افغانستان میں طالبان کی واپسی

August 29, 2021

طالبان نے15 اگست کو کابل کے دروازوں پر دستک دی اور پھر صدارتی محل سمیت پورے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا۔اِس سے پہلے اشرف غنی مُلک چھوڑ کر متحدہ عرب امارات چلے گئے تھے اور وہاں سے ایک روایتی بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ وہ فرار نہیں ہوئے، بلکہ شہریوں کو خون ریزی سے بچانے کے لیے یہ راستہ اختیار کیا۔ شاید وہ بھول گئے کہ اُن کی حکومت کے دَوران برسوں خون ریزی جاری رہی، جس میں لاکھوں افغان شہری اور دیگر ہلاک ہوئے۔

اگر وہ چاہتے ،تو یہ کام پہلے بھی کیا جاسکتا تھا کہ آپس کا معاملہ تھا اور دونوں طرف افغانی ہی تھے۔درحقیقت، غنی حکومت امریکا اور نیٹو کی بے ساکھیوں پر کھڑی تھی، جن کے ہٹتے ہی دھڑام سے گر گئی، جس کا سب کو اندازہ بھی تھا۔ امریکی صدر، جو بائیڈن نے اسے افغان فوج کی شکست قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ اُسے جدید ترین ساز و سامان سے لیس کیا گیا، لیکن اُس کے پاس لڑنے کا عزم ہی نہیں تھا۔‘‘

طالبان نے کابل میں داخل ہوتے ہی شہریوں اور اہل کاروں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا اور اُنھیں، خاص طور پر خواتین کو ہر قسم کے تحفّظ کا بھی یقین دلایا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ’’ خواتین حجاب کے ساتھ ہر شعبے میں کام کرسکیں گی۔‘‘یہ اِس لیے بھی اہم ہے کہ طالبان، خواتین کے معاملے میں اپنی سخت گیر پالیسی کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ بعدازاں، اُنھیں مختلف ٹی وی پروگرامز میں خواتین اینکرز سے بات چیت کرتے ہوئے بھی دِکھایا گیا۔

اِس سے قبل مُلک کے باقی تمام 33 صوبے محض دس روز میں طالبان کے زیرِ تسلّط آ چکے تھے اور فوجی ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق، ’’یہ کارروائی کسی بڑی لڑائی کے بغیر عمل میں آئی اور بہت حد تک یک طرفہ رہی۔‘‘تین لاکھ جوانوں پر مشتمل افغان فوج نے ایک کے بعد دوسرا شہر طالبان کے حوالے کردیا۔ صوبوں کے گورنرز سرنڈر کرتے یا راہِ فرار اختیار کرتے رہے۔یوں افغانستان میں طالبان کی واپسی مکمل ہوگئی۔

ظاہر ہے، طالبان نے طاقت اور بندوق کی نوک پر دوبارہ حکم ر انی حاصل کی ہے، اِس لیے کسی بھی فاتح کی طرح اُن کے لیے بھی شکست خوردہ فریق کو غیر معمولی اہمیت دینا ممکن نہیں ہوگا، چاہے وہ اُن کے اپنے افغان بھائی ہی کیوں نہ ہوں۔ ماہرین کے مطابق، اگر اُن کے منصوبوں میں کسی بڑی سیاسی مفاہمت کی گنجائش ہوتی، تو وہ پہلے ہی کسی عبوری دَور کے لیے مفاہمت کرچُکے ہوتے۔اُنہوں نے واضح کردیا تھا کہ وہ خود کو افغانستان کا جائز حکم ران سمجھتے ہیں اور اس معاملے پر کسی سمجھوتے پر تیار نہیں ہوں گے۔

غالباً یہ بات اُنہوں نے دوحا مذاکرات کے اختتامی دَور میں امریکا، چین اور روس سمیت تمام علاقائی طاقتوں کو بھی بتادی تھی۔طالبان کی فتح کے آخری دس دنوں میں جو حالات سامنے آئے، اُن سے بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ جنگ کے اِس طرح کے انجام پر سب راضی تھے اور بعد میں صرف خفّت مٹانے کی کوشش کی گئی۔افغانستان پر طالبان کے تیز رفتار قبضے نے دنیا کو تو حیران کیا ہی، خود امریکی فوجی ماہرین نے بھی دانتوں میں انگلیاں دَبا لیں۔

فوجی ماہرین میں سے اکثر کی یہی رائے ہے کہ افغان فوج اور طالبان کے درمیان بہت کم مقابلے ہوئے اور زیادہ تر شہروں کو بغیر لڑے ہی فتح کیا گیا۔ جس ممکنہ خانہ جنگی کا ہر طرف ذکر تھا اور لاکھوں افراد کے مارے جانے یا بے گھر ہونے کے خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا،وہ کہیں نظر نہیں آئی۔طالبان نے مزار شریف اور جلال آباد جیسے اہم شہروں پر تو ایک، ایک دن ہی میں قبضہ کر لیا۔ طور خم بارڈر کے قریب واقع جلال آباد کے متعلق بتایا گیا کہ اُسے ایک معاہدے کے تحت کوئی گولی چلائے بغیر طالبان کے حوالے کردیا گیا اور صبح جب لوگ نیند سے بیدار ہوئے، تو وہاں طالبان کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔

کچھ ایسا ہی کابل میں ہوا۔طالبان امریکا کے ساتھ کیے گئے اپنے اس معاہدے پر قائم رہے کہ کسی بھی غیر مُلکی سفارتی عملے کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ایک طرف طالبان کابل میں موجود تھے، تو دوسری طرف وہاں کے ہوائی اڈّے کا کنٹرول امریکی فوجیوں نے سنبھالا ہوا تھا اور وہ اپنی نگرانی میں لوگوں کو طیاروں میں بَھر بَھر کر باہر بھجواتے رہے۔ظاہر ہے، یہ سب کچھ کسی مفاہمت کے تحت ہی ممکن ہوا ہوگا۔

یوں لگتا ہے، دوحا میں جو بھی مذاکرات ہوتے رہے ہوں، لیکن پسِ پردہ بھی بہت کچھ طے ہوتا رہا، جس میں غیر مُلکی شہریوں اور سفارتی عملے کے تحفّظ کی یقین دہانی حاصل کی گئی۔ پاکستان نے واضح کردیا تھا کہ اُس کا اب طالبان پر کوئی اثر نہیں رہا، اِس لیے وہ افغان حکومت کو بچانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔طالبان کے کابل داخلے پر پاکستان نے اپنے پالیسی بیان میں کہا کہ’’ پاکستان، افغانستان میں مداخلت نہیں کرے گا اور تمام لسانی گروپس کی شمولیت سے جامع تصفیہ ہی مسئلے کا واحد حل ہے۔‘‘

طالبان کی برق رفتار فتوحات نے تجزیہ کاروں کو بہت سے سوالات فراہم کیے ہیں۔افغان فوج اور طالبان کے درمیان جنگ کہاں ہوئی؟ کیا کسی نے دونوں کو مقابلہ کرتے دیکھا؟ جیسے سوالات اِس لیے بھی اہم ہیں کہ جنگ محض میڈیا بیانات ہی میں نظر آئی، جہاں طالبان کے دعوے تھے کہ’’ وہ اب فلاں شہر پر قابض ہوچُکے ہیں اور افغان فورسز نے ہتھیار ڈال دیے،جنھیں محفوظ راستہ فراہم کردیا گیا۔‘‘ دوسری طرف، حکومتی ترجمان کے بیانات تھے، جن میں مقابلوں کے دعوے، فوج کی تیاری اور فضائی قوّت کے استعمال کی دھمکیاں تھیں،جب کہ ایسا کچھ نہیں ہوا اور ہفتے بھر میں افغانستان کا وسیع و عریض علاقہ طالبان کے پاس چلا گیا۔

پاکستانی سرحد پر اسپن بولدک، ازبکستان اور ایران کی سرحدی چوکیاں بھی اُن کے پاس تھیں، جہاں وہ ٹیکس بھی وصول کر رہے تھے، اِس قدر اہم مقامات پر بھی کوئی مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ جنگ، جس میں دارالحکومت کابل کی فتح بھی شامل ہے، ملٹری سائنس میں کسی عجوبے سے کم نہیں۔پوچھا جا رہا ہے کہ اگر طالبان کی واپسی محض ایک رسمی کارروائی تھی، تو پھر اُسے جنگ کی صُورت کیوں دی گئی؟ اسے پُرامن طریقے سے بھی ہینڈل کیا جاسکتا تھا۔ تو کیا عالمی طاقتوں امریکا، چین، روس اور علاقائی ممالک پاکستان، ایران، تُرکی اور وسط ایشیائی ممالک کو پہلے سے اِن باتوں کا علم تھا؟

تجزیہ کار اِس لیے بھی یہ بات کہتے ہیں کہ کسی نے طالبان کی فتح پر حیرت یا پریشانی کا کوئی خاص اظہار نہیں کیا، حالاں کہ طالبان کے کابل میں داخل ہونے سے قبل اُن کی ممکنہ فتح کی بہت ہول ناک منظر کشی کی گئی تھی۔بہرحال، اہم شہروںپر طالبان کے قبضے کے بعد اشرف غنی حکومت کا جواز ختم ہوچُکا تھا۔اُن کے پاس تین لاکھ جوانوں پر مشتمل امریکا کی تربیت یافتہ فوج تھی اور اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری سے تعمیر کردہ انفرا اسٹرکچر، لیکن وہ اسے اپنے مُلک کی ترقّی کے لیے استعمال کرسکے اور نہ ہی مُلک کی حفاظت کر پائے۔

اُن کے فوجی ہتھیار ڈالنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہے، جیسے یہ اُن کے فرائض میں شامل ہو۔گویا اُنھوں نے جن افغان شہریوں کو حفاظت کی اُمید دِلائی اور ذمّے داری نبھانے کا عہد کیا، اُن سے بے وفائی کرتے رہے۔افغان حکم رانوں کا سارا زور بھی صرف بیانات ہی پر، وہ بھی زیادہ تر پاکستان کے خلاف، رہا۔صدر جو بائیڈن کا بیان اِس سلسلے میں بہت ہی صاف تھا۔ اُنہوں نے کہا’’ افغانستان کے دفاع کی ذمّے داری اُن کی حکومت، فوج اور عوام کی ہے، وہ خود اپنے معاملات چلائیں۔‘‘

شام کی خانہ جنگی کا بہت ذکر ہوتا ہے، جہاں لڑائی کے آغاز میں عالمی طاقتیں اسد حکومت کو تسلیم نہیں کرتی تھیں، خاص طور پر مغربی طاقتیں اوباما کے دَور میں اپوزیشن کو سپورٹ کرتی رہیں۔تُرکی نے اپنی سرحدوں میں شام کی ایک عارضی حکومت بھی قائم کی۔ جنیوا وَن اور ٹو مذاکرات ہوئے۔اِسی دَوران اسد حکومت تقریباً تین چوتھائی علاقہ داعش اور اپوزیشن کے ہاتھوں گنوا بیٹھی اور مکمل شکست کے قریب تھی۔ یہاں تک کہ اقوامِ متحدہ نے شام کے لیے اقتدار کی منتقلی کا روڈ میپ بھی تیار کر لیا تھا اور پھر پانسا پلٹ گیا۔

اوباما حکومت نے شام سے ہاتھ کھینچا، روس کو راہ داری دی اور ایران کی فوجی کارروائیوں پر آنکھیں موند لیں۔یوں روس دن، رات بم باری کرکے ایران کی مدد سے اسد فوج کو فتح دِلوانے میں کام یاب ہوگیا۔پانچ لاکھ شامی ہلاک اور ایک کروڑ سے زاید بے گھر ہوئے، امریکا کو کوئی پریشانی ہوئی اور نہ روس یا چین بے چین ہوئے، اور تو اور تُرکی نے بھی اسد حکومت کو بلاتکّلف تسلیم کر لیا۔شام میں چند ہفتے قبل ایک الیکشن ہوا، جس میں اسد واحد امیدوار تھے اور 96 فی صد ووٹ لے کر صدر’’ منتخب‘‘ ہوگئے۔شام کا بحران بظاہر طاقت کے ذریعے حل ہوا اور عالمی طاقتیں، ادارے سوائے صبر اور اسد حکومت کو تسلیم کرنے کے کیا کرسکے؟

اِس پس منظر میں اُن بیانات کو سمجھنا آسان ہے، جن میں طالبان کو تسلیم نہ کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔یہ بات کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، مگر زمینی اور سیاسی حقیقت یہی ہے کہ طالبان اب مُلک کے حکم ران ہیں اور اُنہوں نے اپنی طاقت سے اشرف غنی حکومت کو سرنڈر پر مجبور کیا۔دنیا میں ایسا بہت دفعہ ہوا، جب زمینی حقائق، سیاسی حقائق کو روند کر خود کو منوا لیتے ہیں۔برما میں فوجی حکومت نے قبضہ کر لیا، تو وہاں کی نوبیل انعام یافتہ اپنی تمام تر مقامی اور عالمی مقبولیت کے باوجود کیا کر سکیں؟

افغانستان پر اب پھر سے طالبان حکم ران ہیں، لیکن اِس مرتبہ وہ پہلے کی طرح دنیا کی نظروں سے دُور اور خاموشی سے مُلک پر قابض نہیں ہوئے۔دنیا کی کوئی بڑی طاقت یا فورم ایسا نہیں، جہاں اُنہوں نے مذاکرات نہ کیے ہوں۔ وہ گزشتہ دوسالوں میں عالمی سیاسی نظام سے رابطے میں رہے۔عالمی اور علاقائی طاقتیں اُنہیں اپنے تحفّظات، مطالبات اور توقّعات سے آگاہ کرتی رہیں۔اِس بار معاملہ پہلے کی طرح صرف پاکستان یا سعودی عرب کے تسلیم کرنے کی حد تک نہیں ۔

طالبان نے دس دنوں میں مُلک پر قبضہ کیا، لیکن اِس دَوران شہریوں کی ہلاکتیں بہت ہی کم ہوئیں(طالبان کے مطابق پچاس ہلاکتیں ہوئیں) اور ان میں بھی شاید ہی کوئی سرکاری افسر شامل ہو، کیوں کہ زیادہ تر کو مفتوحہ علاقے سے نکلنے یا وہاں پُرامن طور پر رہنے کا موقع دیا گیا۔فی الحال اِس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ مستقبل میں وہ کچھ افراد پر مقدمات قائم کرتے ہیں یا نہیں؟البتہ عام جمہوری حکومتوں میں بھی مخالفین پر مقدمات بنانے یا اُنھیں جیلوں میں ڈالنے کا رواج ہے۔ایک اہم بات یہ بھی رہی کہ طالبان نے فوجی پیش قدمی کے دَوران شاید ہی کسی سرکاری عمارت یا نجی املاک کو نقصان پہنچایا ہو۔

اُنھیں معلوم تھا کہ یہ سب اُنہی کے تصرّف میں آئے گا، اسے تباہ کرنا اپنے ہی نقصان کے مترداف ہے۔یہ قابلِ تحسین رویّہ ہے، وگرنہ فاتح فوجیں تو جوشِ انتقام میں جانے کیا کچھ کر گزرتی ہیں۔اِسی طرح سرکاری اور نجی گاڑیوں کو بھی نقصان نہیں پہنچایا گیا، یوں لگا کہ ایک حکومت کے اہل کاروں نے دوسری حکومت کو یہ اثاثے منتقل کردیے۔یہ سوال بھی بار بار سامنے آ رہا تھا کہ تعلیم اور خواتین کے معاملے میں طالبان کا کیا رویّہ ہوگا۔عوام کو اُن کی پہلی حکومت کے دَوران اِس حوالے سے خاصے تلخ تجربات سے گزرنا پڑا تھا، تاہم اِس بار طالبان کچھ بدلے ہوئے نظر آئے۔

وہ سخت گیر تو ہیں، لیکن ان کی موجودہ قیادت میں ایسے افراد کی کمی نہیں ، جو جدید دَور کے تقاضوں سے آشنا ہیں۔ اُنہوں نے قبضے کے ساتھ ہی مُلک چلانے کی ذمّے داری قبول کی ہے، جس کے لیے اُنہیں ٹیکنالوجی اور انفرا اسٹرکچر کی ضرورت ہوگی۔وہ اب کسی گروہ کی طرح کام نہیں کرسکیں گے، کیوں کہ اُن کے سامنے اب وہ نوجوان ہیں، جو نہ صرف جدید تعلیم سے آراستہ ہیں، بلکہ اپنے مُلک کے مختلف شعبوں میں کارکردگی بھی دکھاتے رہے ہیں۔ہم یہاں ایران کی مثال دیں گے۔

ایران بنیادی طور پر ایک مذہبی ریاست ہے، جس میں مذہبی کاؤنسل اور سپریم لیڈر فیصلہ کُن اختیارات رکھتے ہیں، لیکن جب حسن روحانی صدر بنے، تو اُن کی کابینہ کے زیادہ تر افراد بیرونِ ممالک سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے تھے۔ یہ تک کہا گیا کہ ایران کی کابینہ میں امریکی کابینہ سے زیادہ امریکی ڈگری ہولڈرز ہیں۔ ان افراد ہی نے امریکا سے نیوکلیر ڈیل کروا کر ایران کو امریکا سے اربوں ڈالرز دِلوائے۔ لہٰذا، طالبان بھی اب صرف ایک جنگ جُو گروہ یا تنظیم نہیں رہے، مُلک پر تسلّط حاصل کرنے کے بعد اُن پر پورے مُلک اور افغان عوام کی ذمّے داری ہے۔

طالبان کی قیادت مُلّا ہبۃ اللہ اخوندزادہ کر رہے ہیں، جو2016 ء میں مُلّا منصور اختر کے امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد سربراہ بنائے گئے۔وہ سپاہی سے زیادہ مذہبی اسکالر کی شہرت رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اُنہوں ہی نے طالبان کی موجودہ پالیسی بنائی ہے۔پھر اُن کے تین نائبین ہیں۔مُلّا عبدالغنی برادر، مُلاّ محمّد یعقوب اور سراج الدّین حقّانی۔مُلا بردار اپنے ڈپلومیٹک کردار کی وجہ سے گزشتہ دو سال سے عالمی فوکس میں ہیں کہ طالبان نے اُنہی کی قیادت میں دوحا میں امریکا سے مذاکرات کیے۔ان کا تعلق پوپلزئی قبیلے سے ہے، جو مُلک میں بہت بااثر سمجھا جاتا ہے۔

حامد کرزئی کا بھی اسی قبیلے سے تعلق ہے۔ مُلّا عُمر کے زمانے میں طالبان فوج کے کمانڈر، ہرات جیسے اہم صوبے کے گورنر اور نائب وزیرِ دفاع رہے۔ مُلّا محمّد یعقوب، مُلا محمّد عُمر کے صاحب زادے اور طالبان کے سیکیوریٹی چیف ہیں۔طالبان کے تیسرے نائب امیر سراج الدین حقّانی کا افغانستان کے صوبے پکتیکا سے تعلق ہے۔اُن کے والد بھی پہلی افغان جنگ میں اپنی کاررائیوں کے سبب مشہور ہوئے۔اِس نظام سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طالبان ایک منظّم تنظیم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

یہ لڑنے میں مہارت رکھتے ہیں، تو مذاکرات کے بھی اہل ہیں،اِسی لیے عالمی طاقتوں اور علاقائی ممالک کو توقّع ہے کہ طالبان کی صُورت میں اُن کا واسطہ ایک منظّم سیاسی قوّت سے ہوگا۔ جہاں بہت سے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے، وہیں یہ اُمید بھی ہے کہ یہ دَور طالبان کے پہلے دَور سے مختلف ہوگا۔طالبان کی قیادت اور اُن کے کام کرنے کا طریقہ انتہائی خفیہ رہا، گزشتہ بیس سال میں اُن کی قیادت کے بارے میں بہت کم باتیں منظرِ عام پر آئیں،لیکن یہ دیکھا گیا کہ اُنہوں نے مذاکرات کرنے اور حکومت چلانے کے لیے تقریباً ہر شعبے میں خود کو منظّم کرنے کی کوشش کی۔ گزشہ دو سالوں میں اُن کے بین الاقوامی برادری سے بھرپور رابطے رہے، جس کے دَوران اُنہیں جدید مملکت چلانے کے طور طریقے سیکھنے کے مواقع ملے۔

کابل کی فتح سے قبل طالبان وفد کا آخری غیر مُلکی دورہ چین کا تھا، جس کی قیادت مُلا برادر نے کی۔مُلا برادر ایک منجھے ہوئے مذاکرات کار ہیں اور بڑی مہارت سے طالبان کا کیس دنیا کے سامنے رکھتے رہے ہیں۔وہ کم گو ہیں اور بہت کم سیاسی بیانات یا پریس کانفرنس کرتے ہیں اور اُن کی گفتگو بھی نپی تُلی ہوتی ہے۔اِسی طرح طالبان کے میڈیا سیل سے انتہا پسندانہ نوعیت کے بیانات بہت کم آئے۔ اُنہوں نے زیادہ تر مفاہمت اور مُلک کی بحالی پر زور دیا، گو وہ شریعت کے نظام کو اپنی پالیسی کا مرکزی نکتہ بتاتے ہیں اور ظاہر ہے، یہی ان کی تنظیم کے وجود میں آنے کا جواز بھی ہے۔

افغانستان کی موجودہ صُورتِ حال میں پاکستان کا کیا کردار ہو سکتا ہے ؟یا ہونا چاہیے؟اِس پر بھی بات کرنا بے حد ضروری ہے۔ یہ تو طے ہے کہ پاکستان کے افغان بحران کی وجہ سے امریکا سے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر ہیں۔وزیرِ اعظم، عمران خان اِس ساری خرابی کی جڑ امریکا کی غلط پالیسی کو ٹھہراتے رہے ہیں، جب کہ امریکا، پاکستان کے کردار سے مطمئن نہیں، حالاں کہ دوحا مذاکرات ہی نہیں، باقی بات چیت میں بھی اسلام آباد کا کردار بہت مثبت رہا، لیکن طالبان کے تسلّط کے فوراً بعد وزیرِ اعظم کے زیرِ صدارت ہونے والے سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں تعلقات بہتر بنانے کے اشارے ملتے ہیں۔

پاکستان کے حوالے سے ایک اچھی بات یہ بھی ہوئی ہے کہ تمام تر اندازوں کے باوجود افغان مہاجرین کی آمد اب تک نہ ہونے کے برابر ہے۔اِس کی ایک وجہ تو وہ بائیس سو کلومیٹر طویل باڑ ہے، جو پاکستان نے افغان سرحد پر لگائی اور دوسری بات یہ کہ غنی حکومت کےآخری زمانے میں پاک،افغان تعلقات کچھ زیادہ خوش گوار نہیں رہے۔پھر افغان فورسز نے جس طرح طالبان کے سامنے سرنڈر کیا، اُس کے بعد خانہ جنگی کے امکانات ختم ہوگئے اور اُس طرح کی نقل مکانی بھی نہیں ہوئی، جس کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کے افغانستان سے متعلق ہونے والے دونوں اجلاسوں میں پاکستان کو بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

واضح رہے، پاکستان اِس وقت کاؤنسل کا رُکن نہیں ہے اور کسی غیر رُکن کو اجلاس میں بلانے نہ بلانے کا انحصار کاؤنسل کے ارکان کی مرضی پر ہے۔اِن دنوں سلامتی کاؤنسل کی صدارت بھارت کے پاس ہے۔پاکستان نے اجلاس میں نہ بُلانے پر شکوہ کیا ، مگر اِس کا بار بار ذکر کرکے اپنی سفارتی کارکردگی کا کوئی اچھا مظاہرہ نہیں کیاگیا۔اِس سے دنیا کے سامنے بار بار یہ بات آئی کہ افغانستان جیسے اہم مسئلے پر، جس میں پاکستان نے بنیادی کردار ادا کیا، اُسے سلامتی کاؤنسل میں بات تک نہیں کرنے دی گئی۔

یہ سوال بھی بار بار سامنے آ رہا ہے کہ طالبان کی واپسی اور افغانستان میں اُن کے دوسرے دورِ حکم رانی کے اُن کے مُلک، خطّے اور دنیا پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے۔ طالبان کا یہ نیا دَور، گزشتہ دَور سے کیسے مختلف ہوگا؟ اگر دیکھا جائے، تو اِس تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر وہ مُلک ہوں گے، جن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں اور اُن کے ہاں بھی ایسے ہی مذہبی اور لسانی گروہ موجود ہیں۔ان ممالک میں ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور پاکستان شامل ہیں۔لسانی اعتبار سے افغانستان میں پچاس فی صد پشتون ہیں اور باقی آبادی دیگر زبانیں بولنے والوں پر مشتمل ہے۔

یہ لسانی گروہ طالبان کے پہلے دَور میں اُن کے ساتھ نہیں تھے، اِسی لیے جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا، تو یہ شمالی اتحاد کی شکل میں اُس کا ہر اول دستہ بنے۔وسط ایشیا کے کسی بھی مُلک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔تاہم، اب حالات مختلف ہیں۔ گزشتہ دس سالوں میں طالبان نے غیر پشتونوں کو بھی اپنی صفوں میں نمایاں مقام دیا ہے، یہاں تک کہ کئی ایک کا اب اہم رہنماؤں میں شمار ہوتا ہے،اس سے اُن کی نمائندہ حیثیت بہتر ہوئی ہے۔ پاکستان سمیت کوئی بھی پڑوسی مُلک یہ نہیں چاہے گا کہ طالبان کے نظریاتی اثرات اُس کے ہاں بھی فروغ پائیں۔یہ ممالک اِس معاملے کو کس طرح کنٹرول کرتے ہیں؟یہ وقت ہی بتائے گا۔چین نے طالبان کے ساتھ رابطے رکھے ہوئے ہیں اور اُس کی جانب سے فوری طور پر بیان بھی آیا کہ’’ وہ کابل میں اپنا سفارت خانہ کُھلا رکھے گا۔‘‘

اُس نے نئے افغان سیٹ اَپ کے ساتھ تعاون کا بھی عندیہ دیا۔چین کا صوبہ سنکیانگ، افغانستان سے ملتا ہے، جس کا دارالحکومت مشہور اسلامی تاریخی شہر، کاشغر ہے۔یہ مسلم اکثریتی صوبہ ہے، جس سے متعلق مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ چین وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوّث ہے۔تاہم،چین اِسے پروپیگنڈا قرار دے کر مسترد کرتا رہا ہے۔یقیناً ،چین نے طالبان سے یقین دہانی لی ہو گی کہ وہ اُس کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے اور اپنی سرزمین اُس کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔نصف افغانستان کھنڈر بن چُکا ہے، اِس لیے طالبان کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ ترقّی اور مُلک کی بحالی پر زور دیں۔

وہ خود بھی کہہ چُکے ہیں کہ اقتصادی ترقّی اُن کا بنیادی ہدف ہوگا۔چین اِس معاملے میں اُن کا سب سے بڑا مدد گار ہوسکتا ہے اور اُنھوں نے چین کو اِس کی دعوت بھی دی ہے۔چین کوئی مسلم مُلک نہیں بلکہ ایک کمیونسٹ مُلک ہے، اِس لیے طالبان کو اُس سے تعلقات میں وہی طریقہ اپنانا پڑے گا، جو پاکستان اور اب ایران نے اپنایا ہے۔روس نے بہ حیثیت سوویت یونین پہلی افغان جنگ لڑی اور اُسے بدترین پسپائی کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں وہ بکھر گیا۔اس کے بعد اُس نے افغان معاملات میں اسی حد تک دل چسپی لی کہ امریکی پالیسیز کی حمایت یا مخالفت کرتا رہا۔البتہ گزشہ دو سالوں سے وہ طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے۔اس نے طالبان وفود سے مذکرات کیے اور افغان بحران پر کانفرنسز بھی کروائیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کا خطّے میں کردار بڑھا ہے۔

پاکستان میں بہت سے لوگوں نے طالبان کی واپسی کو فتح کے طور پر منایا ہے، جس پر کئی ایک تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طالبان کے نظریاتی اثرات پاکستان تک بھی وسیع ہوسکتے ہیں، جو شاید شدّت پسندی کے فروغ کا باعث ہوں۔اُن کے مطابق، طالبان کی کام یابی سے یہاں کی انتہا پسند تنظیموں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔تاہم، پاکستان کے لیے یہ بات اطمینان کا باعث ہوگی کہ اشرف غنی کے جانے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں ملوّث افراد کے ساتھ افغان حکومت کا گٹھ جوڑ ختم ہوجائے گا، جس سے پاکستان میں دہشت گردی میں کمی واقع ہوگی۔ طالبان، کالعدم ٹی ٹی پی یا کسی اور گروہ کو پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے، کیوں کہ بہرحال وہ پاکستان کے شُکر گزار ہیں اور اس سے بہتر تعلقات بھی رکھنا چاہیں گے۔یقیناً اسلام آباد نے بھی اِس سلسلے میں طالبان رہنمائوں سے یقین دہانیاں حاصل کی ہوں گی۔

طالبان حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج افغان معیشت کی بحالی ہے۔ معیشت ایک ٹھوس معاملہ ہے اور اس کا جذبات اور بیانات سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو عمل اور گڈ گورنینس چاہتی ہے۔اقتصادی ماہرین کے مطابق، اِس وقت افغان معیشت منفی4.6 ہے۔اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اُنہیں فوری طور پر دنیا سے امداد اور قرضے حاصل کرنا پڑیں گے۔روس اور پاکستان کی اقتصادی صُورت حال ایسی نہیں کہ وہ افغانستان کی کوئی بڑی مالی مدد کرسکیں۔البتہ، وہ تیکنیکی یا ماہرانہ مشاورت کے ساتھ اُسے تجارتی راہ داری فراہم کرسکتے ہیں۔چین کی جانب سے کچھ دل چسپی تو ظاہر کی گئی ہے، مگر یہ مدد کس نوعیت کی ہوگی؟ ابھی کوئی واضح شکل سامنے نہیں آئی۔

افغانستان کے تقریباً دس ارب ڈالرز امریکی خزانے میں رکھے ہوئے ہیں، جو اُس نے منجمد کردیے ہیں۔ امریکا ،طالبان کو یہ رقم اُسی وقت ادا کرے گا، جب وہ اُس کے ساتھ معاملات طے کرلے گا۔مغربی ممالک کی بھی یہی سوچ ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ ممالک طالبان کے طرزِ حکم رانی اور عوام کے حقوق کے تحفّظ کے ضمن میں ٹھوس اقدامات کا انتظار کریںگے۔ہاں، وہ انسانی ہم دردی کی بنیاد پر کچھ رقوم، اجناس اور ادویہ ضرور فراہم کرسکتے ہیں۔

بھارت کے طالبان سے رابطے رہے ہیں، مگر اُن کے کابل میں داخلے کے بعد بھارت بہت پیچھے چلا گیا اور اُس کی جانب سے میڈیا پر طالبان کے خلاف محاذ بھی کھول دیا گیا، جس سے دونوں کے درمیان کشیدگی نظر آ رہی ہے۔بھارت نے افغانستان میں ایک سو سے زاید ترقّیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔طالبان نے اُسے اُن منصوبوں پر کام جاری رکھنے کی پیش کش کی ہے، مگر بھارت کی جانب سے تادمِ تحریر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ طالبان اِس اَمر کا اعادہ کر رہے ہیں کہ وہ کسی بھی مُلک سے دشمنی نہیں چاہتے اور سب سےتجارت، معاشی تعلقات جاری رکھنے کے خواہاں ہیں۔ماہرین کے مطابق، طالبان کے لیے اپنے نئے نظام کو عالمی برادری سے تسلیم کروانا اہم چیلنج ہوگا تاکہ انھیں افغانستان کی بحالی میں مدد مل سکے اور وہ دنیا میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔