• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کبھی کبھی چھیڑ چھاڑ بڑی مہنگی پڑ جاتی ہے چاہے وہ اپنے سے کی جائے اور خواہ دوسرے کے ایماء پر کی جائے۔ شاید کچھ لوگوں کو ابھی تک یہ یاد ہو کہ صدام حسین کے دور حکومت میں عراقی افواج نے کویت پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کام کے لئے امریکہ نے صدام حسین کو اکسایا تھا اس احمقانہ یورش کا انجام کیا ہوا، رسوائی ذلّت اور پسپائی۔ اتنی بڑی شرمناک صورتحال سے دوچار ہونے کے باوجود صدام حسین نے عبرت حاصل نہیں کی،سبق نہیں لیا۔ وہ دوسروں کے اکسانے پر ایران سے لڑ پڑا اور یہ جنگ آٹھ سال جاری رہی۔ امریکہ کی منشاء اور مقصد یہ تھا کہ دونوں ملک تباہ ہو جائیں کیونکہ وہ دونوں کو امریکی اور اسرائیلی مفادات کے خلاف سمجھتا تھا۔آخر کار عراق تباہ ہو گیا۔ صدام حسین کا انجام سب کو معلوم ہے ،کیا ہوا۔ ایران ایک منظم ملک تھا وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا اس نے حکمت سے اپنے آپ کو بچا لیا اب وہ ایک مضبوط گراؤنڈ پر کھڑا ہوا ملک ہے۔میرا تجزیہ یہ تھا کہ روزنامہ جنگ کے میرے کالم اس کے گواہ ہیں کہ امریکہ ایران کو بندر بھبھکیاں دے رہا ہے یہ ایران پر کبھی حملہ نہیں کرے گا اور ویسا ہی ہوا اب تو امریکہ ایران سے تعلقات کی بحالی چاہتا ہے۔ ایران جدید ٹیکنالوجی میں بہت آگے نکل چکا ہے انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنا ڈرون بنا لیا ہے بلکہ انہوں نے امریکہ کا ڈرون بھی مہارت سے اتار لیا ہے۔ انہوں نے سسٹم کو ڈی کوڈ کرنے کے بعد اس کی لینڈنگ کرائی تھی۔
بھارت اگر کسی مقصد کے تحت خود سے کنٹرول لائن پر جنگی حالات پیدا کر رہا ہے تب ابھی اور اگر اس سرگرمی کے پیچھے کوئی اورہے تب بھی دونوں ملکوں کو حالات قابو سے باہر نہیں ہونے دینا چاہئے۔ اس وقت عالمی حالات ایسے ہیں کہ برصغیر کا عدم استحکام دوسری طاقتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع فراہم کر دے گا۔ امریکہ فائدہ اٹھا لے گا لیکن پاکستان اور بھارت کی حالت جوں کی توں ہی رہے گی اور ہو سکتا ہے مزید خراب ہو جائے۔ بھارت اور پاکستان میں جنگ کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، معمولی جھڑپیں اور لڑائی ہو سکتی ہے۔ موجودہ حکومت سمجھداری سے کام لے رہی ہے، اشتعال انگیز رویوں سے حالات بگڑ جائیں گے۔ اس وقت اعتماد سازی کی ضرورت ہے۔ دونوں طرف کی قیادت کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اس کشیدگی سے کوئی فائدہ اٹھانے کی غرض سے بھس میں چنگاری نہ ڈال دے۔یہ حقیقت جاننی بہت ضروری ہے کہ امریکہ برصغیر میں بحرہند اور بحیرہ عرب میں کیا کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔ وہ پاکستان کو مستقل دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے۔ امریکی دفاعی حکمت عملی کی بدولت اور پاکستان کے ناسمجھ حکمرانوں کی وجہ سے پاکستان کیلئے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر گرا رہا ہے۔اس قبضے میں بڑا نقصان پاکستان کا ہوا ہے پاکستان کیلئے اندر سے بھی خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ بیرونی مداخلت سے بھی سلامتی کو خطرہ ہے۔
میں نے بہت پہلے اپنے12اپریل2009ء کے کالم میں پاکستانی حکومت کو آگاہ کر دیا تھا اور امریکی اور نیٹو افواج کا ایک ایجنڈا ہے انہیں کوئی بھی حکومت جس کا موقف کمزور ہو اور وہ خود بھی مضبوط نہ ہو اور امریکہ اور نیٹو اس کو کمزور سمجھتے ہوں وہ کسی صورت بھی ان کو ان کے ایجنڈے سے نہیں ہٹا سکتی ۔ اگر حکمت و دانش سے کام نہیں لیا گیا تو اندرونی سطح پر عدم استحکام اور انتشار پیدا ہو گا بلکہ جن کا مفاد اس علاقے میں ہے وہ خود ایسا کرائیں گی۔ اگر پاکستان کے برسراقتدار طبقے نے صورتحال کو نہیں سمجھا تو وہ آنے والے طوفان کے سامنے بند نہیں باندھ سکیں گے۔ سوات میں اسلامی نظام عدل کے قیام کے لئے جو معاہدہ کیا گیا ہے اگر یہ ناکام ہوا تو اس کے نتائج بہت خراب ہوں گے “۔امریکہ کے دباؤ میں یہ معاہدہ ناکام ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ہماری اس وقت کی حکومت نے ایسا معاہدہ کیوں کیا اور اگر کیا تھا تو اس پر قائم رہنا چاہئے تھا یہ معاہدہ کوئی عجوبہ تو نہیں تھا پاکستان نے ضیاء الحق مرحوم کے زمانے میں خود حدود آرڈی نینس نافذ کیا تھا یہ حدود کے قوانین سعودی عرب میں نافذ ہیں امریکہ کو پتہ نہیں ہے کیا؟ اگر غورکیا جائے تو حدود کے نفاذ میں زندگی ہے ،معاشرے کی بقاء ہے اور یہ اللہ کا حکم ہے اس کو کوئی حکمراں اور کوئی پارلیمینٹ تبدیل نہیں کر سکتی۔امریکہ طالبان سے مذاکرات کرنے کا مخالف تھا آج وہ خود مذاکرات کیلئے بے چین ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ بھارت کی بے موقع کشیدگی پیدا کرنے میں یہ عنصر موجود ہو کہ پاکستان دباؤ میں آ کر امریکی موقف کی حمایت کر دے۔پاکستان کے معاشی حالات ایسے نہیں کہ وہ خم ٹھونک کر کھڑا ہو سکے جس ملک کا بجٹ خسارہ ایک کھرب چوراسی ارب ہو وہ کس طرح اپنے موقف پر کھڑا رہ سکتا ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قرضوں کے نیچے دبا ملک آزادانہ فیصلے کس طرح کر سکتا ہے پھر بھی ہمیں یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ جوش کے بجائے ہوش سے کام لیا جائے۔ آج جو بھارت نان ایشو کو ایشو بنا کر دھمکیاں دے رہا ہے اس کے پیچھے ضرور کسی کا ہاتھ ہو۔ افغانستان کی صورتحال امریکہ اور نیٹو کے انخلا کے پلان کا بھی اس میں عنصر موجود ہو سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے۔ اس علاقے کی بھلائی کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ اسٹرٹیجک ڈپلومیسی کے ذریعے حالات کو بگڑنے نہ دیا اگر مشرقی سرحدوں پر جنگ کے خطرات بڑھیں گے تو پاکستان کو مغربی سرحدوں سے فوج مشرق میں لانی پڑے گی کیا مغربی سرحدوں کو غیر محفوظ چھوڑا جا سکے گا ۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ افغانستان میں بھارتی کردار کو آگے بڑھانے کے لئے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔پاکستان کو ہنگامی طور پر ایسے پلان کی ضرورت ہے کہ اگر افغانستان میں طاقت کا خلا پیدا ہوتا ہے وہ علاقے کے توازن کو قائم رکھ سکے۔
تازہ ترین