• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منگل کے روز وزیراعظم عمران خان نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ٹریک اینڈ ٹریس نظام کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں جو باتیں کہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ ہمیں اپنا ٹیکس کلچر بڑھانا ہوگا۔ یہ ایسی بات ہے جو عشروں سے حکومتی سطح پر دہرائی جاتی رہی ہے مگر ٹیکس نیٹ کی کیفیت دیکھتے ہوئے عام آدمی کا تاثر طویل عرصے یہ رہا ہے کہ جہاں تک آمدنی پر ٹیکس کا تعلق ہے، عملاً یہ ملازمت پیشہ افراد یا رضاکارانہ طور پر ٹیکس ادا کرنے والوں کی ناکافی تعداد تک محدود ہے جبکہ بڑی جائیدادوں، بڑی زمینوں ،بڑی گاڑیوں کے حامل اور ملکی وسائل سے بڑے مفادات پانے والوں سمیت متعدد خوش نصیبوں کیلئے ایسے فارمولے موجود ہیں جن کے ذریعے واجب الادا قلیل ٹیکس انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں محسوس ہوتا۔ اس کے باوجود ایمنسٹی اسکیموں کا اجراء عرصۂ دراز سے کیا جاتا رہا ہے۔ عمران خان کے مذکورہ خطاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2008سے ملک میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے نفاذ کی کوشش کی جارہی تھی۔ 2021میں اس کے نفاذ میں حاصل کامیابی مالیاتی امور میں شفافیت کے لئے سنگِ میل ثابت ہوگی اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹیکس وصولی بڑھے گی۔ نئے ٹیکنالوجی سسٹم کے ذریعے حکومت کو کارخانوں سے نکلنے والی چینی کی نقل و حرکت مانیٹر کرنے اور ٹیکس گریزی روکنے میں مدد ملے گی۔ شوگر انڈسٹری مذکورہ مانیٹرنگ سسٹم کے تحت آنے والا دوسرا شعبہ ہے۔ قبل ازیں ٹوبیکو انڈسٹری میں یہ سسٹم نافذ کیا گیاتھاجبکہ شوگر انڈسٹری کے بعد سیمنٹ، کھاد اور اسٹیل انڈسٹری میں یہ نظام نافذ کیا جائے گا۔ متعدد شعبوں کو اس نظام کے تحت لانا بظاہر دقت طلب امر معلوم ہوتا ہے جبکہ ٹیکس گریزی کے رجحان کو تبدیل کرنے کیلئے محنت بھی کرنا ہوگی۔ وزیراعظم کے بقول ٹیکس وصولی ہمارا قومی سلامتی کا معاملہ بن چکا ہے۔ یہ ایسی کیفیت ہے جس کیلئے ذہن سازی کرنے ، بالخصوص اشرافیہ کو قائل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ملک کو چلانے کیلئے پیسے کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے ہمیں قرضے لینے پڑتے ہیں۔ یہ دل خراش داستان عرصے سے دہرائی جارہی ہے اور وزیراعظم عمران خان بھی دہراتے رہتے ہیں۔ انہوں نے وطن عزیز کی اشرافیہ کے ٹیکس کلچر پروان چڑھانے سے گریز اور ترقی یافتہ ملکوں میں ٹیکس کی اہمیت کے عملی اظہارو اعتراف کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ 2008سے 2018کے دس برسوں میں پاکستان کا قرضہ 6ہزار ارب روپے سے 30ہزار ارب روپے تک پہنچا دیا گیا جبکہ کوئی ایسا بڑا پراجیکٹ، ڈیم یا بنیادی ڈھانچے کا منصوبہ شروع نہیں کیا گیا جس سے ملک کی آمدنی میں اضافہ ہوتا۔ وزیر اعظم نے ٹیکس وصولی 6ارب روپے تک پہنچانے کی بات کی جن میں سے ان کے بقول 3ہزار ارب روپے سابقہ ادوار میں لئے گئے قرضوں کے سود اور قسطوں کی ادائیگی میں چلے جائیں گے اور تین ہزار ارب روپے 22کروڑ عوام کیلئے بچیں گے۔ وزیراعظم کے بیان سے اس خواہش کا اظہار ہو رہا ہے کہ 8ٹریلین روپےٹیکس جمع ہو۔ انہیں امید بھی ہے کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے یہ منزل حاصل ہو جائے گی۔ ایک طرف ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹیکس نیٹ میں اضافے کے مذکورہ امکانات ہیں۔ دوسری جانب مشیر خزانہ اگلے مہینے منی بجٹ لانے کی تصدیق کرچکے ہیں۔ بیروزگاری، مہنگائی اور سخت حالات کے شکار افراد منتظر ہیں مشیر خزانہ کے کسی ایسے چمتکار کے کہ غریبوں سے امیروں کی طرف جاری دولت کےموجودہ بہائو کا رخ تبدیل ہو جائے، زیادہ وسائل کے حامل افراد کو ٹیکس دینے پر آمادہ کیا جا سکے اور وطن عزیز کے پسے ہوئے عوام بالواسطہ ٹیکسوں کے عذاب سے نکل کر اچھے دنوں کے خوابوں کو تعبیر پاتا دیکھیں۔

تازہ ترین