• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کا دن کئی لحاظ سے تاریخی ہے۔ آج ملک کے نئے صدر حلف لیں گے اور سب کو یقین دلائیں گے کہ وہ قطعاً جانے والے صدر کے نقش قدم پر نہیں چلیں گے حالانکہ جس لیڈر نے انہیں صدر بنایا ہے وہ چاہتے ہیں کہ ممنون صاحب بھی زرداری صاحب کی طرح صدارت کریں۔ میں نے جب نواز شریف کی تقریر کا یہ جملہ سنا تو ہکا بکا رہ گیا کہ میاں صاحب کیا فرما رہے ہیں کہیں تقریر لکھنے والے سے غلطی تو نہیں ہوگئی مگر پھر باقی تقریر سن کر یقین ہوگیا کہ میاں صاحب واقعی زرداری کی تعریف میں پُل باندھ رہے تھے اور اپنے نئے نویلے صدر کو تاکید کررہے تھے کہ وہ بھی ایسی ہی صدارت کریں۔ یعنی زرداری2 بنیں۔ یہ تو حد ہی ہوگئی ابھی کچھ دن پہلے تک یعنی مئی کی 11 تاریخ تک میاں صاحب اور ان کے بھائی، زرداری صاحب کو علی بابا کے خطاب سے نواز رہے تھے یعنی چالیس ساتھیوں کے سردار۔ چھوٹے میاں صاحب تو فرماتے تھے زر بابا کو سڑکوں پر گھسیٹوں گا اور لوٹا ہوا سارا مال و متاع واپس لاؤں گا۔ خود بڑے میاں بھی کئی دفعہ قوم سے وعدہ کرچکے کہ سوئس بینکوں میں رکھا ہوا مال واپس لانا ہوگا۔ اچانک یہ کیا ماجرا ہوگیا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا۔ آج کا دن زرداری کیلئے بھی تاریخی ہے کہ پانچ سال بعد وہ عام شہری کی طرح پہلا دن گزار رہے ہیں۔ تو سر کیسا لگ رہا ہے، کہیں ڈر تو نہیں لگ رہا۔ میرا خیال ہے ڈر کی وجہ سے وہ پہلے ہی ہتھیار پھینک چکے ہیں اور ان کا یہ اعلان کہ وہ آئندہ پانچ سال سیاست نہیں کریں گے، اعلان شکست نہیں تو کیا ہے۔ کوئی لیڈر جس کی پارٹی الیکشن میں قومی پارٹی سے سکڑ کر ایک صوبے کے دیہی علاقوں کی پارٹی رہ جائے تو اسے تو خود شرم کے مارے استعفیٰ دے کر گھر جانا چاہئے تھا مگر ہمارے ملک کی سیاست اور کئی بڑے سورماؤں کی صحافت صرف جھوٹ اور فریب اور لوٹ مار پر ہی مبنی ہے۔ آج زرداری صاحب کو ہر لمحہ یہ خطرہ ہوگا کہ کہیں کوئی حملہ آور ان کے گھر پر بم نہ پھینک جائے یا کوئی عدالت ان کے وارنٹ گرفتاری نہ جاری کردے یا کوئی ان کا ساتھی اور مخبر سرکاری گواہ نہ بن جائے یا کوئی بزنس پارٹنر لاکھوں اربوں کا فراڈ کرکے غائب نہ ہوجائے کیونکہ مثل مشہور ہے جیسے مال آتا ہے ویسے ہی جاتا ہے اور زرداری صاحب سے زیادہ اس محاورے کو کون جانتا ہے کہ جو ان کے ساتھ 90 کی دہائی میں ہوا وہ انہیں حرف بہ حرف یاد ہوگا۔ اس لئے اس دفعہ نئے پارٹنر اور دوست نظر آئے۔ پرانے جو معافیاں شافیاں مانگ کر اور پاؤں پر گر کر انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے وہ قافلے میں تو شامل کرلئے گئے مگر اصلی مال پانی والی پوزیشن پر نہیں پہنچ سکے۔ مگر یہ راگ الاپتے ہوئے کہ ”گندہ ہے پر دھندہ ہے یہ“ وہ اپنی جگہ خوش رہے۔ آج زرداری کو اپنی عافیت اس اعلان میں ہی نظر آرہی ہے کہ ایوان صدر میں پوری قوم کے سامنے لائیو ٹی وی پر وہ کہیں کہ میں سیاست پانچ سال بعد کروں گا اور آئندہ پانچ سال حکومت کی بھرپور حمایت کروں گا۔ اس اعلان پر تو ہمارے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو خود استعفیٰ دے دینا چاہئے کہ ان کا کام تو اب وہ رہا ہی نہیں جس عہدہ پر وہ فائز ہیں۔ اس لئے میاں صاحب کو بھی اب آصف صاحب پر اتنا پیار آرہا ہے کہ وہ تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ مگر میاں صاحب کو یہ تو بتانا ہی پڑے گا کہ جن اربوں کھربوں کی لوٹ مار میں جو لوگ پانچ سال ملوث رہے ان کے خلاف حکومت کی پالیسی اب کیا ہے۔ کیا سوئس کیس اب کھولے جائیں گے۔ کیا میاں صاحب اور زرداری مل کر ایک اور فخرو بھائی کو نیب کا چیئرمین بنائیں گے۔ یہ تو وہ مثال ہوگئی کہ ساری وہ مافیا جن کو پکڑے جانے کا خطرہ ہو وہ اکٹھے ہو کر اپنا ایک پولیس کا IG لگوا دیں تاکہ کوئی بھگوان داس یا فخرو بھائی اتنی ہمت ہی نہ کرسکے کہ ان کو کی ہوئی چوری پر پکڑے یا اگلے دنوں میں ہونے والے ڈاکے سے خبردار کرے۔ یہ تو بلی کو دودھ کی رکھوالی کرنے والی بات ہوگئی یا چور کو تھانیدار بنانے کی۔ خیرابھی تو میاں صاحب کی حکومت کو 100 دن بھی پورے نہیں ہوئے مگر اسکینڈل نئی فلموں کی طرح ہر جمعہ کے جمعہ ریلیز ہورہے ہیں۔ ابھی 500 ارب کے گردشی قرضے کی عجلت میں ادائیگی کا مسئلہ حل نہیں ہوا تھا کہ نندی پور آگیا‘ وہ ابھی باکس آفس پر قدم جما ہی پایا تھا کہ چین سے بلٹ ٹرین کے بدلے ارب ہا ارب ڈالروں کی ریکوڈک کی سونے کی کانوں کے قصے گونجنا شروع ہوگئے اور یہ فلم ابھی ریلیز بھی نہیں ہوئی کہ اسلام آباد میں CDA کا 42 گاؤں خریدنے کا ٹریلر سامنے آگیا۔ IMF نے جو شرائط لگائی ہیں ان میں PIA‘ ریلوے‘ اسٹیل مل اور 60 دوسرے اداروں کو فوراً نجی شعبے کو دینے کی شرط بھی ہے اس لئے اب ساری پارٹیاں تیاری کررہی ہیں کہ اس جمعہ بازار میں انہیں کیا چیز سستی ملے گی۔ اتنے بڑے نیلام گھر کو دیکھ کر زرداری صاحب بھی ان چیزوں میں دلچسپی ظاہر کرسکتے ہیں۔ آخر جنگل میں بھی ایک قانون ہوتا ہے اور شیر کسی شیر کا شکار نہیں کرتا۔ تو اب سیاست نہ کرنے کا اعلان کرکے زرداری نے مان لیا کہ ابھی سب سے بڑی سیاست یہی ہے کہ کوئی سیاست نہ کی جائے‘ جان و مال کا تحفظ پہلے بعد میں سب کچھ جو ہے اسے تو پہلے ہضم کیا جائے باقی بعد میں۔ جس بات کو سب بھول رہے ہیں اور جو 500 ٹن کا ہاتھی اس سیاسی کمرے میں کھڑا ہے اور یہ سب لوگ جنہوں نے مک مکا کی سیاست کو ایک آرٹ کی شکل دے دی ہے۔ وہ اس ہاتھی کو دیکھ نہیں رہے وہ پاکستان کے عوام کا ردعمل ہے۔ زرداری نے جو گیم کھیلے ان کا نتیجہ نظر آگیا اور اب وہ جان اور مال بچانے میں ہی مصروف رہیں گے میاں صاحب بھی جس راستے پر چل پڑے ہیں وہ کوئی قابل تعریف نہیں اور اس کا انجام بھی اچھا نہیں لگتا ۔ وہ جس طرح لوگوں کو گلے لگا رہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے کوئی تعجب نہیں کہ جن سفارت کاروں کو انہوں نے عدالت عالیہ لے جاکر میمو کیس میں لاکھڑا کیا تھا وہ بھی آئندہ چند دنوں میں جب میاں صاحب نیویارک اور واشنگٹن کا دورہ کریں گے ۔ جناب وزیراعظم کے ساتھ تصویر میں نظر آئیں۔ جب سب کی معافی ہوسکتی ہے تو ان کی کیوں نہیں۔ مگر لوگ یہ سب بھولتے نہیں۔ لوگوں کو وہ بڑے صحافتی سورما اور جغادری بھی یاد ہیں جن کا کام ہی حکومت میں آنے والوں کی تعریف کرنا اور جانے والوں کی برائی کرنا ہے اور اس کے ذریعے کروڑوں کی زمینیں‘ مرسڈیز گاڑیاں اور اپنے بچوں رشتے داروں کو خاص خاص رشوت گاہوں میں کمانے والے پوت بنانا شامل ہے۔ آج کل پھر کئی ایسے ہی کئی جغادری میاں صاحب کی تعریفیں کررہے ہیں اور آج کے دن کا تاریخی ہونا یوں بھی نظر آرہا ہے کہ ساری سیاسی قیادت ایک میز پر بیٹھ کر فیصلہ کرے گی کہ آیا دہشت گردوں سے لڑنا ہے یا بات چیت کرکے انہیں قومی دھارے میں لانا ہے۔ یہ بڑا فیصلہ ہوگا کیونکہ جن لوگوں نے ہزاروں بے قصور لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا ہو ان کو معافی دینا آسان نہیں مگر لڑنا بھی مشکل ہے۔ آج کے دن فیصلے بھی تاریخی ہی ہوں گے۔
تازہ ترین