آکس، ایک اور امن دشمن معاہدہ

September 25, 2021

روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
امریکی خارجہ پالیسی کئی معاملات پر بوکھلاہٹ اور کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے، خصوصاً چین کےمعاملے پر امریکہ کو دنیا میں اپنی سنگل سپر پاور کی فکر نے اسے ایسی حرکات کرنے پر مجبور کریا جس سے وہ دنیا میں اپنے اتحادی کھوتا ہوا نظر آتا ہے۔ابھی امریکہ برطانیہ اور آسٹریلیا کے مابین آکس( AUKUS ) کے نام سے ایک بہت بڑا دفاعی شراکت داری کا معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت آسٹریلیا ایسی خطرناک آبدوزیں بنائے گا جو کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہوں گی جس دن اس معاہدے کا اعلان کیا گیا دراصل اسی دن چند گھنٹے بعد اسی طرح کی ڈیل پر فرانس اور آسٹریلیا کے مابین دستخط اور اعلان ہونے جارہا تھا جس کے تحت آسٹریلیا نے فرانس کی مدد سے 12 آبدوزیں بنانا تھیں جس پر فرانس اِس وقت برطانیہ اور امریکہ سے بہت برہمی کا اظہار کررہا ہے ۔ امریکہ کا آکس معاہدے کے پھرتی سے اعلان پر یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کو چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کھائے جارہی ہے اور وہ چین کو نئی کولڈ وار میں الجھانا چاہتا ہے بلکہ دنیا میں اسلحے کی نئی دوڑ کا آغاز کرنا چاہتا ہے امریکہ کو دراصل دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کو چلانے کا یہی طریقہ آتا ہے۔ امریکہ کا ساتھ 70 برس قبل روس کے ساتھ اسلحے کی جو دوڑ کا تجربہ ہے جس کے نتیجے میں روس امریکہ کے ساتھ اسلحے کی دوڑ میں مبتلا ہوکر اپنی اقتصادی ترقی کو بھول بیٹھا تھا اور بالآخر روس کے پاس فوجی طاقت کے علاوہ سب کچھ اسی دوڑ کی نذر ہوگیا تھا جو روس کے شیرازہ بکھرنے پر منتج ہوا تھا،اب چین کے ساتھ بھی امریکہ وہی ذہنیت دکھانا چاہتا ہے جس سے چین نہ صرف اچھی طرح آگاہ ہے بلکہ امریکہ کے اس آکس معاہدے پر چین نے اس امریکی ذہنیت کو نشانہ بنایا ہے۔ جسے سے مجھے لگتاہے کہ اب امریکہ گھاٹے کا سودا کرنے پر تل چکا ہے۔ آج 2021 کا چین اور 60، 70 برس پہلے کے روس میں بڑا فرق ہے۔ چین کی اقتصادی صورت حال امریکہ کے گمان سے بھی زیادہ مضبوط ہے اور نظریاتی طور پر بھی امریکہ اور پورا یورپ، چین کی سیاسی حکمتِ عملی کو سمجھنے سے قاصر ہے جس کی وجہ چین کا کمیونسٹ ماضی ہے اور وہ جس قسم کے تجربے سے گزر کر آج کے چین تک پہنچا ہے اور جس مائنڈ سیٹ کے ساتھ سپر پاور بننے جارہا ہے ایسا لگتا ہے امریکہ اور مغرب کی سمجھ سے باہر ہے۔ امریکہ اور مغرب پرانے اور اولڈ فیشن سامراجی تجربے سے آگے سوچ ہی نہیں سکتے کیوں کہ یہ سرمایہ داری کے ایسے نظام کے داعی اور محافظ ہیں جو کہ سرمایہ داری نظام کو اور اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے صرف کھلی لوٹ کھسوٹ پر یقین رکھتے ہیں اور میڈیا کی طاقت سے دنیا کا مائنڈ سیٹ چلاتے اور کنٹرول کرتے ہیں، ان کی سیاست ملٹر ازم پر جاکر رکتی ہے جب کہ چین نے آس پڑوس سے دولت لوٹ کر ترقی نہیں کی اس لیے اس کے سارے حوالے اس پرانی سرمایہ داری سے مختلف ہیں، اس لیے مجھے لگتاہے کہ پرانا سرمایہ داری نظام نئے سرمایہ داری نظام سے منہ کی کھانے جارہا ہے، اب فرانس کو ہی لے لیں جو کہ آکس معاہدے سے بہت نالاں ہے جس سے یورپ، امریکہ سے دوری اختیار کرے گا اِدھر یورپ میں بھی امریکہ ڈالر کی بجائے اپنی یورو ڈالر کرنسی کو ذریعہ تجارت بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے حالیہ اقدامات یورپ کو اسی جانب دھکیل رہے ہیں جس میں بالآخر چین کے لیے راہیں ہموار ہوں گی۔ اس وقت امریکہ سائبر ٹیکناجوی اور زیر سمندر ٹیکنالوجی پر بھی کھربوں ڈالر خرچ کرٓنے جارہا ہے جس سے وہ چین کو اسی اسلحے کی دوڑ میں الجھانا چاہتا ہے ، امریکہ کی اس خطرناک حکمتِ عملی سے دنیا پر اور ماحولیات پر تباہ کن اثرات کے خدشات محسوس کیے جارہے ہیں، ادھر آسٹریلیا کو چین کی جانب سے تجارتی پابندیوں کی الگ سے تکلیف ہے، جب کہ ایک زمانے میں آسٹریلیا چین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر تھا ، ابھی آسٹریلیا کی فرانس سے جو دفاعی ڈیل ہوتے ہوتے رہ گئی ہے یہ 27 بلین پائونڈ(45بلین ڈالر) مالیت کی 12 ایٹمی آبدوزیں تیار ہونے کا معاہدہ ہونا تھا۔ یہ آبدوزیں راڈار میں آسانی سے ٹریس نہیں ہوسکتیں۔ اب امریکی امداد سے تیار کی جانے والی آبدوزوں سے آسٹریلیا ساتواں ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت رکھنے والا ایٹمی آبدوزوں والا ملک ہوگا جس سے بحر الکاہل میں نیا تلاطم پیدا ہوگا۔ البتہ اس تمام تر دوڑ میں یہ بڑی طاقتیں جو پراکسی وار شروع کریں گی وہ پاکستان، ایران، افغانستان اور اس خطے کو اپنی لپیٹ میں لیں گی، افغانستان کی موجودہ صورت حال آہستہ آہستہ پورےخطے کو اپنی جانب لیتی چلی جائے گی، اب روس اور چین اس صورت حال کو کس طرح دیکھتے ہیں یہ آنے والے چند مہینوں میں عیاں ہوجائے گا اور پاکستان اس دوڑ میں اپنی رسی کس کھونٹے سے باندھے گا یا کس طرف دھکیلا جائے گا یہ بھی آئندہ دو تین ماہ میں واضح ہوجائے گا۔