اپنے فن کی آخری معراج کو چھوچکے تھے اور ان کا قد ان کے فن سے بڑھ گیا تھا۔ دلیپ کمار پاکستان کے دوست اور خیر خواہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں اکثر تقریبات میں ان کا تعارف یہ کہہ کر کروایا جاتا تھا کہ وہ جتنے ہندوستان کے ہیں، اتنے ہی پاکستان کے بھی ہیں۔‘‘ سابق وزیراعظم نواز شریف دلیپ کمار کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔ نواز شریف دور حکومت میں 1998 میں حکومت پاکستان نے دلیپ کمار کی خدمات کے صلے میں اُنہیں ’’نشان امتیاز‘‘ سے نوازا جو اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے دلیپ کمار کو عطا کیا۔ حکومت پاکستان نے جب دلیپ کمار کو سول ایوارڈ کیلئے مدعو کیا تو بھارتی انتہا پسند تنظیم شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے جن کا ممبئی فلم انڈسٹری پر راج تھا اور ان سے دشمنی رکھنے والوں کو فلموں میں کاسٹ نہیں کیا جاتا تھا، نے اپنے سینکڑوں کارکنوں کے ہمراہ دلیپ کمار کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ پاکستان گئے تو ہم آپ کو واپس بھارت نہیں آنے دیں گے لیکن اس کے باوجود دلیپ کمار پاکستان آئے اور ایوارڈ وصول کیا۔ کارگل جنگ کے بعد پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال میں شیوسینا کے انتہا پسندوں نے دلیپ کمار پر دبائو ڈالا کہ وہ پاکستان کا سول ایوارڈ واپس کریں تاکہ پاکستان کو عالمی سطح پر خفت اٹھانا پڑے مگر دلیپ کمار نے کسی دبائو میں آئے بغیر یہ کہہ کر ایسا کرنے سے انکار کردیا کہ یہ اعزاز حکومتِ پاکستان نے ان کے فن کے اعتراف میں دیا ہے اور ایک فنکار سیاست کا حصہ نہیں بن سکتا۔

پاکستان کے دوست اور خطے کے مسلمانوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے والی اس ہستی کا باب گزشتہ دنوں ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا۔ ان کی موت کی خبر پاکستان میں بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی جس نے ہر پاکستانی کو سوگوار کردیا۔یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ قصہ خوانی بازار پشاور میں پیدا ہونے والا یہ بچہ بڑا ہوکر نہ صرف بھارتی فلم انڈسٹری پر راج کرے گا بلکہ پاکستان کے فلمی شائقین کے دلوں میں گھر کرے گا اور دنیا اس کی اداکاری کے سحر میں مبتلا ہوجائے گی۔ شعبہ فن کو اس بات پر فخر ہے کہ اسے دلیپ کمار جیسا اداکار میسر آیا۔ دلیپ کمار نے محض اداکاری کے فن میں لوہا نہیں منوایا بلکہ ان کے اخلاق، شخصیت، محبت اور شفقت بھرے انداز نے برصغیر کے لوگوں میں میل ملاپ کے طور طریقے پر نمایاں اور مثبت اثرات چھوڑے ہیں۔ آج دلیپ کمار ہم سے رخصت ہوگئے مگر ان کا فن اور دل آویز شخصیت کا سحر صدیوں تک قائم رہے گا۔دلیپ کمار کی موت سے پاکستان، مسلمانوں کیلئے اپنے دل میں درد رکھنے والے مخلص دوست سے محروم ہوگیا۔ بہتر ہوتا کہ حکومت پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے دلیپ کمار کے جنازے یا تدفین میں بھارت میں پاکستان کے سفیر یا کوئی حکومتی نمائندہ پاکستان سے شرکت کرتا جس سے بھارت کے مسلمانوں کو مثبت پیغام جاتا۔ دلیپ کمار کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اُن کی Legacy ہمیشہ زندہ رہے گی کیونکہ Legends کبھی مرا نہیں کرتے بلکہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔