• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’یہ جان کر کہ میری بیٹی کے ساتھ ان ظالم درندوں نے کیا گھناؤنا کھیل کھیلا ہے۔ اب اس سے کون شادی کرے گا‘‘؟ بوڑھے باپ کی ویران آنکھوں میں ایک سوال تھا اور میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ میں نے پولیس کی طاقتور وردی زیب تن ہونےکے باوجود خود کو کمزور اور بے بس محسوس کیا۔خواتین پر تشدد اور زیادتی کی خبریں شاید اخبار چھاپنے اور پڑھنے والوں کیلئے سنسنی کا باعث ہوں لیکن جن پر گزرتی ہے ان کے صرف دکھ میں اضافہ کرتی ہیں۔ ایسے واقعات جو اخبار میں رپورٹ ہوئے یا میڈیا کی زینت بنے ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ بدنامی کے ڈر سے یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے عموماً لوگ عورت پر زیادتی کے واقعات رپورٹ نہیں کرتے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اگر واقعہ رپورٹ ہو جائے اور جرم سرزد بھی ہوا ہو پھر بھی اکثر ملزمان چھوٹ جاتے ہیں۔ غلطی پولیس افسر کی ناقص تفتیش کی ہو، قانون میں سقم کی یا پھر وکلاء حضرات کے موثر دلائل، مظلوم کی داد رسی نہیں ہو پاتی۔اگر ملزمان امیر ہوں اور درخواست گزار غریب تو پیسے کی چمک بھی خوب اپنا کام دکھاتی ہے۔بطور پولیس افسر صبح سویرے جرائم کی ڈائری پڑھنا میرے لئے ہمیشہ ایک تکلیف دہ عمل رہا ہے، خاص طور پر بچوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میرے دکھ میں اور اضافہ کرتے رہے ہیں۔ کیا یہ تربیت کا قصور ہے یا معاشرے کی بے راہ روی یا پھر دونوں ہی اس کے ذمہ دار ہیں؟ بہرحال یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

ماضی کی مشہور اداکارہ شبنم کے گھر پر ڈکیتی اور تشدد میں بااثر خاندانوں کے بگڑے نوجوان ملوث تھے۔ وہ اتنی دلبراشتہ ہوئیں کہ ملک چھوڑ کر چلی گئیں اور ملزمان آج بھی دندناتے ہوئے پھر رہے ہیں۔ 2002میں مختاراں مائی کو سر عام رسوا کیا گیا لیکن ناکافی ثبوت ہونے کی وجہ سے ملزمان رہا ہو گئے۔ ماضی قریب میں قندیل بلوچ کو اس کے بھائی نے اس بنا پر قتل کر دیا کہ بقول اُس کے وہ خاندان کی عزت کو کو بٹہ لگارہی تھی۔ ایک سال قبل سیالکوٹ لنک روڈ پر ایک تنہا عورت کی عزت اس کےبچوں کے سامنے پامال ہوئی۔ آج کل ہم نور مقدم کا کیس سن رہے ہیں کہ کس طرح ایک بے بس لڑکی کو ایک امیر زادے نے کئی روز تک تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد بے رحمی سے قتل کر دیا۔

عورتوں پر ظلم صرف ہمارے معاشرے اور ملک میں ہی نہیں ہوتا بلکہ ساری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے۔ کہیں کم اور کہیں زیاد ہ۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ مغربی ممالک میں جہاں لباس کے معاملے میں خواتین انتہائی Casual ہیں وہاں پر کسی مرد کی مجال نہیں کہ ان کو گھور کر بھی دیکھے۔دبئی میں بھی خواتین مکمل تحفظ کے احساس کے ساتھ رات کے کسی بھی پہر کہیں بھی گھومنے پھرنے جا سکتی ہیں۔ مغربی اور خلیجی ممالک میں عورتوں پر زیادتی کا قانون بہت سخت ہے اور تیزی سے حرکت میں آتا ہے اور یوں کسی قسم کا پردہ اور حجاب نہ ہونے کے باوجود عورت اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بھی اس طرح کے سخت قوانین بنانے اور ان کی سزاؤں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس طرح معاشرے کو محفوظ بنانے میں مدد ملے گی۔

ہمارے ہاں خواتین پر تشدد کی دوسری قسم شوہر اور سسرال کا ناروا سلوک ہے۔ایک بچی بابل کا آنگن چھوڑ کر اپنی آنکھو ں میں مستقبل خواب سجائے جب شوہر کے گھر آتی ہے تو اس کے سپنے جلد ہی چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ جہیز کی کمی کا طعنہ اور شوہر کے معیار پر پورا نہ اترنا اس کا جرم بن جاتا ہے جس کی وہ ہر روز سزا بھگتتی ہے۔ایک ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کے تجربے کے مطابق جو حضرات کسی بھی قسم کی کمزوری کا شکارہوتے ہیں وہ اپنی کمی کو چھپانے کیلئے بیوی پر ہاتھ اٹھاتے ہیں کہ کسی طرح ان کی مردانگی کا بھرم قائم رہے۔ افسوس یہ ہے کہ خواتین پر اس طرح کے تشدد کو کسی حد تک قبول کر لیا گیا ہے۔ بہت سے لوگ اس کو گھریلو یا پرائیویٹ معاملہ کہہ کر نظر اندازکر دیتے ہیں۔

مرد چاہے جو مرضی کرتا پھرے اس کو اتنا معیوب نہیں سمجھا جاتا یا ہم اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ایک بہن یا بیوی غلطی سے کسی سے ہنس کر بات بھی کر لے تو ہماری نام نہاد غیرت جوش میں آ جاتی ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو کہ اخبار میں یہ خبر نہ چھپے کہ فلاں نے اپنی بیوی یا بہن کو شک کی بنیاد پر قتل کر دیا۔

ایک سروے کے مطابق 133ممالک کے سیفٹی انڈیکس کی فہرست میں ہم 67ویں نمبر پر ہیں اور ورلڈ اکنامک فورم کے 2020کے عالمی صنفی انڈیکس کے مطابق 156ممالک میں ہمارا نمبر 153 تھا۔ یہ اعداد و شمار انتہائی تشویش کا باعث ہیں۔ پاکستان کا آئین خواتین کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو بنیادی حقوق مثلاً خود مختاری، نمائندگی اور آزادی کی مناسب درجہ بندی کی جائے اور خواتین کے انصاف کی فراہمی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے سسٹم میں بنیادی اصلاحات لائی جائیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ اجتماعی کوشش کی جائے اور ایک قابلِ عمل قومی ایکشن پلان بنایا جائے۔ محض لب کشائی سے کام نہیں چلے گا۔

خواتین کیلئے حقوق نسواں کی تنظیمیں تو کام کر رہی ہیں، ان کیلئے آواز اٹھا رہی ہیں اور عمل بھی کر رہی ہیں لیکن بالغ ذہن کے سمجھدار اور پڑھے لکھے مردوں کو بھی اب آگے آنا چاہئے تاکہ وہ صنف جس کے وجود سے کائنات میں رنگ ہے وہ اپنے رنگ خوشی اور محبت کے ساتھ بکھیرتی رہے اور ہمارے گھرانے اور سماج ایک تہذیب یافتہ معاشرے کا عکس پیش کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین