ڈائجسٹ ’’منافق‘‘

October 17, 2021

شہلا خضر ، کراچی

کھانے کا پہلا لقمہ منہ میں رکھتے ہی اس کا پارہ چڑھ گیا۔ سالن کی رکابی دیوار پراتنی زور سے دے ماری کہ گرم سالن کی چھینٹیں اہلِ خانہ پر جا گریں۔’’جاہل عورت !تُجھے اچھی طرح پتا ہے کہ پھیکا ،بد مزہ،بیماروں کا کھانا مجھےزہر لگتا ہے ،پھر بھی تُو میری پسند کا ذرا خیال نہیں رکھتی۔ اتنے سال ہوگئے ہیں شادی کو پر اب تک کچھ نہ سیکھ سکی۔‘‘ غصّے سے آگ بگولا اقبال ایسے گرجا کہ اُس کی بیوی، زبیدہ کانپ ہی اُٹھی۔

ابھی اس نے یہ کہنے کے لیے منہ کھولنا ہی چاہا تھا کہ آج کھانا اُس نے نہیں، بہو نے بنایا ہے کہ اچانک اقبال نےغصّے میں ایک زوردار تھپّڑ اُس کےمنہ پر دے مارا۔درد کی شدید ٹیس اُٹھی اور زبیدہ کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا، لیکن مار کے درد سے اُسے اس بات کی زیادہ تکلیف تھی کہ یہ ساری بے عزّتی نئی نویلی بہو کے سامنے ہوئی۔ ’’بدذات عورت! ان مفت خوروں کے لیے سارا سارا دن مغز ماری کرکے کماتا ، اتنی محنت کرتا ہوں، مگر مجال ہے کہ ایک وقت روٹی بھی ڈھنگ کی مل جائے۔‘‘اقبال غصّے میں پھنکارتاہوا دروازہ پٹخ کر گھر سے باہر نکل گیا۔

اقبال،عرف بالا گجّر جدّی پُشتی گوالا تھا۔بچپن ہی سے غصیلا اور تندخُو مشہور تھا۔آئے دن لوگوں سے لڑائی،مارکٹائی کرتا رہتا۔ ماں باپ ترکے میں بازار میں واقع ایک مکان چھوڑ گئے تھے، جس کےبیرونی حصّے میں دودھ، دہی کی بڑی سی ذاتی دُکان تھی۔ ماموں زاد زبیدہ سے شادی کے بعد اسے بیوی کی شکل میں ایک ’’اللہ میاں کی گائے‘‘مل گئی تھی، جسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر مارنا پیٹنا وہ اپناحق سمجھتا تھا۔ شادی کے 27سال بعد بھی اقبال کے طور طریقوں میں رتّی برابر تبدیلی نہ آئی تھی۔

اللہ نے انہیں دو بیٹے بھی عطا کیے، پر اولاد کی نعمت بھی اقبال کے دل میں نرمی نہ پیدا کر سکی۔ زبیدہ ایک بہت صابر عورت تھی ۔ سو، شوہر کی زیادتیوں کو آزمائش سمجھ کر برداشت کررہی تھی۔ اقبال کی ایک بہن ناہید تھی۔ بدقسمتی سے شادی کے چند سال بعد ہی ایک ٹریفک حادثے میں اس کا شوہر چل بسا اور وہ اپنے دوسالہ بیٹے نواز کے ساتھ بھائی کے گھر آگئی۔ نند،بھابھی کے درمیان مثالی محبّت تھی۔ دونوں نے مِل جُل کر گھرداری اور بچّوں کی پرورش کی تھی۔

’’نمک حرام کیا دیوالیہ نکلوائے گا میرا؟‘‘ اقبال گھر سے غصّے میں نکل کر دُکان پہنچا تو برتنوں میں بھراگاڑھادودھ دیکھ کر مزید چراغ پا ہوگیا اور آؤ دیکھا، نہ تاؤملازم،کرم دین کو گالیاں دینے لگا۔ ’’کتنی بار سمجھاؤں کہ پیسا کمانا ہے تو خالص دودھ نہیں، آدھا دودھ، آدھا پانی ملا کردیا کر۔ پھر اتنا گاڑھا دودھ کیسے بنایا تُو نے۔‘‘کرم دین نے ہاتھ جوڑ کر ڈرتے ڈرتے کہا۔’’سیٹھ صاحب! مَیں تو سویرے بخار کی وجہ سے دوائی لینے حکیم صاحب کے مطب گیا تھا اور نواز صاحب کو سمجھا گیا تھا، یہ اُنہوں نے ہی کیا ہے۔

مَیں تو ہمیشہ آپ ہی کے فارمولے پر مال تیار کرتا ہوں۔‘‘اقبال تیوری چڑھا کر بولا ’’نواز تو ہے ہی بے وقوف، اسے عقل کہاں۔کم عقل یہ نہیں جانتا کہ شہر کے لوگوں کے معدے کم زور ہیں، وہ خالص دودھ ہضم نہیں کرسکتے۔ آئندہ اسے دُکان کے معاملات میں ڈالا، تو تیری چُھٹّی کر دوں گا۔‘‘

نواز کو بچپن ہی سے ماں نے مسجد کے مولوی صاحب کے پاس پڑھنے بٹھا دیا تھا، جنہوں نے اُسے قرآن پاک بھی پڑھایا اور دینی تعلیم بھی دی۔اسی لیے وہ نماز، قرآن کا بھی پابند تھا اور شریعت کے احکامات کی سوجھ بوجھ بھی رکھتا تھا۔ اسی لیے وہ اپنے ماموں کو کئی بار سمجھاچُکا تھا کہ ملاوٹ شُدہ مال فروخت کرنا سخت گناہ ہے۔ اس طرح حلال کمائی میں حرام کی آمیزش ہو جاتی ہے،پر اقبال دولت کے لالچ میں بالکل اندھا ہوچُکا تھا۔ اُس پر نواز کے سمجھانے کا کوئی اثر نہ ہوتاتھا۔

نواز، ماموں کے ملاوٹ کے کاروبار سے خود کو دُور رکھنے کے لیے علیحدہ کام کرنا چاہتا تھا۔جب اس نے ماں سے اس خواہش کا اظہار کیاتو ناہیدبھی سوچ میں پڑ گئی کہ بیٹا بات تو سچ ہی کہہ رہا ہے، لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ نواز کو کسی چھوٹے موٹے کاروبار کے لیے دیتی، کئی دن غور و فکر کے بعد اسے اپنے ترکے کے حق کا خیال آیا،تو اس نے ایک دن مناسب وقت دیکھ کر اور ہمّت کرکے بھائی سے بات کرہی ڈالی ’’بھائی جان! نواز اب جوان ہوگیا ہے۔مَیں کب تک آپ لوگوں پر بوجھ بنی رہوں گی، مَیں چاہتی ہوں کہ اب وہ اپنے پَیروں پر کھڑا ہوجائے۔

لیکن میرے پاس تو اتنے پیسے ہی نہیں کہ بیٹے کو دے سکوں، تو اگر آپ مجھےمیرا حصّہ دے دیں،تو وہ ان پیسوں سے کوئی کام شروع کر سکے گا، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔جہاں آپ نے اپنی بیوہ بہن کا اتنا ساتھ دیا ہے، یہ احسان اور کردیں۔‘‘ناہید نے جھجکتے ہوئے اپنا مدّعا بیان کیا۔مگراس کی بات سُن کر اقبال توغصّے سے اٹھ کھڑا ہوا اور چلّاتےہوئے بولا ’’کون سا حصّہ؟ کیسا حصّہ؟ شرم نہیں آئی حصّہ مانگتے ہوئے۔ برسوں سے تم ماں، بیٹے کا بوجھ اپنے سر اُٹھا رکھا ہے۔ دَربدر ہونے سے بچایا ،اپنے گھر میں پناہ دی، اس کا یہ صلہ دیا تُونے۔مجھےخبر نہ تھی کہ آستین میں سانپ پال رہا ہوں مَیں۔‘‘ ’’بھائی جان! مَیں تو صرف ابّا کے ترکے میں سے اپنا شرعی حصّہ لینے کی بات کر رہی ہوں۔

بھائی! آپ کے احسانات تو ہم اتار ہی نہیں سکتے،پر مولوی صاحب نے نواز کو بتایا تھا کہ اللہ نے بیٹیوں کو یہ حق دیا ہے کہ انہیں والدین کی وَراثت میں بھائیوں سے نصف حصّہ دیا جائے۔‘‘ اقبال لاجواب ہوگیا، گوکہ وہ ان پڑھ تھا، لیکن وَراثت کے معاملات کی سمجھ اُسے بھی تھی اور جانتا تھا کہ ناہید درست بات کر رہی ہے۔ فوراً ہی اس کے شاطر دماغ نے نئی چال چلی۔’’ٹھیک ہے، تمہیں حصّہ چاہیے تو مل جائے گا، لیکن اس کے بعد مرتے دَم تک ہمارے گھر کا رُخ مت کرنا، میرا اور تمہارا ہر رشتہ ختم،اور اس گھر کے دروازے بھی تم دونوں ماں بیٹے پر بند ہو جائیں گے۔‘‘

ناہید زارو قطار رونے لگی،’’بھائی جان! وَراثت کا تقاضا کرنے کی اتنی بڑی سزا؟‘‘ اس کا دل ڈوبنے لگا۔’’بھائی جان! ایسا نہ کہیں،آ پ لوگوں کے سوا میرا اور ہے ہی کون ،مجھے کوئی حصّہ نہیں چاہیے۔ آپ جیسا چاہیں گے،ویسا ہی ہو گا۔‘‘ روتے روتے بمشکل ناہید اتنا ہی بول پائی اور اقبال اپنے چہرے پر اُمڈتی عیّارانہ مسکراہٹ چُھپائے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

جشن کا سماں تھا، پورا بازار ہَری جھنڈیوں، برقی قمقموں سے جگمگا رہاتھا۔مارکیٹ کے چیئر مین ،اقبال گجّر نے حسبِ روایت 12ربیع الاول کے جشن کےلیے سب سے زیادہ پیسادیا تھا۔ اور اپنی دُکان کے عین سامنےمسجدِ نبویؐ کا دیوہیکل ماڈل نصب کروایا تھا۔ اس سال ریکارڈ آمدنی کی وجہ سے لاکھوں روپے کا معاوضہ دے کر مشہور قوال بھی بلوائے تھے۔

پورے پچاس پاؤنڈ کا ہرے اور سفید رنگ کا کیک بھی کاٹا گیا اور محلّے بھر میں اقبال گجّر کی طرف سےولادتِ رسولﷺ کی خوشی میں بریانی بھی بانٹی گئی۔ہر کوئی اقبال کی عقیدت و محبت کے گُن گا رہا تھا کہ سچّا عاشقِ رسولﷺ دیکھنا ہے،تو اقبال بھائی کو دیکھ لو ۔نبیﷺ کی محبّت میں لاکھوں روپے لٹا دئیے، نبیﷺ کے نام اس طرح سب کچھ قربان کردینا،صرف کسی نیک روح ہی کا کام ہو سکتا ہے۔‘‘ محلّے کا ہر شخص اس کے لیے اسی طرح کی باتیں کر تا اور رشک آمیز نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

رات کی تاریکی میں زبیدہ کی دَبی دَبی سِسکیاں اب بھی سُنائی دے رہی تھیں۔ اتنے سال پٹنے ، مار کھانےکے باوجود اب بہو کے سامنے اپنی تذلیل برداشت کرنا بے حد ہتک آمیز تھا۔ اسے اپنی برسوں کی ریاضت ضایع ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ ’’کیا مجھے کبھی بھی عزّت ووقار بَھری زندگی نہیں ملے گی؟ میرا شوہر، جسے لوگ سچّا عاشقِ رسولﷺ کہتے ہیں، وہ مجھے ،وہ مقام کیوں نہیں دیتا، جو اسلام نے عورت کو دیا ہے۔

ہمارے نبیﷺ تو اخلاق کے اعلیٰ درجے پہ فائز تھے، وہ تو اپنی ازواج سے بے حد محبّت کرتے، ان کی عزّت کرتے تھے، کس قدر نرم مزاج، خوش گفتار، اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے، تو اقبال کیسا سچّا عاشقِ رسول ؐہے ، جو نبیؐ کی اطاعت کرتا ہے، نہ سنّت پر عمل۔ ناہید نے تو صرف اپنا حق ہی مانگا تھا، تواُسے وہ حق کیوں نہیں دیا؟

نبیؐ کی محبّت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ُان کی ہر سنّت پر عمل کیا جائے، ان کے ہر فرمان کی اطاعت کی جائے، مگر اقبال تو ایسا کچھ نہیں کرتا۔ ‘‘اس طرح کے کئی سوالات اس کے الجھے ذہن میں بار بار آرہے تھے۔ دوسری جانب، دالان میں بیٹھی ناہید،اپنے بیٹے کے مستقبل کے لیے دیکھے خوابوں کے ٹوٹنے کا ماتم کر رہی تھی۔ آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ وہ بس یہی دُعا مانگ رہی تھی کہ ’’اے اللہ! میرے بھائی کو واقعی سچّا عاشقِ رسولؐ بنا دے، اُسے اپنے محبوب نبیﷺ کی سنّت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ، اس کے دل میں نرمی پیدا کر۔اُس کا ظاہر و باطن ایک کردے۔‘‘