نین تِرے انجان (ناول)

August 22, 2021

مصنّفہ: کنول بہزاد

صفحات: 184، قیمت: 500 روپے

ناشر: فکشن ہاوس، لاہور۔

یہ ناول روزنامہ جنگ کے’’ سنڈے میگزین‘‘ میں قسط وار شایع ہوتا رہا ہے اور اب اسے کتابی صُورت دی گئی ہے۔ اِس ضمن میں مصنّفہ کا کہنا ہے کہ ’’ایڈیٹر، سنڈے میگزین نے قارئین کو ناول لکھنے کی دعوت دی۔ بیٹی نے پڑھا تو سر ہوگئی کہ مَیں ناول لکھوں کہ میرے خوابوں سے واقف تھی۔ ناول کی کہانی تو برسوں سے میرے اندر ہی مقیّد تھی، بس اُسے رہائی چاہیے تھی۔ سو، قرطاس پر بکھرتی چلی گئی۔ کچھ اقساط ارسال کیں، تو چند روز بعد ہی ایڈیٹر، سنڈے میگزین کا کراچی سے فون آگیا کہ مَیں ناول مکمل کروں، وہ لوگ شایع کریں گے۔‘‘ شہریار جنوبی پنجاب کے ایک دُور دراز گاؤں میں رہتا تھا اور اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا، میٹرک میں ضلع بھر میں پہلی پوزیشن لی، تو مزید تعلیم کے لیے لاہور چلا گیا۔

وہاں سبین نامی لڑکی کو ٹیوشن پڑھانے لگا،تو بات محبّت تک بڑھ گئی، مگر سبین کی منگنی اپنے خالہ زاد سے ہوگئی، جو بعدازاں، ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ دوسری طرف، گاؤں میں شہریار کی ماموں زاد، پُروا اُسے چاہتی تھی، مگر شہریار نے اُس سے شادی سے انکار کردیا۔ پُروا کے بھائی، ایّاز نے اپنی بیوی کے دباؤ میں آکر اپنی معصوم بہن کی شادی اپنے بدقماش سالے سے شادی کروادی، مگر پُروا کم عُمری میں زچگی کے دَوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔

اُدھر کئی برسوں بعد شہریار اور سبین کی اچانک ملاقات ہوئی اور پھر دونوں نے شادی کرلی۔بظاہر یہ ایک روایتی سی کہانی ہے۔مگر مصنّفہ کا کمال یہ ہے کہ شہری اور دیہاتی زندگی کے مختلف پس منظر اور پہلوؤں کے ساتھ، لطیف انسانی جذبات کی اِس عُمدگی سے عکّاسی کی ہے کہ کہانی بالکل نئی اور منفرد سی محسوس ہوتی ہے۔کردار سادہ، حقیقت سے قریب اور تصنّع سے پاک ہیں اور جس ماحول میں جو بات ہونی چاہیے، وہ اُسی انداز سے کی گئی ہے۔