وہ لاہور کہیں کھو گیا

August 22, 2021

مصنّف: واصف ناگی

صفحات: 208، قیمت: 700 روپے

ناشر: علم و عرفان پبلشرز، الحمد مارکیٹ، 40 غزنی اسٹریٹ، اردو بازار، لاہور۔

واصف ناگی 1969ء سے صحافت کی دنیا میں موجود ہیں۔ایک طویل عرصے سے روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں اور میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی کے چیئرمین کی ذمّے داریاں بھی نبھا رہے ہیں۔ نیز، اخبار کے لیے کالم بھی لکھتے ہیں، جنھیں وسیع حلقے میں بہت شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ اپنے اِس صحافتی سفر کے دَوران صحت، تعلیم اور تعمیرات پر ساڑھے سات سو کے قریب سیمینارز کروا چُکے ہیں، جب کہ 500سے زاید نمایاں شخصیات کے انٹرویوز بھی کیے۔ اِن شان دار صحافتی خدمات پر 2017ء میں حکومتِ پاکستان نے اُنھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔

وہ 1981ء سے لاہور کی تاریخی عمارات پر’’ وَرثہ‘‘ کے عنوان سے مضامین لکھ رہے ہیں۔ زیرِ تبصرہ کتاب میں اُن کے جنوری 2020ء سے رواں برس 30 مئی تک لاہور پر لکھے گئے 52 کالمز شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ’’ جِنے لہور نئیں ویکھیا، او جمیا ہی نہیں‘‘یعنی جس نے لاہور نہیں دیکھا، وہ گویا پیدا ہی نہیں ہوا ،مگر جس نے اُسے دیکھ لیا، وہ پھر عُمر بھر اس کے سحر سے نہیں نکل پاتا۔ خاص طور پر کچھ عرصہ قبل تک کا لاہور اپنی تاریخی روایات اور قدیم عمارتوں کے سبب صرف خطّے ہی نہیں، دنیا بھر میں بھی ایک منفرد شناخت و حیثیت رکھتا تھا، جس کا اظہار غیر مُلکی سیّاحوں نے اپنی یادداشتوں میں بھی کیا ہے۔

مصنّف اُس نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جس نے اُس لاہور کو اپنی رو ح میں جذب کیا اور اب اُن کی روح شہر کے گلی کوچوں میں اُسی لاہور کو تلاش کرتی پِھرتی ہے۔ ناگی صاحب نے تلاش کے اِس سفر میں قارئین کو قدم قدم پر اپنے ساتھ رکھا ہے۔ وہ اُن کی انگلی پکڑے قدیم شہر کی روایات، کھانوں، عبادت گاہوں، مزارات، شفا خانوں، درس گاہوں، چائے خانوں، بیکریوں، اکھاڑوں، ہوٹلوں، سینما گھروں، تاریخی عمارات، چوراہوں، بازاروں، قدیمی دروازوں، تَھڑوں اور باغات میں چہل قدمی کرتے نظر آتے ہیں۔

سادہ اور رواں، لیکن دِل کش اسلوب میں اولیائے کرامؒ، علماء، ادباء، شعراء، سیاسی و سماجی شخصیات سمیت شہر کے معروف کرداروں سے متعارف کروایا گیا ہے، یہاں تک شہر کے غنڈے اور بدمعاش بھی مصنّف کی نظروں سے اوجھل نہیں رہے۔ اِن کالمز کی ایک خُوبی یہ بھی ہے کہ اِن میں محض شہر کے اہم مقامات کی تاریخ ہی بیان نہیں کی گئی، بلکہ اُن سے وابستہ مختلف واقعات بھی شگفتہ انداز میں تحریر کیے گئے ہیں۔یوں کہنے کو یہ اخباری کالمز کا مجموعہ ہے، مگر اپنے وقیع مواد کے سبب اِسے لاہور پر لکھی گئی بہترین کتب میں شمار کیا جاسکتا ہے۔