قائدِ اعظم کے طلباء سے چند خطابات

August 26, 2021

ملک کا مستقبل نوجوانوں کی سوچ کے معیار اور اندازِ فکر پر منحصر ہوتا ہے‘ یہ جتنی بامقصد اور بلند ہوگی‘ ملک ترقی کی منازل اتنی تیزی سے طے کرے گا۔ قائدِ اعظم محمد جناحؒ کو نوجوانوں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں۔ وہ نوجوانوں سے صرف یہی توقع رکھتے تھے کہ وہ ملکی ترقی کے ہر دور میں اپنا متحرک اور نتیجہ خیزکردار بھرپور طریقے سے انجام دیں۔

اس ضمن میں جب بھی اور جہاں بھی قائد کو نوجوانوں سے مخاطب ہونے کا موقع میسر آیا، انہوں نے اپنے افکار عالیہ کی صورت میں نوجوان ذہنوں کی فکری آبیاری کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ انہوں نے ایک بار نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ”میں آپ کو مصروف ِ عمل ہونے کی تاکید کرتا ہوں، کام، کام اور بس کام، سکون کی خاطر، صبر و برداشت اور انکساری کے ساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے جائیں“۔تقریباً آپ اپنے ہر خطاب میں نوجوانوں کو کوئی نہ کوئی نصیحت یا پیغام ضرور دیتے تھے۔

قائداعظم نے لاہور میں طلبا سے 30 اکتوبر 1937) خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’تعمیرِ پاکستان کی راہ میں مصائب اور مشکلات کو دیکھ کر نہ گھبرائیں۔ نومولود اور تازہ وارد اقوام کی تاریخ کے متعدد ابواب ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں کہ ایسی قوموں نے محض قوتِ ارادی، توانائی، عمل اور عظمت ِکردار سے کام لے کر خود کو بلند کیا۔ آپ خود بھی فولادی قوت ارادی کے مالک اور عزم وارادے کی دولت سے مالا مال ہیں۔ مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ تاریخ میں وہ مقام حاصل نہ کریں جو آپ کے آباؤ اجداد نے حاصل کیا تھا۔ آپ میں مجاہدوں جیسا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

قائداعظم کو نوجوان مسلم طلبا سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں اور نوجوانوں نے قائداعظم کی امیدوں کو ٹوٹنے نہیں دیا، بلکہ اور زیادہ مضبوط کیا۔ قیام پاکستان کی پور ی تحریک کے دوران قائداعظم نے بہ ذات خود نوجوانوں کی لازوال ہمت،جوان مردی اور استقامت کا مشاہدہ کیا تھا اس لیے وہ سمجھتے تھے نوجوان اگر ایک بار تہیہ کرلیں تو وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں اُن کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوسکتی۔

1937 ء کے کلکتہ کے اجلاس میں قائداعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’نئی نسل کے نوجوانو! آپ میں سے اکثر ترقی کی منازل طے کرکے اقبال اور جناح بنیں گے ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ قوم کا مستقبل آپ لوگوں کے ہاتھوں میں مضبوط رہے گا‘‘۔

قائداعظم نے ڈھاکہ میں نوجوان طلبا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’میرے نوجوان دوستو! میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار بنیں گے تو یہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ یاد رکھیے کہ اب ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوچکی ہے ۔ یہ ہماری اپنی حکومت ہے، ہم ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے مالک ہیں۔ لہٰذا ہمیں آزاد اقوام کے افراد کی طرح اپنے معاملات کا انتظام کرنا چاہئے۔

اب ہم کسی بیرونی طاقت کے غلام نہیں ہیں، ہم نے غلامی کی بیڑیاں کاٹ ڈالی ہیں۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ، میرے نوجوان دوستو! اب میں آپ ہی کو پاکستان کا حقیقی معمار سمجھتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنی باری آنے پر کیا کچھ کر کے دکھاتے ہیں۔ آپ اس طرح رہیں کہ کوئی آپ کو گمراہ نہ کرسکے۔ اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور استحکام پیدا کریں اور ایک مثال قائم کریں کہ نوجوان کیا کچھ کرسکتے ہیں‘‘۔

قائدِ اعظمؒ کو نوجوانوں سے یہی تو قع تھی کہ وہ اپنی تہذیب کو اپنائیں‘ مغربی یلغار سے متاثر نہ ہوں بلکہ اپنی تہذیب میں اُنہیں ڈھال لیں۔مارچ 1948ء میں ڈھاکہ میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”میرے نوجوانو! میں تمہاری طرف توقع سے دیکھتا ہوں کہ تم پاکستان کے حقیقی پاسبان اور معمار ہو۔ دوسروں کے آلہ کار مت بنو‘ان کے بہکاوے میں مت آؤ۔ اپنے اندر مکمل اتحاد اور جمعیت پیدا کرو اور اس کی مثال پیش کر دو کہ جوان کیا کر سکتے ہیں“۔

قائد اعظمؒ نے ایک موقع پر خطاب کرتے ہوئے طلباء سے فرمایا:’’آپ کو یاد ہوگا، میں نے اکثر اسی امر پر زور دیا ہے کہ دشمن آپ سے آئے دن ہنگاموں میں شرکت کی توقع رکھتا ہے۔ آپ کا اولین فرض علم کا حصول ہے جو آپ کی ذات، والدین اور پوری قوم کی جانب سے آپ پر عائد ہوتا ہے۔ آپ جب تک طالب علم رہیں اپنی توجہ صرف تعلیم کی طرف مرکوز رکھیں اگر آپ نے اپنا طالب علمی کا قیمتی وقت غیر تعلیمی سرگرمیوں میں ضائع کردیا تو یہ کھویا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا‘‘۔

قائد اعظم تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ یہ توقع بھی کرتے تھے کہ نوجوان نہ صرف اپنے ملک بلکہ ساری دنیا کے سیاسی مسائل میں ضرور دلچسپی لیں لیکن اس سے مراد یہ نہیں کہ اس دلچسپی کی خاطر نوجوان تعلیم چھوڑدیں یا سیاست کو مقدم اور مطالعہ کو مؤخر سمجھیں یا اس عمر میں اپنا قیمتی وقت ضائع کردیں۔ 18 اکتوبر 1945 ء کو بلوچستان کوئٹہ میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس میں کہا: طلبہ سیاست کا مطالعہ ضرور کریں لیکن وہ سیاست کو اپنی تعلیم کا حصہ نہ بنائیں‘‘۔

اپریل 1948ء کو پشاور میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میرے نوجوان دوستو! آپ اپنی شخصیت کو محض سرکاری ملازم بننے کے خول میں محدود نہ کیجئے۔ اب نئے میدان، نئے راستے اور نئی منزلیں آپ کی منتظر ہیں۔ سائنس، تجارت، بنک، بیمہ، صنعت و حرفت اور نئی تعلیم کے شعبے آپ کی توجہ اور تجسس کے محتاج ہیں۔"

قائداعظم محمد علی جناح کی اپنے ملک کے نوجوانوں کے ساتھ یہ فکری وابستگی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اُن کے نزدیک پاکستان کے روشن مستقبل کی زمام کار صرف اور صرف قابل اور باکردار نوجوانوں کے ہاتھ میں ہی ہے۔نوجوان قائداعظم کے فرمودات کو مشعل راہ بنا کر ملکی سلامتی و بقاء اور نظریاتی و سیاسی استحکام کے لیے بہت بڑا اور اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔