• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا کی ممکنہ واپسی کے تاثر نے لوگوں اور اداروں میں ایک بار پھر زندگی پھونک دی ہے۔ ارادے باندھے جا رہے ہیں ،منصوبے بن رہے ہیں، فیصلے ہو رہے ہیں، اکادمی ادبیات پاکستان، ملک بھر کے ادیبوں، شاعروں کا ایک ادارہ ہے کئی برسوں کی گہری نیند کے بعد اس نے انگڑائی لی ہے۔ ہمارے نوجوان دوست پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک اس کے چیئرمین ہیں کورونا کی بھرپور جوانی کے دنوں میں وہ اس پُرشکوہ اور شاندار ادارے کے سربراہ مقرر ہوئے تو انہوں نے آن لائن تقریبات کا انعقاد شروع کر دیا۔ جونہی کورونا کی واپسی کا تاثر پیدا ہوا انہوں نے ملک بھر کے ادیبوں اور شاعروں کو اسلام آباد بلانے کا بہانہ بنالیا۔ انہوں نے اکادمی ادبیات کے مرکزی دفتر میں ایک ’’ایوان اعزاز‘‘ بنایا ہے جسے انگریزی میں انہوں نے HALL OF FAMEکا نام دیا ہے اس ’’ایوان اعزا ز‘‘ میں انہوں نے ملک کی ان ممتاز ادبی شخصیات کی تصویریں، ان کے تخلیقی کام اور حالات زندگی کے ساتھ آراستہ کی ہیں، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ گویا اسے آپ ادبی تاریخ خانہ بھی کہہ سکتے ہیں ادبی تاریخ پر ہمارے کئی محققین نے نہایت محنت سے اپنے اپنے رنگ میں اپنے تعصبات اور پسند نا پسند کو پیش نظر رکھ کر کتابیں لکھی ہیں۔ لیکن اکادمی ادبیات کے ایوان اعزاز میں صرف انہی ادیبوں شاعروں کو جگہ دی گئی ہے جو اب تاریخ کے سنہری اوراق پر اپنی چھب دکھلا رہے ہیں اور جن کے مقام و مرتبہ کا تعین ہو چکا ہے اس میں عالم فانی سے گزر جانے و الی شخصیات بھی شامل ہیں اور کچھ ایسے ادیب اور شاعر بھی شامل ہیں جو ماشااللہ بقید حیات ہیں اور تاحال تخلیقی لحاظ سے سرگرم عمل ہیں۔ یہ کام بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا لیکن اس خوش سلیقگی سے کیا گیا ہے کہ کسی بھی طرف سے کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا جن ادیبوں، شاعروں کو اس ایوان اعزاز کی زینت بنایا گیا ہے ان میں علامہ محمد اقبال، فیض احمد فیض، سعادت حسن منٹو، مولوی عبدالحق، جوش ملیح آبادی، حفیظ جالندھری، امیر حمزہ خان شنواری، ن۔ م۔ راشد، استاد امن، میر گل خان نصیر، مجید امجد، خان عبدالغنی خان، احمد ندیم قاسمی، نبی بخش خان بلوچ، سوبھوگیان چندانی، عبداللہ جان جمال دینی، شیخ ایاز، مشتاق احمد یوسفی، ادا جعفری ، جمیل الدین عالی، ناصر کاظمی، انتظار حسین، حبیب جالب، منیر نیازی، بانو قدسیہ، جمیل جالبی، احمد فراز، عبداللہ حسین، بپسی سدھوا، کشور ناہید، افتخار عارف، امجد اسلام امجد، فہمیدہ ریاض ، پروین شاکر اور منیر بادینی شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد یوسف خشک نے یقیناً اکادمی ادبیات کے بورڈ آف گورنرز کے ارکان کی مشاورت ہی سے ان شخصیات کا چنائو کیا ہو گا لیکن مجھے لگتا ہے کہ کچھ کام انہوں نے اکادمی ادبیات کے اگلے چیئرمین کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ جلد یا بدیر بہت سی مزید شخصیات اس ایوان اعزاز کا حصہ ہوں گی۔ فی الحال تھوڑے ہی کو بہت سمجھ لیا جائے تو مناسب ہو گا کم از کم ایک نئے کام کا آغاز تو ہوا ہے۔

اس ’’ایوان اعزاز‘‘ کے افتتاح کے لئے وزیراعظم عمران خان کو مدعو کیا گیا تھا۔ تالیاں بجانے کے لئے ہم شاعروں ،ادیبوں کو بلوایا گیا تھا ہمارا خیال تھا کہ وزیر اعظم عمران خان ’’ایوان اعزاز‘‘ کا افتتاح اور اپنی تقریر کے بعد ادیبوں ،شاعروں میں گھل مل جائیں گے لیکن ہمارا خیال خام ثابت ہوا۔ وزیر اعظم صاحب ہوا کے جھونکے کی طرح آئے چند منٹ تقریر کی اور اپنے لائو لشکر کے ساتھ فیض احمد فیض آڈیٹوریم سے باہر نکل گئے۔ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ اکادمی کی کانفرنس میں جب بھی صدر یا وزیر اعظم آئے وہ چیدہ چیدہ ادیبوں ہی سے سہی ، ملتے ضرور تھے۔ جاتے ہوئے ادیبوں کے اس غریب ادارے کو پانچ دس کروڑ روپے کی گرانٹ بھی دے جاتے تھے۔ اس گرانٹ سے کچھ ادیبوں کی کتابیں چھپ جاتیں کچھ کے ماہانہ وظیفے میں معمولی سا اضافہ ہو جاتا ،اگر اس دفعہ بھی یہ روایت قائم رکھی جاتی تو شاید اکادمی کے بہت سے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کا مسئلہ حل ہو جاتا۔

قومی ورثہ اور ثقافت اور تعلیم کے وزیر جناب شفقت محمود نے وزارت سنبھالنے کے کچھ عرصے کے بعد میرے ایک کالم پر ایکشن لیتے ہوئے ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور اس وقت کے وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر ندیم شفیق ملک کو حکم دیا تھا کہ لاہور میں کسی مقام پر ان کی ادیبوں شاعروں سے ملاقات کرائی جائے مجھے بھی وہاں بطور خاص بلایا گیا تھا۔ شفقت محمود صاحب بہت شفیق اور نفیس آدمی ہیں لیکن مجھے صاف محسوس ہوا کہ سوائے ایک آدھ ادیب کے وہ کسی سے ذاتی طور پر متعارف نہ تھے تعلیم کے معاملات پر انہیں عبور حاصل ہے لیکن قومی ورثہ اور ثقافت کے اداروں سے ان کی آگاہی کم کم ہے۔ شاید انہیں یہ ادارے اپنے بارے میں کچھ پتا ہی نہیں چلنے دیتے ورنہ وہ وزیر اعظم سے تھوڑی بہت گرانٹ حاصل کر ہی لیتے۔ وزیر اعظم کی تقریر کے دوران میں حاضرین نے کئی بار تالیاں بجائیں، سنا ہے کہ وزیر اعظم اس تقریب سے رخصت ہوئے تو بہت خوش تھے ادیبوں نے ان کی تقریر بھی سن لی اور کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا۔ اکادمی ادبیات کے چیئرمین یوسف خشک صاحب کو وفاقی سیکرٹری آصف حیدر شاہ کا پورا تعاون حاصل تھا شاید اس لئے اس بار ملک بھر سے آئے ہوئے ادیبوں کے قیام و طعام کا انتظام اس بار بہتر تھا اچھی بات یہ تھی کہ بہت سے مرحوم شاعروں، ادیبوں کے عزیزواقارب کو بطور خاص مدعو کیا گیا تھا۔ منیر نیازی کی بیگم صاحبہ اور حفیظ جالندھری کی بیٹی ہماری ہم سفر تھیں۔ناصر کاظمی کے فرزند حسن کاظمی، جوش ملیح آبادی کی پوتی اور نواسا، فیض احمد فیض کی بیٹی اور نواسا، حبیب جالب کی بیٹی اور فرزند جمیل الدین عالی کو ایوان اعزاز میں دیکھ کر جی خوش ہوا۔

اس طرح کی تقریب کا اصل فائدہ یہ ہوتا ہے کہ برسوں سے بچھڑے ہوئے قلم کار ایک دوسرے سے ملتے ہیں کتابوں اور خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوا۔ تمام ادیب رات بھر ہوٹل کی لابی میں بیٹھے رہے، چائے، قہوہ اور کافی پیتے، لطیفہ گوئی ہوئی، شعر سنے بھی گئے اور سنائے بھی گئے، مدعوئین میں چونکہ شاعر زیادہ تھے اس لئے رات کے وقت ایک قومی مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں ہر شاعر کو صرف تین شعر سنانے کو کہا گیا لیکن شاعروں نے وہی کیا جو ان کے دل نے کہا، سنائے گئے شعروں کی تعداد انہوں نے از خود مقرر کی۔

تازہ ترین