غزل: میرے گلشن میں بھی یارو جو کوئی باغ باں ہوتا...

September 19, 2021

سخاوت علی جوھرؔ

میرے گلشن میں بھی یارو جو کوئی باغ باں ہوتا

مہکتا خوش بوؤں سے پھر مِرا یہ آشیاں ہوتا

نہ ہوتے ہر زباں پر میری ناکامی کے یوں چرچے

اگر تُو ہی میری اِس زندگی کا رازداں ہوتا

نہ جاتا سر جُھکانے غیر کی چوکھٹ پہ مَیں اپنا

اگر نظروں میں میری آپ کا یہ آستاں ہوتا

رہی ہے زندگی میں حسرتِ ناکام ہی پنہاں

کبھی اے کاش! مجھ پر بھی جو کوئی مہرباں ہوتا

مقدّر نہ کبھی بنتی میری یہ وحشتِ تنہائی

نہ گرتی بجلیاں مجھ پر، نہ اُجڑا آشیاں ہوتا

کرکے تعریف اُس نے زندگی برباد کر ڈالی مِری

نہ کرتا وہ میری تعریف تو احساں ہوتا

قربتیں اتنی نہ بڑھتیں کسی صُورت اپنی

ذرّہ بھر بھی وہ اگرہم سے بدگماں ہوتا

نہ پھرتا دَر بدر اس طرح جوھرؔ کبھی یارو

بَھری بستی میں گر،میرا بھی کوئی پاسباں ہوتا