’’میاں جی‘‘ہمیں لفظی ترجمےکےساتھ قرآن پڑھایا کرتے تھے، مجھے اعتراف کرنا پڑےگا کہ مَیں اُن کا پسندیدہ شاگرد ہرگز نہیں تھااوراِس کی وجہ میرا غیر مستقل اور مَن موجی قسم کا مزاج تھا۔ دوسری بڑی وجہ عربی گرامر تھی، جو کوشش کے باوجود میرے پلّے نہیں پڑتی تھی، لہٰذا مَیں اُن سے ایک دو ہفتے تو سبق لیتا، مگر پھر دو چارماہ کے لیے غائب ہو جاتا بلکہ بعض اوقات تو یہ دورانیہ مزید بڑھ جاتا۔ کہیں آتےجاتے میاں جی سے سامنا ہوجاتا تو شرمندگی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگتا، لیکن بہرحال حصولِ علم کی اِک ’’چنگاری‘‘ اندر ہی اندر کہیں سلگتی رہی۔
آٹھویں سے دسویں جماعت تک میاں جی کے ساتھ ’’چُھپن چُھپائی‘‘ کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ دوچارماہ قرآن پڑھنے، سمجھنےکا جوش دِل میں ٹھاٹھیں مارتا، مگر کچھ عرصے بعد یہ تلاطم خیزموجیں خودہی پُرسکون ہو جاتیں۔میاں جی کا معمول تھا کہ صُبح کی نماز کے بعد گائوں کے لڑکوں کو مسجد میں قرآن پڑھایا کرتے پھر لڑکیوں کی باری آتی، جنہیں وہ اُن کے گھروں میں جاکر پڑھاتے۔ ہم نےناظرہ قرآن بھی اُنہی سے پڑھا تھا لیکن یہ اُس وقت کی بات تھی، جب انہوں نے ترجمے سے قرآن پڑھانا شروع نہیں کیا تھا۔
ایک وقت آیا، جب طلباوطالبات کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ میاں جی کو مجبوراً ترجمہ پڑھانےتک محدود ہونا پڑا۔ ایک دن مَن میں ترنگ اُٹھی، بہت ہوگیا، اب خود پہ لگا’’بھگوڑےشاگرد‘‘کالیبل ہٹانا ہوگا۔ لیکن ہرمرتبہ میاں جی کے سامنے بیٹھنے کا ابتدائی لمحہ انتہائی مشکل ہوتا۔ ایک عجیب قسم کی خجالت و ندامت کا احساس حصارمیں لے لیتا۔ ساتھ بیٹھے یار دوست بھی موقعے سے فائدہ اُٹھانے کی پوری کوشش کرتے، ’’فیر آگیا جے میاں جی…‘‘ لیکن اُس اللہ کے بندے کے منہ سے کبھی ایک لفظ طنز کا نہ نکلا، ہمیشہ ایک نرم گرم مسکراہٹ ہی سے استقبال کیا۔ ’’شروع اللہ کے نام سے، جو نہایت مہربان اور رحم فرمانےوالا ہے۔‘‘
میاں جی کے ہونٹوں سے یہ الفاظ ادا ہوئے اور تعلیم کی وہ کچّی ڈور، جو بار بار ٹوٹ جاتی تھی، اِس بار سُوت کی بٹی ہوئی مضبوط رسّی ثابت ہوئی۔ جیسے جیسے شعور و آگہی کے دَر کُھلتے گئے، استاد کو پڑھانےاور شاگرد کو پڑھنے میں لُطف آنےلگا۔ چند آیات تک محدود سبق نصف رکوع تک پہنچ گیا۔ میاں جی اگرچہ چھوٹے بچّوں کو بھی ترجمہ پڑھاتے تھے، لیکن وہ یہ بات سمجھتے تھے کہ بچّوں کا زیادہ زور رٹّا لگانے ہی پر ہوتا ہے، وہ الفاظ کی گہرائی و مفہوم تک اُترنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، البتہ میٹرک یا کالج کے لڑکوں کو پڑھاتےمیاں جی کا ذوق و شوق، دل چسپی، خوشی ومسرت دیکھنے والی ہوتی تھی۔
وجہ واضح تھی کہ ایک عاقل، بالغ لڑکے کو پڑھاتے ہوئے استاد اور شاگرد کے درمیان ذہنی ہم آہنگی بہت بڑھ جاتی ہے اور یہی وہ امر ہے، جو ایک طالب علم اور استاد کے روحانی بندھن کو خُوب صورت، مضبوط تر بناتا ہے۔ اگر آپ بذریعہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ سے اسلام آباد کی طرف جارہے ہوں، تو راستے میں گکھڑ منڈی نام کا ایک چھوٹا ساقصبہ ہے۔
ہمارے موجودہ آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ کا تعلق بھی اِسی قصبے سے ہے۔ گکھڑمنڈی سے کوئی پانچ کلومیٹر مغرب میں نہر کنارے ’’کولار‘‘ نام کا ایک چھوٹا سا گاؤں آباد ہے۔ یہی گائوں ہمارےاسم بامسمٰی استاد، محمّد عظیم المعروف’’میاں جی‘‘کی جائے پیدائش ہےاور اِسی گائوں کے چھوٹے سے قبرستان میں وہ آسودۂ خاک بھی ہیں۔
ایک استاد کے لیے سب سے مشکل کام ایسا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے، جس سے طلبہ کی تعلیم میں دل چسپی برقرار رہے اور یہ کام اُس صوفی مَنش، سادہ سے دیہاتی آدمی کو خُوب آتا تھا، حالاں کہ میاں جی نہ توکوئی معروف عالمِ دین تھےاورنہ ہی انہوں نےکسی نامی گرامی مدرسے سے عالم، فاضل کی اسنادحاصل کیں۔
بس، دورانِ تعلیم ایسی شگفتہ، ہلکی پھلکی باتیں کرتےکہ جس سے ایک خوش گوار سی فضا قائم رہتی، البتہ اگر کوئی لڑکا سبق ٹھیک طور پر نہ سُنا پاتا تو اُس کےنام کی مناسبت سے ہلکا پُھلکا مذاق کرکے اُسے محنت پر اُکسانا یا تھوڑا سا شرمندہ کرنا اُن کی عادت تھی۔ مثلاً ہمارے ایک دوست کا نام مظہر اقبال تھا۔
جب وہ کوئی شرارت کرتا یا سبق ٹھیک طرح نہ سُناتا تو اُسے کہتے،’’یہ مظہر نہیں، مُضر ہے۔‘‘ اور مظہر کے ساتھ ہم سب بھی ہنس پڑتے۔ ایک دوست کا نام زاہد تھا۔ اُس نے ایک طالب علم کو تنگ کیا، تو طالب علم نے زاہد کے رویے کی شکایت کی۔ میاں صاحب ایک شعر میں ہلکی سی ترمیم کرکے زاہد سےیوں مخاطب ہوئے۔؎ اِس خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو…تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو۔ میاں جی عظیم کی باوقار شخصیت ہی کا اثرتھا کہ وہ مذاق میں ہمیں کچھ بھی کہہ لیتے، ہمیں ہرگز بُرانہ لگتا۔
ایمان داری کی بات تو یہ ہےکہ ہم اُن کےایسے میٹھے رسیلے مذاق سے بڑے محظوظ ہوتے تھے۔میاں جی کی سب سے بڑی خُوبی یہ تھی، وہ زاہدِ خُشک یا مردم بےزار نہیں تھے، زندہ دلی ہمہ وقت ان کی شخصیت، لب و لہجے سے جھلکتی۔ حضرتِ ناصح بن کرلمبی لمبی نصیحتیں کرنا اُنہیں کبھی پسندنہیں رہا۔ ہمیں کبھی جہنم کے ڈراوے نہیں دیئے۔ آخرت کی بات ہوتی تو ہمیشہ رحمان کی رحمانیت اور انعامات کا تذکرہ کرتے۔ اپنے شاگردوں کو چھوٹی موٹی، بے ضرر شرارتوں کی نہ صرف اجازت دیتےبلکہ اُن کےہنسی مذاق سے خُودبھی خُوب لُطف اندوز ہوتے۔
ایک دن ہم پڑھائی کے بعد یونہی معمول کی بات چیت کررہےتھے،اچانک مجھ سےمخاطب ہوئے، ’’یار! یہ ’’شیخ مُرغی مار‘‘ کا کیا قصّہ ہے، مَیں دیکھ رہا ہوں، گائوں کی کئی دیواروں پر جگہ جگہ’’شیخ مُرغی مار‘‘ لکھاہے۔‘‘میری ہنسی چُھوٹ گئی،کیوں کہ اس معاملےمیں، مَیں خود براہِ راست ملوّث تھا۔ ’’میاں جی! معاملہ یہ ہےکہ صاب شیخ (ہمارا ایک دوست امتیاز شیخ عرف ’’صاب‘‘،جو میاں جی ہی سے قرآن پاک پڑھتا تھا) کے والد نے دو دن پہلے غصّے میں آکر میرے پھوپی زاد، نوید کی مُرغی مار ڈالی ہے۔‘‘ مَیں نے بتایا۔
’’وہ کیوں؟‘‘ انہوں نےتعجب سے پوچھا۔ ’’مُرغیاں روز بھینسوں کا چارہ پھیلا دیتی تھیں،چاچا فضل شیخ کو غصّہ آگیا، ایک بھاری پتّھر اُٹھا کر مُرغی کو دےمارا اور وہ وہیں دَم توڑ گئی،تو مَیں نے خود نوید کے ساتھ مل کر پورےگائوں کی دیواروں پہ ’’شیخ مُرغی مار‘‘ لکھا ہے تاکہ چاچے فضل کو اپنی غلطی کا احساس ہو۔‘‘ بس میرا بتانا تھا کہ میاں جی کِھکھلا کر ہنسنے لگے اور دیر تک ہنستے رہے۔ پھر اگلے کئی روز تک جب امتیاز شیخ کےسبق سُنانےکی باری آتی تو ازراہِ مذاق کہتے،’’آبھئی، شیخ مُرغی مار۔‘‘اورصاب شیخ سمیت ہم سب ہنس پڑتے۔
ویسے تو ہم اُن سےقرآن پڑھتےتھےلیکن اکثر و بیش تر ہرموضوع پر بات ہوتی۔ تاریخ سے لےکر ادب تک، مرزا غالب سے علّامہ اقبال کی شاعری تک۔ میاں جی نے بمشکل اسکول کی سات، آٹھ جماعتیں پڑھی ہوں گی، لیکن اُن کا مطالعہ بےپناہ تھا۔ سیکڑوں اشعار اُنہیں زبانی یاد تھے۔ قدرت نے اُن کی زبان میں ایسی حلاوت و شگفتگی، شیرینی ومٹھاس رکھی تھی،کوئی بھی شعر سُناتے، سیدھا دل میں اُترتا، یہاں تک کہ بےوزن شعر کاوزن بھی اُن کےخُوب صورت اندازِ سخن سےکئی گُنا بڑھ جاتا۔ اُنہیں نہ صرف خوداچھا،برمحل شعر سُنا کر خوشی ہوتی بلکہ ہم دوستوں کی زبانی بھی کوئی معیاری شعر، دل چسپ واقعہ، حکایت یا انوکھی بات سُننا اُنہیں ہمیشہ اچھا لگتا۔
نوجوانی میں یادداشت بھی بلا کی ہوتی ہے۔ مَیں کوئی شعر ایک دو مرتبہ دہراتا تو یاد ہو جاتا۔ اُن کی اسی حوصلہ افزائی کا نتیجہ تھا کہ مَیں ہمیشہ کسی اچھے شعر، رباعی یا قطعے کی تلاش میں رہتا اور جب کچھ یاد ہو جاتا، توکوشش ہوتی کہ سب سے پہلےمیاں جی کو سُنا کر داد سمیٹی جائے۔ یادداشت کی بات پہ یاد آیا، ہمارے ایک دوست کو سبق یاد نہیں ہوتا تھا۔ میاں جی نے تنگ آکرایک دن اُس سےپوچھ ہی لیا۔ ’’تیرےساتھ مسئلہ کیا ہے؟‘‘
کہنے لگا۔ ’’میاں جی! اللہ دی قسمے، مَیں کشور کماریا رفیع کا کوئی گانا سُنتا ہوں، تو فوراً یاد ہوجاتا ہے، لیکن پتانہیں کیوں، سبق یاد کرتے ہوئے دماغ بند ہوجاتا ہے۔‘‘ میاں جی کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ڈنڈا نکال لیتا، لیکن میاں جی اِس جواب پر تادیر ہنستے رہے اور پھر بولے،’’اچھا یار! ایسا ہےتو آج سے تُو سبق گا گا کر یاد کرلیا کر۔‘‘ میاں جی سے ہم روزانہ قرآن پڑھتے، لیکن نماز کے معاملے میں میرا مَن، پُرانا پاپی ہی ثابت ہوا، جو برسوں میں نمازی نہ بن سکا، لیکن میاں جی نےنمازکی پابندی کو کبھی سبق پڑھانے سےمشروط نہ کیا۔
اُن کاخیال تھاکہ اگر وہ ایسا کرتے، تو کئی نوجوان تعلیم سے محروم رہ جاتے کہ یہ عُمر کاوہ دَور ہوتا ہے، جب آپ کو علم کی پیاس تو ہوتی ہے، لیکن لگتاہے، عمل کے لیے ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ میاں جی جانتے تھے، نوجوانی میں بندہ پُرعزم تو ہوتاہے، لیکن منظّم نہیں اور شاید یہی وجہ تھی، عبادات کے معاملے میں وہ اپنے شاگردوں کو ہمیشہ رعایت دیتے۔ اُن کا خیال تھا، علم حاصل کرلیں گے، تو ایک نہ ایک دن عمل کی سیڑھی بھی چڑھ ہی جائیں گے۔
میاں جی نےخود بھی اُس عُمرمیں قرآن کی تعلیم حاصل کی،جب لوگ روزی روٹی،بیوی بچّوں کے لیےکولھو کے بیل بنے ہوتے ہیں اور اِس عُمر میں کچھ بھی نیا سیکھنے کے لیے دگنی محنت درکار ہوتی ہے، لیکن انہوں نہ صرف قرآن کی تعلیم حاصل کی، بلکہ اپنا علم دوسروں تک بھی منتقل کیا اور وہ بھی کسی دنیاوی صلے، ستائش کی تمنّا کے بغیر۔ اُنھوں نے گائوں کے کسی بچّے سے بطور معاوضہ کبھی ایک پائی وصول نہیں کی۔ اللہ کی رضا میں راضی رہنا، میاں جی کی فطرت کاناقابل تغیّر جزو تھا، حالاں کہ اُن کاایک بہت چھوٹا سا کاروبار تھا۔
مالی مُشکلات بھی ہوتی ہوں گی لیکن ہم نے اُنہیں ہمیشہ خوش و خرّم، مطمئن و آسودہ اور اپنےخاندان، شاگردوں کےچھوٹے سے چمن میں بلبل کی طرح چہکتے مہکتے ہی دیکھا۔ میاں جی کا اپنا ایک الگ ہی جہاں تھا۔ ایک ایسی دنیا، جس میں دوسروں کے لیے نفرت کو کوئی گنجایش نہ تھی۔ وہ پچھتّر، اسّی برس کی عُمرجیے، لیکن خُود پر کسی مسلک کی چھاپ نہیں لگنےدی۔
کسی بھی فرقے کے شخص نےجب بھی کسی مذہبی تقریب، قرآن خوانی یا کسی سماجی ضرورت کے تحت بلایا، خُوشی خُوشی چلےگئے، حالاں کہ بعض افراد معترض بھی ہوتے اور میاں جی کےپیچھےدَبی دَبی تنقیدبھی کرتے،لیکن انھوں نے اپنا چلن نہ بدلا۔ ایک بار مَیں نے پوچھ ہی لیا۔ ’’میاں جی!کچھ لوگوں کو کہتے سُنا ہے، آپ نماز کسی اور مسلک کی مسجد میں پڑھتے ہیں، لیکن ختم شریف، دعوت یا قرآن خوانی کابلاوا کہیں سےبھی آجائے، چُپ چاپ چلے جاتے ہیں؟‘‘
میاں جی مُسکرائے اور بولے۔ ’’اوجھلیا! تُو کیا سمجھتا ہے، مجھے ایک تھالی چاول یا گوشت کی دو بوٹیاں وہاں کھینچ لےجاتی ہیں یا دیگی دال کی خوشبو مجھے پاگل کردیتی ہے۔ نئیں پُتر، اگر مَیں نےخود پر کسی ایک مسلک کی چادر اوڑھ لی تو میرا گائوں والوں سے رشتہ ٹُوٹ جائےگا۔ اُن بچّوں کاکیا ہوگا، جن کےوالدین، اپنے بچّے میرے پاس صرف اس اعتماد سے بھیجتے ہیں کہ مَیں قرآن پڑھانے کے ساتھ اُن کے بچّےکا مسلک تبدیل نہیں کروں گا۔‘‘مَیں، میاں جی کاجواب سن کر گُنگ رہ گیا اور سوچنے لگا، بعض اوقات ہم دوسروں سے متعلق اندازے لگاتے ہوئے کس قدر غلط فہمی اور جلد بازی کا مظاہرہ کرتےہیں۔
استاد اور شاگرد کے درمیان احترام کے دائرے میں جتنی بےتکلفی مَیں نے میاں جی عظیم اور ان کے شاگردوں میں دیکھی، کہیں اور نظر نہیں آئی۔ وہ ہمیں اکثر دیہی زندگی سےجُڑے پرانے لطیفے، دل چسپ، سبق آموز واقعات سُناتے، لیکن مجال ہے، اُن میں کہیں لغوپن کا کہیں، کوئی ہلکا سا شائبہ بھی ہو۔ اُن کےمنہ سے کوئی دُشنام تو کیا، ہم نے کبھی اخلاق سے گِری ایک بات نہ سُنی۔ طلبہ کے ساتھ میاں جی کا رشتہ ایسا تھا کہ مشکل سے مشکل سوال کرتے ہوئے بھی، کبھی اُن سے خوف آیا، نہ کوئی ہچکچاہٹ محسوس ہوئی۔
ہم اُن سے ہر موضوع پرکُھل کر بات کرلیتےتھے۔ ایک دن غزل گائیکی پربات شروع ہوئی اورمہدی حسن سے ہوتی مُنّی بیگم تک جاپہنچی۔ اگلےدن میں اپنے کمرے میں بیٹھا امتحان کی تیاری کر رہا تھا، ہمارا گھر چوں کہ مسجد کے رستے میں پڑتا تھا، تو میاں جی کا آنا جانا وہیں سے ہوتا تھا۔ گرمی، حبس کی وجہ سے مَیں نے دروازہ کُھلا رکھا ہوا تھا۔ مجھے دیکھا تو پاس چلےآئےاور جیب سے ایک کیسٹ نکال کر میرے حوالے کردی۔
مَیں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئےحیرانی سےدیکھا۔ بولے، ’’سُننا، تمہیں پسند آئے گی۔‘‘ مَیں نے اُن کے جاتے ہی ٹیپ ریکارڈر آن کردیا۔ کمرے میں مُنّی بیگم کی مترنّم آواز گونجی۔ ’’فردوس جُھوم اُٹھی، فضا مُسکرا اُٹھی …تم اگر مُسکرا اُٹھو تو، خدا مُسکرا اُٹھے۔‘‘ کچھ دیر کے لیے تو مَیں بھول ہی گیا کہ اگلے دن میرا پیپر ہے۔جب ایساملن ساراستادہو تو کون شاگرد ہوگا،جو تعلیم سے دامن چرائے گا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب اسکولوں میں فارسی پڑھائی جارہی تھی لیکن آخری دَموں پرتھی۔ پرانے لوگوں اور کچھ نوجوانوں میں فارسی سے دل چسپی کسی حد تک برقرار تھی۔
میرے ایک دوست نے، جو اُن دنوں عشق کی کیفیات کاتجربہ کررہاتھا، مجھے فارسی کے چند اشعار سنائے۔ مجھے وہ اشعار اتنے اچھے لگےکہ مَیں نےیادکر لیے اور معمول کے مطابق میاں جی کو سنانےکو بےتاب ہوگیا۔ اورجب مَیں نےانہیں سُنائے تو کچھ دیرتک تو جیسے اُن کےسحر میں کھوئے رہے، پھربولے۔ ’’یہ کل مجھے لکھ کےدینا۔‘‘ یہ شاید واحدکام تھا، جو انہوں نےتعلیم وتربیت کے اس پورے عرصے میں مجھ سے لیا۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔؎ ہلالِ عید چوں ابروئے آں دلبر نمے ماند…اگر ماند شبے ماند شبے دیگر نمے ماند (عید کا چاند میرے یار کےابرو کی طرح نہیں ہوتا…اگرہوتا ہے تو پہلی رات، اگلی رات نہیں)حجابِ نوعروس دربر شوہر نمے ماند…اگر ماند شب ماند شبے دیگر نمے ماند (نئی نویلی دلہن کو شوہرسےحیا نہیں آتی… اگر آتی ہے تو پہلی رات، اگلی رات نہیں)۔
میٹرک کے بعد کالج میں میرا پہلا دن تھا۔ ہمارے اردو کے ٹیچر، سر غلام عباس بذاتِ خود بڑے عمدہ اور صاحبِ کلام شاعر تھے۔ وہ کلاس میں داخل ہوئے اور خاموشی سے بلیک بورڈ پر غالب کا ایک شعر لکھ دیا ؎ مَیں اور بزم ِمے سے یوں تشنہ کام آئوں… گرمَیں نے کی تھی توبہ ساقی کو کیا ہوا تھا۔’’کوئی آپ میں سےاس کی تشریح کرے گا؟‘‘ سر نے کہا، توکلاس میں سناٹاطاری ہوگیا۔ مَیں نے ہاتھ اُٹھایا اور اگلا مصرع سنا ڈالا؎ ہے ایک تیر جس میں دونوں چھدے پڑے ہیں… وہ دن گئےکہ اپنا دل سےجگرجداتھا۔ سر بولے،’’یہ میرے سوال کاجواب نہیں۔‘‘
مَیں نےکہا ’’سر! غالب کا مطلب ہے، شراب پینے سے تو اُس نے توبہ کی تھی، ساقی کو کیا مسئلہ تھا، اُسے چاہیے تھا زبردستی پلا دیتا، مَیں کوئی گرا پڑا شرابی تھوڑی ہوں،جو اس طرح پیاسا لوٹ جائوں۔‘‘ سر مُسکرائے اور کلاس کی طرف دیکھ کر کہا ۔ ’’کلیپنگ…‘‘ لیکن سچّی بات تو یہ ہے،وہ تالیاں میاں جی عظیم کے لیے تھیں کہ میرے شعری ذوق کو جلا بخشنے والے تو وہی تھے۔ پھر وہ وقت بھی آیا،جب مَیں نے میاں جی کو کراچی کے لیے رختِ سفر باندھنےسےمتعلق آگاہ کیا۔
اُن کےچہرے پر تیزی سے اداسی کا ایک رنگ آیا اور چلا گیا۔ مَیں نے کہا، ’’میاں جی! آپ کے بہت شاگرد ہیں، آپ کا یہ گلشن مہکتا رہے گا۔‘‘ ہمیشہ کی طرح انہوں نےموقعے کی مناسبت سےمصحفی کا ایک شعر سُنایا؎ بلبل نے آشیانہ چمن سے اُٹھا لیا… پھر اس چمن میں بوم بَسے یا ہُما بَسے۔ پھر خود ہی شعر کی تشریح بھی کی۔ ’’جب بلبل نے چمن میں نہیں رہنا، تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے، باغ میں الّو بسیرا کریں یا ہُما۔‘‘ جاتے جاتے نصیحت کی،’’پڑھتےرہنا، پڑھائی نہیں چھوڑنا۔‘‘
ٹرین چلتی رہی، اسٹیشنزکے ساتھ اور بھی بہت کچھ پیچھےچھوڑتی چلی گئی۔ مَیں کراچی کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں اَن جان مسافرکی طرح گم ہو گیا۔ روزگار کےآکٹوپس نےایسا جکڑا، اپنا ہی ہوش نہ رہا۔ معاشی ضرورتوں کے چابک جسم پر پڑتے رہے اور مَیں گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑتا رہا۔ نہر کے ٹھنڈے، خاموش پانیوں میں پائوں رکھ کر بیٹھنے والا،پُھوٹتی کونپلوں، کِھلتے پھولوں، ہَرےبَھرے لہلہاتے کھیتوں کادل دادہ، رِم جھم برستی بوندوں کی مدھر موسیقی کا شوقین، پرندوں کی چہچہاہٹ سےجاگنے، فطرت کےرنگوں سےپیار کرنے والا، شٹالے، دھریک، سرسوں کے پھولوں کا رسیا، اپنے بہتر مستقبل کی خاطرکنکریٹ کےجنگل کامستقل مکین ہوگیا، لیکن یادوں کا اسیر پرندہ اندر ہی اندر پھڑپھڑانے سے باز نہ آتا۔ ملازمت کےساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ کئی ادیبوں سےواسطہ پڑا، کئی لیکچرارز، پروفیسرز کی صحبت نصیب ہوئی، مگر میاں جی عظیم کا پلڑا سب پر بھاری ہی رہا۔
سال دو سال بعد مشینی زندگی سے بھاگ کرچنددن فطرت کی گودمیں گزارآتا۔ محنتی باپ کی جھینپی، ہچکچائی سی جَپھی کی لَو، بھولی بھالی ماں کےسلوٹ زدہ دوپٹے کی خوشبو پا کے، پرانے دوستوں سے میل ملاقات اور میاں جی عظیم کو نئےاشعار اور واقعات سُناکرشہری زندگی کی ساری تھکن جیسے اُڑنچھو ہوجاتی۔ مگر… پھر وہ ایک رات بھی آئی، جب میاں جی کے دل نے دھڑکنے سے معذرت کرلی۔
میرےچھوٹے سے گائوں کی کُھلی فضانے اُداسی کی کالی دبیز چادر اوڑھ لی۔ جامع مسجد الکوثر، کولارکے منبر، محراب، گنبد اور مینار سب ایک ساتھ رو پڑے۔ کسی کو پتابھی نہ چلا’’شہروں کی دلہن‘‘ کہلانے والے کراچی کے ایک چھوٹے سے گھر کی فضا بھی اُس رات بڑی سوگوار تھی، لیکن…’’فردوس جھوم رہی تھی‘‘اپنے نئے مہمان کو خوش آمدید کہنے کے لیے۔