داسو ڈیم: پاک چین پُرعزم

July 20, 2021

منصوبہ بندی کے فقدان اور دہشت گردی کے باعث گزشتہ کم و بیش 42برسوں میں ملکی اقتصادیات کو جو نقصان پہنچا، جس کے اثرات اب تک معیشت پر پڑ رہے ہیں اس میں بڑا حصہ توانائی کا بحران ہے۔ وسائل ہوتے ہوئے بھی ہائیڈرل بجلی کا زیادہ دارومدار 60اور 70کی دہائیوں میں تعمیر ہونے والے تین بڑے ڈیموں پر چلا آرہا ہے۔ دوسری طرف طلب و رسد میں توازن پیدا کرنے کے لیے گراں ترین ذرائع سے بجلی حاصل کرنا پڑ رہی ہے۔ اب حالات نسبتاً سازگار ہیں اور آنے والے پانچ سے دس سال ہائیڈرل پاور منصوبوں کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں۔ چین کے تعاون سے نیلم جہلم منصوبہ جو طویل جدوجہد کے بعد 2018میں مکمل ہوا اور 969میگا واٹ بجلی دے رہا ہے اس کے بعد داسو، دیا میر بھاشا، کروٹ، آزادپتن اور کوہالہ کی تکمیل کے بعد سستی بجلی کی طلب و رسد میں توازن آنے کی امید ہے جس سے معیشت کو تیل وگیس جیسے سب سے مہنگے ذرائع سے چھٹکارا نصیب ہو سکے گا۔ نیلم جہلم منصوبے کی تکمیل کے بعد داسو ہائیڈرل پاور پراجیکٹ دیرینہ دوست، عوامی جمہوریہ چین کے تعاون سے تعمیر ہونے والا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی تکمیل کا ہدف دو مرحلوں میں (2025 اور 2029) مقرر ہے۔ جس سے 4320میگا واٹ بجلی حاصل ہوگی۔ بھارت دریائے جہلم اور چناب کا پانی روک کراب تک متعدد ڈیم بنا چکا ہے لیکن پاکستان میں تعمیر ہونے والے چند ایک منصوبے اسے گوارا نہیں جنہیں وہ سبوتاژ کرنے کے درپے ہے۔داسو حادثہ کے تناظر میں چین کے سفیر نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ سی ایم ایچ راولپنڈی میں زخمیوں کی عیادت کے موقع پر تمام منصوبے مکمل کرنے کے لئے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے تاہم متعلقہ ادارے شب و روز واقعہ کی تحقیقات میں مصروف ہیں جو جلد اس کا سراغ لگا کر دشمن کو بےنقاب کریں گے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998