• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روٹی خمار گندم سے پھولی ہوئی تھی لیکن دال کی حالت عوام سے بھی زیادہ پتلی تھی۔ ہم کچھ کہنا چاہتے ہی تھے کہ وہ نکتہ پرداز جو گوشہ دل میں عذر تراشنے پر مامور ہے لاٹھی ٹیکتا آ موجود ہوا اور بولا”صاحبو!شکر کرو دال پتلی سہی مل تو رہی ہے۔ یہ آفت جاں بجلی جس سے روشنی کے علاوہ پیٹ کا معاملہ بھی ہے چند گھنٹوں کیلئے سہی آتو جاتی ہے۔ مہنگائی جان لیوا سہی پر بازاروں میں اشیاء کثرت سے موجود تو ہیں۔ خلق خدا بسوں اور ویگنوں کی چھتوں پر اور دروازوں سے لٹک کر سفر کرنے پر مجبور ہے لیکن منزل تک پہنچ تو رہی ہے۔ سرکاری شفا خانوں میں مریض پریشان اور بے حال ہیں۔ دوائیاں ہیں نہ ڈاکٹر لیکن شفاخانے موجود توہیں۔ رشوت کی گرم بازاری اور عدالتی فیصلوں میں تاخیر پریشان کن ہے۔ برسوں میں سہی لیکن فیصلے آتو رہے ہیں۔
درسگاہوں میں علم کاحصول بھاری فیسوں سے جڑ کر رہ گیا ہے مگر بقدر استطاعت مل تو رہا ہے۔ دفتروں میں اسٹاف بیشتر غائب اور لئے دیئے بغیرکام ناممکن لیکن دفتر کھل تو رہے ہیں۔ عمال کم سہی آتو رہے ہیں۔ جس طرزپرزندگی تم بسر کرہے ہو سرمایہ دارانہ سودی نظام نافذ کرنے کے جس طریقہ تدبیر جمہوریت کو تم نے پسند کیا ہے جن لٹیروں کو تم حکمران منتخب کرکے اپنے پر مسلط کرتے آرہے ہو ان سے اتنا بھی بچ رہے تو غنیمت ہے“۔
حکومت عام آدمی کی حسرتوں کے شمار اور تدارک سے زیادہ ملک و قوم کی ترقی کے باب میں اپنی تمناؤں کے اسیر ہیں۔ملاقات کی۔ ۔ وزیر اعظم نواز شریف کے دورہٴ چین کے بعد قوم کے سامنے ترقی کے جو منصوبے چنے جارہے ہیں ان میں جدھر دیکھئے جہاں نظر دوڑائیے چین ہی چین ہے۔ جیسے اہل چین کیلئے زندگی کا اور کوئی مقصد نہیں سوائے پاکستان کی ترقی کے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ ملکوں کے درمیان تعلقات مفادات پر استوار ہوتے ہیں۔ گوادر کو کاشغر سے ملانے والے ایک ہزار کلو میٹر طویل اقتصادی راہ داری کے جس منصوبے پر سینے فخر سے دگنے ہورہے ہیں یہ ہماری حکومت کا نہیں اہل چین کا منصوبہ ہے۔ پاکستان سے زیادہ اس منصوبے میں چین کا فائدہ ہے۔ خلیج فارس سے شنگھائی تک کا سمندری راستہ تقریباً 12ہزار کلومیٹر ہے۔ گوادر کاشغر سے جڑ جاتا ہے تو یہ فاصلہ سمٹ کر محض دو ہزار کلومیٹر رہ جائے گا۔ چین کے لئے اس منصوبے میں ایک جہاں پوشیدہ ہے۔ راہ داری کے ساتھ اقتصادی زونوں کے قیام سے اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ چین کو کم قیمت افرادی قوت میسر آسکے گی تو پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع۔ یہ دو طرفہ فائدے کا سمجھوتہ ہے نہ کہ چین کی پاکستان کیلئے کسی قسم کی قربانی یا عطیہ۔ دورے کے دوران بجلی کی پیداوار کاکوئی قابل ذکر منصوبہ سامنے نہیں آیا حالانکہ چینی ندیوں اور نہروں پر ایسے منصوبوں کے ماہر ہیں جن سے چھ سے آٹھ ماہ میں بآسانی پانچ سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔
بجلی کی پیداوار کی لئے ہماری قیادت بھارت کی احسان مند ہونے کے لئے بیتاب ہے۔ بھارت سے بجلی درآمد کرنے کیلئے وہ جوش اور جذبہ ہے کہ اللہ اللہ۔ بجلی کی قلت پر قابو پانے کیلئے یہ ایک محدود اور قلیل مدتی حل ہے۔ آبی ماہرین نے اس درآمد پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کوبھارت کی ذیلی ریاست بنانے کا یہ امریکی ایجنڈا ہے۔ جس طرح آج ہم امریکہ کے سامنے مجبورمحض ہیں تجارت، صنعتی خام مال، غذائی اجناس، بجلی کی درآمد، پاکستانی پانیوں پر بھارت کے کنٹرول اور معیشت کو بھارت سے جوڑ دینے کے بعد ہم بھارت کے آگے جھکتے چلے جانے پر مجبور ہوکر رہ جائیں گے۔
ان دو منصوبوں کے بعد ہماری نئی حکومت کے عبقری جس چیز کو قوم کی فلاح کے لئے اکسیراعظم کا درجہ دے رہے ہیں وہ پرائیویٹائزیشن ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا نقصان میں چلنے والے اداروں کو کسی سرمایہ دار کو بیچ دینا ہی مسئلہ کا واحد حل ہے۔ نجکاری کو اس طرح پیش کیا جارہا ہے جیسے اس کے بعد عوام کے لئے دودھ شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی۔ ایسا نہیں ہے۔ پرائیویٹائزیشن سے حکومت کو فوری فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قرضے اتارنے کے لئے اسے آسانی سے یکمشت سرمایہ مل جاتا ہے۔ سرمایہ دار کو فائدہ یہ ہوتا ہے کہ روپیہ کمانے اور استحصال کرنے کے لئے صنعتی ادارہ مل جاتا ہے لیکن عوام کو مہنگائی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ نجی سرمایہ کار جو ایک کمپنی حاصل کرتا ہے وہ صارفین سے پروڈکٹ کی زیادہ سے زیادہ قیمت حاصل کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔
بجلی کے شعبے میں ہم اس نجکاری کا مزا چکھ رہے ہیں۔ چند سرمایہ داروں کی دولت میں اضافے کے لئے بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ دار یا نجی سیکٹر وسیع تر قومی مفادمیں میزبان ملک کی مدد کرکے نقصان اٹھانے کی قطعاً کوئی خواہش نہیں رکھتا۔ پورا ملک اندھیرے میں ڈوب گیا لیکن بجلی کی کمپنیاں نہ اپنا منافع کم کرنے پر آمادہ ہیں اور نہ کوئی نقصان اٹھانے پر تیار۔
معاشی میدان میں ان غیر ہموار راستوں کا انتخاب کرنے کے بعد حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کیلئے کوشاں ہیں۔ حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری کہا کرتے تھے”ہندوستان کے مسلمان کانوں کے عیاش ہیں“۔ کل جماعتی کانفرنس کا حاصل بھی رہبران قوم کے زور خطابت اور عوام کے کانوں کی عیاشی کے سوا کیا ممکن ہے۔ سیاسی لیڈروں کااجتماع دہشتگردی کے خاتمے میں کیونکر معاون ہوسکتا ہے۔
1945-46کے الیکشن میں بہرائچ کے ضلع میں مسلم لیگی امیدوار کی پوزیشن کانگریسی امیدوار کے مقابلے میں کمزور تھی۔ کانگریسی امیدوار کا نام حسین احمد تھا اور وہ اینٹوں کا بھٹا چلاتا تھا۔ مولاناظفرعلی خان نے ایک نظم رضاکاروں کو دی اور کہا یہ نظم گلی کوچوں میں بلند آواز سے پڑھنا۔ اس نظم کا ایک شعر یہ تھا
اگر مینہ زور سے برسا تو گرجائیں گی دیواریں
کہ اینٹیں ساری کچی ہیں حسین احمد کے بھٹے کی
حکمراں بھی ملک و قوم کی تعمیر میں جو اینٹیں استعمال کررہے ہیں ان میں سے بیشتر کچی ہیں جن کا ملبہ بالآخر غریبوں پر ہی گرنا ہے۔ ہمارے سرمایہ دارانہ نظام کے مقلد ہیں اور یہ نظام بڑے بڑے منصوبوں اور دولت کی پیداوار پر یقین رکھتاہے حالانکہ مسئلہ دولت کی پیداوار کا نہیں دولت کی تقسیم کا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کی تقسیم اس طرح کی جاتی ہے کہ غریبوں کیلئے کچھ نہیں بچتاسوائے اس کلمہٴ صبر کے کہ جو مل جائے غنیمت ہے۔
تازہ ترین