نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

September 25, 2021

تحریر:مفتی عبدالمجید ندیم۔۔۔برمنگھم
سید ابو الا علیٰ مودویؒ ان نابغہ روزگار شخصیات میں سے تھے جنہوں نے تاریخِ اسلا م میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔انہوں نے ایسے وقت میں اسلا می تعلیما ت کو ایک نئے انداز سے پیش کیا جب اسلا م کے با رے میں ایک طرف شکو ک و شبہا ت پھیلا ئے جا رہے تھے تو دوسری طرف برصغیر کے مسلمان بد ترین غلا می کا شکا ر ہو کر ذہنی و جسمانی طور پر مفلو ج ہو چکے تھے ، یہی وہ وقت تھا جب مو لا نا محمد علی جو ہرؒ ،مولانا شوکت علیؒ،مولانا سید سلیما ن ندویؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ،علا مہ محمد اقبالؒ اور ان جیسے ہزاروں علما ء اور دانشوروں نے برصغیر کے مسلما نوں کوخوابِ خرگوش سے بیدار کیا اور ان میں جرأتِ ایما نی اور غیرتِ ملی کو نئے سرے سے تازہ دم کیا جس کی وجہ سے بیداری کی وہ لہر پیدا ہو ئی جس نے دینِ اسلا م کے احکاما ت پر عمل اور آزادی و حریت کی عظیم الشان داستان رقم کی ۔ سید ابو الا علیٰ مودودیؒ کا شجرہ نسب خواجہ معین الدین چشتیؒ کے شیخ سید قطب الدین مودودؒ سے ملتا ہے ۔اسی نسبت سے ’’ مودودی‘‘ آپ کے نام کا حصہ ہے ۔آپ کے والد محترم بھی ایک بلند پایہ دانشور اور تعلیم و تعلم سے محبت رکھنے والے بزرگ تھے ۔آپ کی والدہ بھی انتہائی پارسا اور اللہ والی خاتون تھیں،آپ کی تعلیم کی ابتدا مدرسہ فرقانیہ سے ہو ئی اور پھر مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہو تا چلا گیا ،آپ میں جوانی کے ابتدائی ایام میں ہی لکھنے لکھانے کا ایسا شوق پیدا ہوا کہ صرف 21 برس کی عمر میں ہی جمعیت علمائے ہند کے مؤقر رسالے’ الجمیعہ‘ کے ایڈیٹر مقرر کر دئیے گئے۔اس رسالے میں آپ نے ایسے ایسے موضوعات پر جرأت، بہادری اور علم و حکمت سے عوام و خواص کے سامنے اپنا نقطہ نظرپیش کیا کہ پورے ہندوستان کے علمی و ادبی حلقوں میں آپ کا چرچا ہو نے لگا ،آپ نے صرف 18 برس کی عمر میں ’الجہاد فی الاسلام‘ تصنیف فرما کر علماء، دانشوروں اور ادبا ء کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ، اس زمانے میں یہ ایک ایسا موضوع تھا جس پر لکھنے کے لیے علما ء اور ماہرین کا قلم بھی کا نپ جاتا تھا لیکن مولا نا محمد علی جو ہرؒکی تقریر میں اٹھا ئے جا نے والے سوال کا جواب نوجوان سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اس مہارت سے دیا کہ سب ہی عش عش کر اٹھے، سید ابو الا علیٰ مودودیؒ کے علم و فضل کا چرچا ہر طرف ہو نے لگا ،تھوڑے ہی عرصے بعد انہوں نے محسوس کر لیا کہ اسلا م کے بارے میں ان کے انقلابی تصور اور برصغیر کے مسلمانوں کو زوال کی صورتِ حال سے با ہر نکا لنے کے لیے ’الجمیعہ‘ کا دامن بہت تنگ ہے لہٰذا آپ’الجمیعہ‘ سے الگ ہو گئے اور ایک انقلابی رسالے ’’ترجمان القرآن‘‘ کا آغاز فرمایا۔ میرے ذاتی احساسات یہ کہتے ہیں کہ سید ابو الا علیٰ مودودیؒ، مولانا ابوالکلام آزاد ؒ سے علمی طور پر بہت زیا دہ متاثر تھے یہی وجہ ہے کہ سید ابو الا علیٰ مودودی ؒ نے اپنے رسالے کے لیے وہی نا م پسند فرما یا جو مولانا ابوالکلا م آزادکی تفسیرِ قرآن کا تھا ۔دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ سید ابو الا علیٰ مودودی اس رسالے کے ذریعے قرآنِ مجید کی تعلیما ت کو عام کرنا چا ہتے تھے۔اس رسالے کا آغاز ہونا تھا کہ برصغیر کے طول و عرض میں ایک انقلاب برپا ہو نے لگا ۔ عوام النا س نے جہاں اس کی زبردست پذیرائی کی ،وہیں پر علما ء ، دانشوروں اور سیا ستدانوں نے اسے ہا تھوں ہا تھ لیا ۔یہ رسالہ ایک ایسی دستاویز تھا جس نے قرآنی تعلیما ت کو پوری سچائی اور دلا ئل کے ساتھ پیش کیا اور اسلام کے خلا ف اٹھنے والے شکو ک و شبہات کا ایسا ازالہ کیا کہ نوجوان نسل شکوک و شبہات کے اندھیروں سے با ہر نکلنے لگی۔ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے علم و فضل کی خبر علامہ اقبالؒ تک پہنچ چکی تھی، وہ اس با ت کے قائل ہو چکے تھے کہ اسلا م کے انقلا بی پیغام کو جدید تعلیم یا فتہ طبقے تک اگر کو ئی شخصیت پہنچا سکتی ہے تو وہ صرف اور ٖصرف سید ابو الاعلیٰ مودودی کی ہے ،یہی وجہ ہے کہ علا مہ اقبا ل ؒ نے سید مودودی کو اس عظیم الشان منصوبے کی طرف متوجہ فرمایا ہے ۔انہی کی ہدایات تھیں کہ سید ابوالا علیٰ مودودی پٹھان کوٹ منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے علا مہ اقبا ل کے دئیے گئے نقشے کے مطا بق اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے علمی اور عملی کا م شروع کر دیا ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب سید ابو الا علیٰ مودودی ؒ نے ترجما ن القرآن کے ساتھ ساتھ اپنی دومشہور کتابیں تصنیف فرما ئیں ۔ان میں سے پہلی کتا ب تو ’’دینیات ‘‘ تھی جب کہ دوسری کتاب ’’خطبا ت ‘‘ تھی ۔یہ دونوں کتا بیں مقامی افراد اور صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہو ئے لکھی گئی تھیں ۔سید ابو الا علیٰ مودودی ؒ کا تحریکِ پاکستان میں بھی شاندار کردار ہے ۔ آپؒ نے علمی اور عملی دونوں محاذوں پر تحریکِ پاکستان کو مستحکم اور جا ندار بنا نے میں بہترین جدوجہد کی ۔تحریکِ پاکستان کو علا مہ اقبا ل ؒ اور قائدِ اعظم جیسے رہنما میسر تھے لیکن سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے الگ قومیت کے تصور کو کیسے اجا گر کیا جا ئے ۔ ظاہر ہے کہ مسلم لیگ کے پا س ایسی کو ئی شخصیت نہیں تھی جو دینی نقطہ نظر سے اس مسئلے کو پو رے دلا ئل کے ساتھ عوام الناس کے سامنے پیش کر سکے ۔جب کہ علما ئے دیو بند کی اکثریت اس مسئلے میں مسلم لیگ کا ساتھ دینے کے لیے تیا ر ہی نہ تھی ۔یہی وہ مر حلہ تھا جب سید ابو الا علیٰ مودودینے ’’ مسئلہ قومیت‘‘ اور ’’ مسلما ن اور سیا سی کشمکش ‘‘ لکھ کر اس موضو ع کو اتنے جا ندار طریقے سے پیش کیا کہ برصغیر کے طول و عرض میں مسلمانوں کے الگ تشخص کی را ہ ہموار ہو ئی ۔مسلم لیگ نے ان دونوں کتا بوں کی لاکھوں کا پیاں تقسیم کیں اور وہی مسلمان جو الگ قوم ہو نے کے دعوے سے عملی طور پر دستبردار ہو گئے تھے میدان ِ عمل میں کود پڑے اور ایسی لازوال قربا نیا ں دیں کہ پاکستان جیسا مقدس ملک معرض وجود میں آ گیا ۔ پاکستان بننے کے بعد سید ابو الا علیٰ مودودی ؒ پاکستان منتقل ہو گئے اور قائدِ اعظم ؒ کے حکم پر ریڈیو پاکستان پر اسلا م کے نظامِ زندگی ہو نے پر ایسی جا مع تقاریر کیں جو پاکستان کے مستقبل کا تعین کرنے میں بے حد ممد و معاون ثا بت ہو ئیں۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی عالمِ اسلا م کی وہ ہستی ہیں جنہوں نے اسلا م کا انقلا بی تصور اس انداز سے پیش فرما یا کہ ایمان و یقین سے سرشار لاکھوں خوش نصیبوں نے اُن کی پکار پر لبیک کہا ۔ سید مودودی ؒ نے اپنے اللہ سے ایسا عہدِ وفا با ندھا کہ پھر پوری زندگی اس کے لیے وقف فر ما دی۔اس راہ میں طعن و تشنیع اور منفی پروپیگنڈے سے لے کر قید و بند کی صعوبتیں آئیں اور بعض مرحلے تو انتہا ئی خطرنا ک تھے لیکن اسلا می نظام پر حقانیت رکھنے والا یہ عظیم قائد ظلم و جبر کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی کا میابی کے لیے سینہ تا نے کھڑا رہا، سید ابو الا علیٰ مودودی ؒ اتحادِ امت کے بہت بڑے داعی تھے ۔یہ با ت صرف لفظوں تک محدود نہ تھی بلکہ آپ نے اُسے عملی طور پر بھی ثابت کر دکھایا۔وہ ساری امت کو ایک لڑی میں پرونا چاہتے تھے ۔ پا کستان کی سرزمین پر اتحاد و اتفاق کے حوالے سے با ت کی جا ئے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی سرزمین قیامِ پاکستان سے قبل اور بعد ہمیشہ ہی فرقہ واریت کی زد میں رہی ہے ۔ایک وقت تھا کہ پاکستان میں مسلکی جنگ زور و شور سے جاری تھی اور نفرتیں یہاں تک بڑھ گئی تھیں کہ مختلف مسالک کے پیروکار اپنے مخالف کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے ۔یہ وہ وقت تھا کہ پاکستان اور اسلا م کے دشمن فرقہ واریت کی آگ کو روز بھڑکا رہے تھے اور اس با ت کے خدشات تھے دشمن کی جلا ئی ہو ئی اس آگ میں سب کچھ بھسم ہو جا ئے کہ سید ابو الا علیٰ مودودی اور ان کے ساتھیوں نے واضح الفا ظ میں عوام الناس کو بالعموم اور علما ئے کرام کو باالخصوص دشمن کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ کیا اور اس سلسلے میں پاکستان کے طول و عرض میں ایسی جا مع مہم چلا ئی جس کے نتیجے میں مسلکی تناؤ میں واضح فرق آنے لگا ۔ سید ابو الا علیٰ مودودی ؒ ؒ ایک سچے عاشقِ رسول بھی تھے ۔وہ اس با ت کا یقینِ کامل رکھتے تھے کہ امت ِ مسلمہ کے دکھوں کا مداوا عشقِ رسول میں ہی ہے ۔ اُن کی محبتِ رسول کا یہ عالم تھا کہ جب بھی رسولِ اکرم ﷺ کا ذکرِ خیر فرماتے تو آواز اور لہجے سے ادب و احترام کے موتی ٹپکنے لگتے ۔ اسی جذبے کے تحت آپ نے ’’سیرتِ سرور عالمﷺ‘‘ لکھی جس نے سیرتِ طیبہ کے انقلا بی اور تاریخی پہلوؤں کو عوام النا س کے سامنے پیش کیا ۔ سید ابو الا علیٰ مودودی ؒ نے زندگی کے تما م شعبوں کو سامنے رکھتے ہو ئے اسلا می لٹریچر کا ایسا ذخیرہ تیار فرمایا ہے جس نے نوجوان نسل کے شکوک و شبہا ت کو علمی اور عقلی دلا ئل سے اس انداز سے دور فرمایا ہے کہ وہ دوبارہ اسلا م سے محبت کرنے لگ گئے ہیں ۔ اس سلسلے میں سید ابو الا علیٰ مودودی ؒ کا سب سے بڑا شاہکار ان کی معرکۃ الآ راء تفسیر ’’ تفہیم القرآن‘‘ ہے جس نے قرآن فہمی کو عام آ دمی تک منتقل کرنے میں زبردست کردار ادا کیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے سید ابو الا علیٰ مودودی ؒ کی تعلیما ت کو عام کیا جا ئے اور ان کی برپا کردہ تحریک کے دست و با زو بنا جا ئے تب ہی ان سے حقیقی تعلق کا حق ادا ہو گا ۔