کراچی (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جج کو صرف خدا کا خوف ہوتو تب ہی انصاف ہوگا، خود مختار عدلیہ ہی شہریوں کے حقوق کی ضامن ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی بار ایسوسی ایشن کے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
عشائیہ سے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ احمد علی شیخ، سینئر وکیل رہنما علی احمد کرد، کراچی بار کے صدر نعیم قریشی و دیگر نے خطاب کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تقریب سے خطاب کرتے مزید کہا کہ میرے حساب سے ہر جج کو بہادر نہیں ڈر پوک ہونا چاہیے، میں کہوں گا میں سب سے بڑا ڈرپوک ہوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بہادر تو وہ ہوتا ہے جو اوپر والے سے نہیں ڈرتا، بہادر تو وہ ہوتا ہے جو آئین پر عملدرآمد نہیں کرتا۔جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ میرے حساب سے جج کو ڈرپوک ہونا چاہیے، اور جب وہ ڈرے اس کے دل میں صرف اور صرف اوپر والے کا ڈر ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ بہادر تو وہ جج ہوتے ہیں جو قانون ایک کہے، کرے کچھ اور۔ ایسے بہادر جج ہمیں نہیں چاہیئں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جب جج آئین اور قانون پر عمل کرتا ہے تو نہ صرف اپنے حلف کی پاسداری کرتا ہے بلکہ وہ کام کرتا ہے جس کی ان کو تنخواہ ملتی ہے۔
دورانِ تقریب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں چالیس سال قبل جج بنا، اندرون و بیرون ملک مجھے تقریب کیلئے دعوت دی گئی، لیکن آپ کی طرف سے خاموشی رہی، یقیناً آپ کے معیار پر پورا اترنا آسان نہیں تھا، یہاں آتے آتے چار دہائیاں مکمل ہو گئیں، امید ہے آپ سے کہ نفی نہیں کریں گے۔جسٹس قاضٰ فائز نے کہا کہ سب سے پہلے ان کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے جانوں کا نذرانہ دے کر آئین و قانون کیلئے قربانیاں دیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شرکا سے کھڑے ہو کر شہدا کیلئے دعا کی درخواست کی۔جسٹس قاضی فائز نے مزید کہا کہ صحیح کہا جاتا ہے بہادر کی ایک زندگی ڈرپوک کی برسوں کی زندگی سے بہتر ہے۔
انہوں نے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے بتایا کہ اس کچہری کے سائے دار درختوں کے نیچے میں نے بے شمار چائے کی پیالیاں پی ہیں، چنے اور مونگ پھلیاں بے مثال تھیں لیکن بیت الخلا کا بھی کوئی جواب نہیں تھا۔ جب چیف جسٹس بلوچستان بنا تو بیت الخلا و دیگر چیزیں بہتر کیں۔ لیکن اس سے میں نے دیکھا کہ انصاف کی گاڑی آہستہ چلتی ہے۔ لہٰذا ان چیزوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کیس کیلئے زیادہ پڑھںا مشکل ہو تو آئین کا دیباچہ ہی پڑھ لے، اس ہی دیباچے میں عوام کے حقوق کا ذکر ہے اور ان کی ذمہ داری عدالتوں پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس شہر کے ایک وکیل نے اپنے قلم اور دلائل کے ذریعے برصغیر کی بڑی جماعت کو شکست دی، جب جمہوریت کا دامن ٹوٹ گیا تو ملک دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ راجہ محمد ریاض شہید کا نام ہمیں معلوم ہے، لیکن قاتل آج بھی جھوٹ کے پردے میں چھپے ہیں، ہمارے شہدا کے نام بلند ہیں، انسانوں کو جلانے والے یاد رکھیں کہ تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے، قرآن کریم میں ایک انسان کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے برابر قرار دیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نہ صرف انسان بلکہ چیونٹی کو جلانے کی بھی ممانعت ہے، وکیل اور جج کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ ہے سچ تک رسائی۔ جتنا قابل وکیل اور جتنا باصلاحیت جج ہوگا، اتنا ہی ہدف تک پہنچنا آسان ہوگا۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ میں نے اتنی بڑی محفل کا سامنا کبھی نہیں کیا، نہ ہی میں نے تقریر کی۔ میں آپ شرکا کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، آپ نے اس ناچیز کو اس قابل سمجھا کہ آپ سے مخاطب ہوں۔