ترقی اور جنگ، ساتھ ساتھ جاری؟

July 20, 2021

حالاتِ حاضرہ میں کثیر الجہت تیز تر انسانی ترقی کے متوازی شور شرابے سے تشکیل پاتی عالمی سیاست کا اب کھلا پیغام ہے کہ دنیا کے فلاں فلاں براعظم اور خطوں کو، تہذیبِ انسانی کے جاری و ساری ارتقائی عمل میں برابر کا اور آزادانہ شریک نہیں ہونے دیا جائے گا۔ پیغام کی دیدہ دلیری میں برہنگی کی حد تک اضافہ امنِ عالم کے لئے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ گویا ترقی و استحکام و خوشحالی پر اجارہ داری اور جمود کو توڑنے کی جنگ جاری ہے۔ اجارہ داری، چھوٹی مگر مالدار مذہبی نسلی اقلیت سے لے کر اقتصادی علاقائی اور سپر پاور تک، عالمی آبادی کی اقلیت پر مشتمل ہے تو محروم اور غیرمستحکم اکثریت ارتقائی عمل میں برابر کی شرکت اور حصولات کیلئے چیلنج ہی نہیں بن گئی، سرگرم ہو کر، کمال ہوشیاری اور خاموشی سے بڑے اہداف حاصل کرکے اجارہ دار طاقتور ممالک کیلئے خطرہ بن گئی ہے۔ گویا غریب اور حقدار اکثریت نے ارتقائی عمل میں اپنی جگہ بنا لی، اب حصہ بقدر جثہ کی جنگ شروع ہو چکی۔ حالاتِ حاضرہ کی بڑی اور حیران کن واقعاتی حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں مہذب، جمہوری اور انسانیت کی علمبردار جانی مانی اقوام نے اب تک کی انسانی معراج سے ٹکرانے کی ٹھان لی اور ٹکرا گئیں، معلوم ہوا ان کی استعماریت ختم نہیں ہوئی تھی، دب گئی تھی، چھپ گئی تھی یا اس پر مصلحتوں کے پردے ڈال دیے گئے تھے۔ سرد جنگ کے لوجیکل خاتمے اور 21ویں صدی میں بھی قدیم سلطنتوں جیسے جبر اور دبدبے کے خاتمے کے بعد ایک ہی ’’سپر پاور‘‘ کے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے ہی غلبے اور اجارہ داری کی کوئی گنجائش رہ گئی تھی؟ اگر تھی تو فقط اتنی کہ خود دنیا کی نئی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر حقیقی معنوں میں عالمی امن کی علمبردار بن کر دکھاتی، ترقی، امن، خوشحالی، استحکام، جمہوریت، انسانیت باٹنے میں قائدانہ کردار ادا کرکے اپنی نہیں دنیا کی مرضی سے عالمی قائد بنتی لیکن امریکہ نے اپنا یہ مطلوب سفر ترک کرکے جلد سے جلد اپنی ’’تنہا عالمی طاقت‘‘ کی نئی شناخت سے زیادہ سے زیادہ اپنے اور دنیا کے حصول کی سیدھی سیدھی اور ہموار راہ ترک کرکے گھڑی ’’اسلامی بنیاد پرستی‘‘ جبکہ اسلامی دنیا ایٹ لارج ہرگز یہ نہ تھی،کمیونزم اور لبرل جمہوری کیپٹل ازم کا معرکہ جیتنے کے بعد کلیش آف سولائزیشن کا فلسفہ گھڑ لیا، ’’تنہا سپر پاور‘‘ کی حیثیت سے اقوامِ متحدہ یورپین یونین اور دنیا کے جملہ خطوں پر اپنے جائز اور قابل قبول اثر و رسوخ کو کام میں لاکر مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر جیسے سلگتے دیرینہ مسائل کو انصاف اور اقوامِ متحدہ کے فیصلوں کے مطابق حل کرانے کو ممکن بنانے کی بجائے، نئے ٹکرائو، نئے غیرفطری اتحاد، دنیا پر اپنے ہی دبدبے، ہر اہم حساس خطے اور ملک اور سمندروں میں زیادہ سے زیادہ سیاسی، عسکری اور ہائی ڈگری جملہ موجودگی (دور رس نتائج کے اعتبار سے) کا پُرخطر اور پیچیدہ راستہ اختیار کیا۔ آج سابق امریکی صدر کلنٹن ’’مسئلہ کشمیر عالمی امن کے لئے فلیش پوائنٹ ہے‘‘ کا بیان جنوبی ایشیا کے ہی نہیں عالمی امن کے لئے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔ امریکہ کی بھارت کو ’’فطری اتحادی‘‘قرار دے کر پاکستان کو مختلف حربوں سے دبائو میں رکھنے یا مکمل نظرانداز کرنے کی تھنک ٹینکس کی اجتماعی دانش اور بڑے اعتماد اور تکبر سے لئے گئے امریکی سائوتھ ایشیا اور پاکستان پالیسی فیصلے بری طرح پٹ گئے ہیں۔ آپ کا جنوبی ایشیائی فطری حلیف مین ڈیٹڈ غنڈا وزیراعظم بنکر بھارت کے لبرل اور ورلڈ لارجسٹ، سب سے کامیاب ترقی پذیر جمہوریہ کو آر ایس ایس کی وجہ سے گہرے کنویں میں گرا چکا ہے۔ بھارت کو ان اندھیروں سے نکالنا اب واشنگٹن کے بھی بس میں نہیں۔ بھارت ریاستی دہشت گردی پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ اس نے آپ کی اور آپ کے درجنوں حلیفوں کی عسکری موجودگی اور آپ کی قائم کردی افغان حکومت کی اشیر باد سے افغانستان میں ’’سفارتی موجودگی‘‘ کا جو نیٹ ورک قائم کیا، کابل کا سفارتخانہ مکمل طور پر جانتا ہے کہ پاکستان میں اور پاک افغان بارڈر پر جتنی دہشت گردی ہوئی، اُس میں اِس نیٹ ورک کا کتنے فیصد حصہ تھا۔ ارباہا ڈالر کی اس ’’سرمایہ کاری‘‘ میں چند عوامی خدمات دنیا کو دھوکہ دینے اور پاکستان کے خلاف افغان سرزمین سے بھارتی ریاست دہشت گردی افغان عوام میں اپنی ساکھ قائم کرنے کی مکمل ناکام کوشش ثابت ہوئی۔ مقبوضہ و محصور افواج کی مسلسل اور انسانیت سوز بھارتی ریاستی دہشت گردی کے بعد بھارت کا دہشت گردی کا بجٹ کہاں ’’پہنچ‘‘ چکا ہے؟ جس کیلئے اسے محبوس کشمیریوں کو روکنے کے لئے ہی نہیں نئی دہلی میں بڑی تعداد میں موجود غیرملکی صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو روکنے کے لئے بھی 11لاکھ فوجی تعینات کرنا پڑے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینکس کے لئے ’’بھارت بحیثیت امریکی اتحادی‘‘ مطالعے و تحقیق کا اتنا بڑا موضوع ملا ہے، کہ اس کی روشنی میں امریکی مفادات کے لئے کوئی نتیجہ خیز بائیڈن انتظامیہ کی نئی انڈیا پالیسی کی تیاری ایک بڑا چیلنج ہے۔گویا بھارت اب تک تو خود ہی اپنے ڈیزاسٹر کیلئے بڑے خرچے کرتا رہا اب ’’فطری پیٹرن‘‘ کا بھی کرائے گا۔دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں فلسطین سے لیکر سائوتھ چائنہ سی براستہ جنوبی ایشیا جو جنگی ماحول، قانونی او رسخت متنازعہ یروشلم کو اسرائیلی کیپٹل تسلیم کرکے عربوں کو رعب داب میں لا کر ایران پر حملے کرکے، مقبوضہ کشمیر کو محصور کرنے کے بعد بھی مودی کو ہلہ شیری دے کر پورے مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا میں جنگی ماحول پیدا کرکے، ایشیا کو کسی بڑی عالمی جنگ کا میدان تیار کرنے کا کھیل کھیلاتو اس تیار غبارے سے ہوا تو نکل گئی لیکن اس دوران چین، پاکستان، روس، ترکی، ایران خود کو جنگوں اور جنگی ماحول سے بچانے CONNECTIVITYکے ذریعے ترقی کی جو نئی راہیں نکالنے کے لئے بھی کوشاں رہے، اس نتائج کی بازگشت گزشتہ روز ازبکستان سے ساری دنیا نے سنی۔