• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیاض سُنبل لگتا ہی سب سے الگ تھا۔ خو ش مزاج ، خوش اطوار، خوش گفتار لیکن اس کے مرتبے اس قدر بلند ہوں گے کہ وہ کائنات کے خالق و مالک کے پسندیدہ گروپ میں شامل ہو جائیگا اس کا بالکل اندازہ نہیں تھا۔ مقدّس اور برحق کتابیں بتاتی ہیں کہ دوسروں کی جانیں بچانے والا اپنی جان نچھاور کر دے تو شہادت کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہوتاہے۔
اللہ کے سچے نبی نے فرمایا ہے” محافظ کی آنکھ پر دوزخ کی آگ حرام ہے“ فیاض سنبل شہید ڈی آئی جی کوئٹہ ہونے کے ناطے پورے کوئٹہ کا محافظ تھا۔ محنتی، فرض شناس، ایماندار اور بہادر ۔ایسا افسر جس پر محکمے ناز کرتے ہیں۔ ایسا انسان جس پر پورے شہر کو فخرہو۔ وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر شہریوں کی حفاظت کرتا رہا۔ ایک نڈر کمانڈر کی حیثیت سے اس نے فورس کو متحرک کر دیاتھا۔ اور شہریوں میں اعتماد اور یقین پیدا ہو رہا تھا۔ اس نے بلاشُبہ اللہ کے دین کو مسخ کرنے والوں اور وطن کے دشمنوں سے لڑتے ہوئے جان دے دی۔ نہ یہ جنگ نئی ہے اور نہ یہ جذبے اور جنون نئے ہیں۔ جہالت اور درندگی کے سوداگربے گناہ خواتین ، مردوں اور معصوم بچوں کے چیتھڑے اڑانے پر تُلے ہوئے ہیں اورپولیس کے افسر اور جوان اپنے شہریوں کیلئے ڈھا ل بن گئے ہیں۔
فیاض اس وقت چلاگیا جب ہلال خان کا زخم ابھی تازہ تھا۔ ایس پی ہلال خان ایک نڈر اور جری افسر تھا ۔کچھ ہی عرصہ پہلے اسے ضلع چلاس کا ڈی پی او تعینات کیا گیا تھا۔ عید سے چند روز پہلے وہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہوا۔ اگست2010 میں گوجرانوالہ کی تحصیل نوشہرہ ورکاں میں ضمنی انتخاب آن پڑا ۔ پولیس کے ڈویژنل سربراہ نے میٹنگ میں ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ” اطلاعات ملی ہیں کہ دونوں طرف سے سینکڑوں مسلح افراد فساد اور غارتگری کیلئے تیار کئے گئے ہیں لہٰذا اسلحہ لے کر چلنے پر مکمل پابندی ہوگی۔ کسی قسم کا ہتھیار نہ کسی کے ہاتھ میں ہوگا نہ گاڑی میں نہ ڈگی میں“ ۔ ٹاسک چونکہ مشکل تھا اس لئے ڈی ایس پی کو ہٹا کر یہ ذمہ داری اے ایس پی ہلال خان کو سونپی گئی۔ ہلال خان نے صرف ایک بات پوچھی ”سر کوئی Exception تو نہیں ہے؟ “ ”بالکل نہیں “ جواب کافی تھا ۔پھر ہلال خان اور اس کی ٹیم نے قانون اس طرح نافذ کرکے دکھایا کہ پوری انتخابی مہم میں کوئی چڑیا پر نہ مارسکی۔ کہیں کوئی چاقو بھی نظر نہ آیا۔ ہلال خان کی خبر سنی تودل بہت دُکھی ہوا۔ ایسے بہادر افسر محکموں کی شان ہوتے ہیں انہیں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔
عید سے ایک روز پہلے ٹی وی سکرین پر فیاض کا نام چلا تو میں چوکنا ہوگیاپوری خبر پڑھی تو دل ڈوب گیا ۔کچھ دیر بعد اس کیفیت سے نکلا تو جوان سال افسرپر رشک آنے لگا اتنی چھوٹی عمر اور اتنا عظیم رُتبہ ۔ فیاض پولیس اکیڈمی میں میرا شاگرد بھی رہا تھا۔ میں اس کی شادی میں بھی شامل ہوا۔ مختصر عرصے کے لئے اس نے میرے ساتھServe بھی کیا تھا۔ انتہائی مہذّب،Well mannered ، ہر وقت ہنستا مسکراتا ہوا چہرہ ۔ میں کیا ، فیاض کو تو کوئی بھی نہیں بھلا سکتا۔ محکمہ کیسے بھلاسکے گا۔
چند روز پہلے اس کی بیگم اور دو ننھے اور معصوم بچے لاہور سے بابا کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کیلئے کوئٹہ آئے تھے ۔ مگر اسے شاید جلدی تھی اتنی جلدی کہ ایک ہی جست میں ساری بلندیاں طے کر لیں اور شہیدوں کے اُس قافلے میں شامل ہوگیا جسمیں شمولیت کی خواہش لئے بڑے بڑے ولی اور قطب دنیا سے چلے گئے۔
فاروقِ اعظم حمص کے پاس سے گزرتے ہوئے خالد بن ولید سے ملنے گئے جہاں وہ زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے۔ زمانوں کا عظیم ترین جرنیل اسلامی سلطنت کے عظیم سربراہ سے گلے مِل کر رو پڑا۔ فاروقِ اعظم نے پوچھا خالد آپ اور آنسو! کہا جسم کے ایک ایک حصّے پر زخم ہے مگر دکھ ہے کہ شہادت کی آرزو پوری نہ ہو سکی۔ فاروقِ اعظم نے کہا رسولاللہ نے آپ کو سیف اللہ کا لقب عطا کر دیا تھا۔اللہ کی تلوار کو کون توڑ سکتاتھا ؟
مالکِ کائنات کو شہیدوں سے بہت محبت ہے اللہ نے اپنے اس محبوب گروہ کیلئے خاص اعزاز لِکھ دیئے ہیں۔ باقی تمام انسانوں سے علیحدہ انہیں قدرت نے خود اپنے بنائے ہوئے قوانین سے بھی بالا قرار دے دیا ہے۔ زندگی اور موت کے مالک کا اٹل فیصلہ ہے۔ کہ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ۔ سب انسان موت سے ہمکنار ہوں گے مگر شہید نہیں ۔شہیدوں پر یہ فیصلہ لاگو نہیں ہوگا۔ وہ زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔ روزِ حساب تمام انسانوں کے ایک ایک فعل کا حساب اتنا کڑا ہوگا کہ پیغمبر بھی تمام عمر گڑگڑا کر مغفرت کی دعائیں مانگتے رہے۔ مگر ایک گروہ کو اس کڑے حساب اور احتساب سے بھی مستثنیٰ قرار دے دیا گیا۔ یہ exemption ساری عمر عبادت اور ریاضت کرنے والوں کونہیں ‘جان دینے والے شہیدوں کو عطا کی گئی۔
بزرگ کہتے ہیں شہیدوں کا لہو اتنا مقدس اور قیمتی ہے کہ اسے مٹی میں گرنے سے پہلے فرشتے اٹھا لیتے ہیں کہ اسی لہو سے نخلِ انقلاب کی آبیاری ہوتی ہے۔ شہیدوں کا خون رَگوں میں اُتر کر مردہ معاشرے کو زندگی سے ہمکنار کرتا ہے اور یہی لہو قوموں کو حیاتِ نو بخشتا ہے۔
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
اپنی بات کریں تو پولیس کے دامن میں سب سے قیمتی متاع شہیدوں کی قربانیا ں ہی تو ہیں ۔ فیاض شہید، ہلال شہید اور ان کے سینکڑوں شہید ساتھیوں پر لاکھوں سلام کہ اِن جری پاسبانوں کی قربانیوں کے طفیل ہی پولیس افسر ان فخر سے سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہوئے۔ اِن شہیدوں کے خون نے پولیس کے دامن پر لگے ہوئے داغ دھو ڈالے ورنہ اس محکمے کے کرپٹ اور حرام خور افسروں نے اس کا دامن داغدار کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔فیاض شہید کے جنازے میں کسی پولیس افسر نے پوچھا جوان بیٹے ( جو ایک بڑا افسر بھی ہواور خاندان کیلئے قابلِ فخر بھی ہو) کا لاشہ دیکھ کر ضعیف والدہ کا کیا حال ہوگا؟ کہیں قریب سے آواز آئی جب شہید کیلئے کائنات کے تمام قانون اور ضابطے بدل جاتے ہیں وہ دوسرے تمام انسانوں سے الگ ہوتے ہیں تو شہیدوں کی ماوٴں کوبھی خالق کسی خاص سانچے سے بناتاہے۔ بلاشُبہ خالق ِکائنات شہیدوں کی مائیں رونے کیلئے نہیں حوصلے بڑھانے کیلئے پیدا کرتاہے۔ میں نے تائید کرتے ہوئے کہا ” میں نے جوان بیٹوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر شہیدوں کی ماوٴں کو بَین کرتے نہیں دیکھا بلکہ پُرجوش انداز میں یہ کہتے سُناہے کہ ” اللہ اور ملک کیلئے اپنے دوسرے جوان بیٹوں کو بھی قربان کردونگی“۔ خوشیوں اور غموں کے خالق سے دعا ہے کہ وہ شہیدوں کی ماوٴں اور بیواوٴں پر اپنی خاص رحمتیں نازل فرمائے اور زندگی کا سفر ان کیلئے پُرسکون بنادے۔ جنازے پر تمام پولیس افسر دُکھی تھے مگر ان کے حوصلے بلند تھے یہی کیفیت پشاور، کوئٹہ اور لاہور میں شہیدوں کے جنازے اٹھاتے وقت نظر آئی ۔ اِدھر میّتیں اٹھائی گئیں اُدھر دوسرے ساتھیوں نے اِن کی جگہ فرائض سنبھال لئے۔ فیا ض سنبل شہید اور ہلال خان شہید کے معصوم بچوں کو جو اعزاز ملاہے اس پر وہ ہمیشہ فخر کریں گے۔ اب وہ شہیدکے بیٹے اور شہید کی بیٹیاں کہلائیں گی۔ صرف پولیس نہیں پوری قوم ان کی ممنونِ احسان رہے گی ۔ وہ جدھر سے گزریں گے اس دھرتی کا ذرّہ ذرّہ انہیں سلام پیش کرے گا کہ وہ اس ملک کے ان بہادر سپوتوں کی اولاد ہیں جنہوں نے اس کے شہریوں کا تحفظ کرتے ہوئے وہ قربانی دی جس سے بڑھ کر کسی قربانی کا کوئی تصّور نہیں۔
اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی فضائیں سلام کہتی ہیں
کیا مالک ِکائنات اپنے اِن پیاروں کا خون رزقِ خاک ہونے دے گا اور کوئی قدر نہ کرے گا؟ کیا ہزاروں شہیدوں کا خون ضائع جائے گا؟نہیں ایسا نہیں ہوگا!! یہ خون ضرور رنگ لائے گا۔ تحفّظ کی فصل ضرور لہلہائے گی۔ امن کے اجڑے گلستان میں ضروربہار آئے گی۔ قو م کے محافظ فتح یاب ہونگے اور اس ملک پر سلامتی اور استحکام کا نزول ہو کر رہے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ادارے یکسُوہوکر اپنے محافظوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ حکومت بھی، فوج بھی، عدلیہ بھی ، میڈیا بھی اور پوری قوم بھی ۔ اور ایسا ہوکر رہے گا۔ بلاشبہ جنگ تباہی اور بربادی ہے مگر جب سر پر آ پڑے تو!!۔ جب فساد برپا کرنے والے ریاست کے تاروپو د تباہ کرنے پر تُل جائیں تو پھر جنگ سے پہلو تہی اٹھارہ کروڑ آبادی کے ایٹمی ملک کو زیبا نہیں ۔ جنگ سے کترانے اور منہ موڑنے سے امن نصیب نہیں ہوسکتا۔ جنگ سراپا شر ہوتی تو اللہ کے سچے نبی اور رحمة للعالمین نے جنگوں میں حصّہ نہ لیا ہوتا۔ جنگ کبھی ناگزیر بھی ہوجاتی ہے اور قوموں کی زندگی میں کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے جب پائیدار امن صرف جنگ کی کوکھ سے ہی جنم لیتا ہے۔
تازہ ترین