بڑھتے اسٹریٹ کرائمز

October 14, 2021

آبادی بڑھنے، غربت اور پسماندگی میں اضافے اور اس سے بھی زیادہ اخلاقی قدروں کے زوال کے ساتھ ملک میں کرپشن، فراڈ، دھوکہ دہی اور جعلسازی کے بڑے واقعات کے علاوہ عام اسٹریٹ کرائمز میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جنہیں کنٹرول کرنے کی کوششیں بار آور ہوتی نظر نہیں آتیں۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ اور فیصل آباد جیسے بڑے شہرہوں یا چھوٹے شہر اور قصبے، روزانہ دن دیہاڑے چوری، ڈکیتی، نقدی، موبائل، پرس اور زیورات کے علاوہ گن پوائنٹ پر گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چھیننے کی ہزاروں وارداتیں ہو رہی ہیں جن میں اکثر اوقات جرائم پیشہ افراد انسانی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ جنسی جرائم تشویشناک حد تک بڑھ رہے ہیں۔ بچوں اور خواتین کے اغوا اور بےحرمتی کی خبریں روز مرہ کا معمول ہیں۔ اغوا برائے تاوان کا سلسلہ ہے کہ تھمنے میں نہیں آتا۔ سوشل میڈیا پر برہنہ تصاویر وائرل کرکے مرد و خواتین کو بلیک میل کرنے کا دھندا باقاعدہ کاروبار بن گیا ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان وارداتوں کو کنٹرول کرنے میں یقیناً تندہی سے مصروف ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر وارداتوں میں خود پولیس کے لوگ وردی میں یا بغیر وردی کے ملوث پائے گئے ہیں۔ اس طرح کے جرائم، کم یا زیادہ، ہر ملک میں ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں ان کی بڑھتی ہوئی شرح علمائے کرام، ذمہ دار شہریوں، معاشرتی مصلحین، قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ پالیسی ساز ادارے جرائم کے سدباب اور مجرموں کو سخت سزائیں دینے کے قوانین تو بنا لیتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ جس سے معاشرتی بگاڑ کو ہوا ملتی ہے۔ حکومت کو کوشش کرنی چاہئے کہ جیسے بھی ہو اسٹریٹ کرائمز کا خاتمہ کرے تاکہ عافیت پسند شہری امن و سکون سے زندگی گزار سکیں خاص طور پر خواتین اور بچوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔