• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسٹاف رپورٹر
اسٹاف رپورٹر | 07 دسمبر ، 2021

سقوط ڈھاکہ کے بعد روپے کی قدر میں دوسری بڑی کمی، 54 روپے تک گرگیا

اسلام آباد (مہتاب حیدر) رواں حکومت میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تاریخ کی دوسری بڑی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ 54 روپے تک گرگیا ہے۔

 روپے کی قدر میں سب سے بڑی کمی سقوط ڈھاکہ کے موقع پر ہوئی تھی جب اس کی قدر 58 فیصد کم ہوگئی تھی، جب کہ گزشتہ 40 ماہ میں پاکستانی کرنسی 30.5 فیصد گراوٹ کا شکار رہی۔ 

مشرف کے دور میں ڈالر 60 روپے، پیپلزپارٹی کے دور میں 90 روپے کے گرد رہا، ن لیگ کے دور میں 123 روپے تک پہنچ گیا۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا تھا کہ ملک کی مالی پالیسی، زری اور شرح مبادلہ کی پالیسیوں کی تابع ہوگئی ہے۔ 

ایس ڈی پی آئی ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی گزشتہ 8 برس میں ہوئی کیوں کہ ن لیگ دور حکومت میں روپے کی قدرمیں مصنوعی طور پر اضافہ کیا گیا تھا۔ 

تفصیلات کے مطابق، پی ٹی آئی دور حکومت میں گزشتہ 3 سال 4 ماہ (40 ماہ) کے دوران اگست، 2018 سے دسمبر،2021 کے دوران ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدرمیں 30.5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اگست 2018 میں ایک ڈالر 123 روپے کا تھا جو کہ دسمبر، 2021 میں 177 روپے کا ہوچکا ہے۔

 پاکستان کی تاریخ میں روپے کی قدر میں یہ دوسری بڑی کمی واقع ہوئی ہے، اس سے قبل سقوط ڈھاکہ کے وقت پاکستانی روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 58 فیصد کمی واقع ہوئی تھی، جب 1971-72 میں ایک ڈالر 4.60 روپے سے بڑھ کر 11.10 روپے کا ہوگیا تھا۔

 آزاد ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں حالیہ گراوٹ آئی ایم ایف کے پیشگی اقدامات کی وجہ سے ہے اور اس کا میکرو اکنامک بنیادوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

سابق اقتصادی مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ اقتصادی پالیسی سازی مکمل طور پرتعطل کا شکار رہی کیوں کہ ملک کی مالی پالیسی، زری اور شرح مبادلہ کی پالیسیوں کی تابع ہوگئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زری سختی اور شرح مبادلہ میں کمی کے نتیجے میں مہنگائی، سرکاری قرضوں اور قرضوں کی ادائیگی میں اضافہ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک فیصد زری سختی سے پاکستان میں مہنگائی کا دبائو 1.3 فیصد بڑھ جاتا ہے۔

 ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں کرنسی کی قدر میں کمی سے مہنگائی کے دبائو میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قیمتوں میں اضافے کی دو اہم وجوہات ہیں۔

 ایک عالمی مارکیٹ میں اشیا خورونوش اور اجناس کے ساتھ تیل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور دوسرا شرح مبادلہ میں 30.5 فیصد تک کمی کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطالعوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرنسی قیمت میں 10 فیصد کمی سے صارف اشاریہ قیمت (سی پی آئی) کی بنیاد پر مہنگائی 0.6 فیصد بڑھ جاتی ہے۔

 یعنی 30.5 فیصد روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی کا دبائو تقریباً 2 فیصد بڑھا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ماہانہ بنیاد پر 11.5 فیصد مہنگائی میں تقریباً 2 فیصد شرح مبادلہ میں کمی کی وجہ سے ہے۔ 

خطے کی کرنسیوں کا ڈالر سے تقابل کیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ پاکستانی کرنسی کو دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں زیادہ کمی کا سامنا رہا۔ بھارتی کرنسی میں ایک ڈالر 75.39 روپے کا ہے۔

 2018 میں بھارت میں ایک ڈالر 70.09 روپے کا تھا۔ دسمبر، 2019 میں یہ 73.66 روپے کا ہوگیا، مارچ 2020 میں 74.53 روپے کا اور اپریل 2021 میں ایک ڈالر 74.57 روپے کا تھا۔

 بنگلادیش کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایک ڈالر 85.76 بنگلادیشی ٹکہ کا ہے، جب کہ گزشتہ دو برس میں یہ اوسط 84 سے 85.9 ٹکہ کا رہا ہے۔ دریں اثنا پاکستانی روپیہ مسلسل گراوٹ کا شکار رہا اور گزشتہ تین سال چار ماہ کے دوران یہ 123 روپے سے 177 روپے کا ہوگیا۔

 پرویز مشرف۔شوکت عزیز کے دور حکومت میں 1999 سے 2007 کے دوران پاکستانی روپیہ بڑی حد تک مستحکم رہا اور ایک ڈالر کی قیمت 60 روپے کے گرد ہی رہی۔ 

تاہم، 2008 میں پیپلزپارٹی کے اقتدار سنبھالتے ہی چند ماہ میں کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافے کی وجہ سے ایک ڈالر 80 روپے تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام میں شمولیت کے بعد 2008 سے 2013 کے درمیان ایک ڈالر 90 روپے کے گرد رہا۔ جون، 2013 میں ایک ڈالر 98.5 روپے تک پہنچ گیا۔ جس کے بعد ن لیگ اقتدار میں آئی۔ نومبر، 2013 میں ایک ڈالر 107.5 روپے کا ہوگیا۔

 سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پالیسیوں کی وجہ سے جون، 2014 میں ایک ڈالر کی اوسط قیمت 98 روپے تک رہی۔ اگست ، 2014 میں پاکستانی روپیہ 100 روپے کے گرد مستحکم رہا، البتہ 2015-16 اور 2016-17 میں یہ ڈالر کے مقابلے میں 105 روپے کا رہا۔ جس کے بعد وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے دور میں جون، 2018 کے دوران ڈالر 118 روپے تک پہنچ گیا۔

 عبوری حکومت میں روپے کی قدر کم ہوتی رہی البتہ اگست، 2018 میں جب پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا تو ایک ڈالر 123 روپے کا ہوگیا۔ جس کے بعد پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام میں شرکت کی اور روپے کی اوسط قیمت مزید کم ہوکر جون، 2019 میں ایک ڈالر کے مقابلے میں 155 روپے ہوگئی۔

 اپریل ، 2020 میں ڈالر کی قیمت 164 روپے ہوئی اور اگست، 2020 میں ایک ڈالر 167.7 روپے کا ہوگیا۔ 

مختصر مدت کے لیے اپریل، 2021 تک روپے کی قدر میں اضافہ ہوا اور ڈالر کی اوسط قیمت 152 روپے رہی۔

 اپریل 2021 سے پاکستانی کرنسی میں گراوٹ کی نئی لہر دیکھنے میں آئی جون، 2021 میں ڈالر 156 روپے، ستمبر میں 168 روپے اور نومبر، 2021 میں 170 روپے کا رہا اور اب دسمبر، 2021 میں ڈالر 177 روپے سے زائد کا ہوگیا ہے۔

 اوسطاً سی پی آئی بنیاد پر مہنگائی 1991 سے 2020-21 کے دوران 8.2 فیصد رہی۔

 تاہم، اب نومبر، 2021 میں یہ دوہرے ہندسے میں داخل ہوکر 11.53 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ مہنگائی میں اضافے کی دیگر وجوہات کے علاوہ روپے کی قدر میں بڑی کمی بھی ہے۔

 ماہر اقتصادیات ڈاکٹر ظفر محمود کا کہنا ہے کہ غیرملکی زرمبادلہ ذخائر میں اضافے سے بہتری آتی ہے تاہم، محدود ذخائر کے ساتھ ملک کی کرنسی کے مستحکم ہونے کا بہت کم موقع ہوتا ہے۔ پاکستان کو اپنے غیرملکی کرنسی ذخائر میں قرضوں کے بغیر بہائو میں اضافہ کرنا ہوگا، جیسا کہ برآمدات، ترسیلات زر اور غیرملکی سرمایہ کاری کے ذریعے یہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

 ایس ڈی پی آئی کے ماہر اقتصادیات ساجد امین جاوید کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین برس میں کرنسی کی قدر میں کمی دراصل گزشتہ آٹھ برس میں ہونے والی کمی کا عکاس ہے کیوں کہ روپے کی قدر میں مصنوعی طور پر اضافہ کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر گزشتہ دہائی کے اعدادوشمار کا تجزیہ کیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ بھارت اور بنگلادیش نے جب ضرورت پڑی کمی کی۔ 

اگر 2016 سے 2018 کے اعدادوشمار کا تجزیہ کیا جائے تو یہ ظاہر ہوگا کہ پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ بری حالت میں رہا لیکن روپے کی قدر میں استحکام رہا۔ جب کہ بھارت میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم رہا لیکن بھارت میں ڈالر 63 روپے سے 71 روپے کا ہوا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے روپے کا بلند سطح پر رکھا، اسی لیے منقسم کمی واقع ہوئی۔ انہوں نے اس عمل کو جبری کمی قرار دیا کیوں کہ غیرملکی کرنسی ذخائر میں کمی واقع ہوئی اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ پھیل گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حالات کی وجہ سے بھی پاکستان کی شرح مبادلہ پر دبائو بڑھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں شرکت کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ وہ جبری کمی پر عمل درآمد یقینی بنائے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ہماری پالیسیوں کے ساتھ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس سے گھبراہٹ اور بےیقینی کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔