• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فہد احمد
فہد احمد | 23 مارچ ، 2022

پہلا قومی پرچم سینے والے ماسٹر افضال کے اہلخانہ کس حال میں؟


پاکستان کا قومی پرچم ہماری امنگوں اور آرزوؤں کا ترجمان ہے، تحریک آزادی کے موقع پر یہی پرچم ہمارے عزم و یقین کی علامت بنا اور آج  بھی  ہمارے احساس کو تابندگی بخش رہا ہے، کہ ہم آزاد ہیں۔

ہمارا قومی پرچم عزم و ہمت اور آزادی کے سفر کی ایک طویل داستان ہے، سر زمین پاکستان اور اس کی فضاؤں میں لہرانے والے قومی پرچم کو جس شخصیت نے تیار کیا، وہ آج کراچی کے ایک پسماندہ علاقے میں ابدی نیند سو رہے ہیں اور ان کے اہلخانہ آج بھی کسمپرسی اور گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

سبز ہلالی پرچم کو سب سے پہلے بنانے کا اعزاز ماسٹر افضال حسین کو حاصل ہے جو آج کراچی کے ایک پسماندہ علاقے نئی کراچی میں دفن ہیں، ماسٹر افضال حسین نے 67 سال کی عمر میں وفات پائی تھی، وہ ڈیڑھ سال تک ہڈیوں کے کینسر میں مبتلا رہنے کے بعد انتقال کرگئے تھے، ان کی وفات کا دن 15 جولائی اور سال 1987ء تھا۔

ماسٹر افضال حسین کا تابوت ان کے اپنے ہاتھ سے تیار کردہ آخری قومی پرچم میں لپٹا ہوا تھا، ان کی تدفین پر مسلم لیگ کی سالار نیشنل گارڈ نے انہیں سلامی بھی دی۔

آزادی سے دو ماہ قبل یعنی جون 1947ء میں پاکستان کا پہلا قومی پرچم 2 ٹیلر بھائیوں ماسٹر افضال حسین اور ان کے چھوٹے بھائی ماسٹر الطاف حسین نے بنایا تھا۔

پاکستان کے قومی پرچم کا خاکہ بانی پاکستان کے حکم پر امیر الدین قدوائی نے ڈیزائن کیا تھا، پاکستانی پرچم کی ساخت اور رنگوں کی مناسبت یہ رکھی گئی ہے کہ اس کا سبز حصہ مسلم تشخص کو اُجاگر کرتا ہے اور سفید حصہ اقلیتوں کی نمائندگی ظاہر کرتا ہے، ہلال ترقی کی علامت، ستارہ روشنی اور علم کا نشان ہے۔

ماسٹر افضال کا خاندان کہاں اور کس حال میں ہے؟

مملکت خداداد پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اپنے ہاتھوں سے سینے والے ماسٹر افضال کا خاندان آج انتہائی کسمپرسی کا شکار ہے صرف یہی نہیں بلکہ ان کے خاندان کا شکوہ یہ ہے کہ تاریخ نے ماسٹر افضال کو بھلادیا ہے، آج شاید اس ملک میں نمایاں کارنامہ سر انجام دینے والے ماسٹر افضال کا نام بھی کہیں سننے میں نہیں آتا ہے۔

ماسٹر افضال کی بیٹی نصرت سلطانہ اپنے شوہر محمد مہتاب کے ہمراہ
ماسٹر افضال کی بیٹی نصرت سلطانہ اپنے شوہر محمد مہتاب کے ہمراہ 

ماسٹر افضال حسین کے اہلخانہ کیا شکوہ کرتے ہیں؟

اہلخانہ نے شکوہ کیا ہے کہ سب سے پہلے اپنے ہاتھ سے قومی پرچم سینے کا اعزاز پانے والے ماسٹر افضال کی قبر کا خیال بھی کوئی نہیں رکھ پاتا، اس کی مرمت بھی کچھ عرصے بعد ہم اپنے خرچے پر کرواتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ کوئی حکومتی یا سرکاری عہدیدار کبھی بھولے سے بھی ان کی قبر پر آنے کی توفیق نہیں کرپاتا۔

پاکستان آنے کے بعد ماسٹر افضال نے کس طرح زندگی گزاری؟

ماسٹر افضال حسین تحریک پاکستان کے پرانے کارکن تھے، انہوں نے بہت ہی کسمپرسی کی زندگی گزاری، حتیٰ کہ ان کا اپنا مکان بھی نہیں تھا، وہ نئی کراچی کے علاقے لال مارکیٹ میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔

 پاکستان بننے کے بعد جب ہندوستان سے ہجرت کر کے وہ کراچی میں آکر منتقل ہوئے تو انہوں نے گوشہ تنہائی اختیار کرلی تھی اور گمنامی کی زندگی گزار رہے تھے، جبکہ اپنے کارنامے سے متعلق وہ کسی سے ذکر بھی نہیں کرتے تھے، ایک دن حکیم محمد سعید تک کسی طرح ان کے بارے میں خبر پہنچی تو انہوں نے ملکی ہیرو کو قوم کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا اور اس حوالے سے اپنی کوششیں بھی شروع کردی تھیں، جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوچکے تھے۔

صدر ضیاء الحق کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس دینے کا اعلان

8 مئی 1979 کو سابق صدر جنرل ضیاالحق کراچی کے دورے پر آئے تو ماسٹر افضال حسین کی ان سے ملاقات ہوئی، جہاں اس وقت کے صدر مملکت ضیاء الحق نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس) اور مراعات دینے کا اعلان کیا تھا، اس کے علاوہ انہیں 5 ہزار روپے انعام بھی دیا گیا تھا، مگر افضال حسین پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ وصول کیے بغیر ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے تھے۔

ماسٹر افضال اور الطاف حسین کے اہلخانہ کے درمیان تنازع

ضیاء الحق کی جانب سے ماسٹر افضال کو اعزاز دینے کے اعلان کے کچھ عرصے بعد ان کے بھتیجے اور بھابھی نے قومی پرچم کو سب سے پہلے سینے کا دعویٰ ماسٹر الطاف کے حوالے سے کر کے ایک نیا تنازع کھڑا کیا، جو آج تک برقرار ہے، جبکہ ماسٹر افضال کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ قومی پرچم دونوں بھائیوں نے مل کر تیار کیا تھا، مگر الطاف حسین کے اہلخانہ اسے صرف اپنے والد کے نام سے منسوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس حوالے سے خاندان کے افراد میں کئی عرصے سے تنازع چلا آرہا ہے جو تاحال جاری ہے، مگر ہم بات کر رہے تھے، ماسٹر افضال اور ان کے اہلخانہ کی جن کی 3 بیٹیاں کراچی میں رہائش پذیر ہیں جبکہ ایک کا انتقال ہوچکا ہے اور ان کے نواسے بھی موجود ہیں، جو اپنے دوستوں کو ’نانا ماسٹر افضال‘ کے کارنامے سے متعلق بتاتے ہیں تو وہ اس بات پر یقین نہیں کرتے، شاید اس کی وجہ قومی دنوں پر ان کا ذکر نہ کرنا لگتا ہے۔

ماسٹر افضال کے داماد محمد مہتاب کا کہنا ہے کہ ہماری قوم کا یہ المیہ رہا ہے کہ ہم نے اپنے ہیروز کو بھلا کر ان کے کارناموں کو فراموش کردیا ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے سنجیدہ کوشش کرتے ہوئے قومی پرچم سینے کا اعزاز پانے والی شخصیت کا نام تاریخ میں زندہ رکھ کر آنے والی نسلوں کو اس حوالے سے روشناس کروائے۔

ماسٹر افضال کے اہلخانہ کیا مطالبہ کرتے ہیں؟

ماسٹر افضال کے اہلخا نہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں کسی طرح کی کوئی مدد نہیں چاہیے بلکہ بس یہی درخواست ہے کہ قوم کے لیے سب سے پہلے اس کا پرچم تیار کرنے والے ماسٹر افضال اور ان کے بھائی الطاف حسین کا نام تاریخ میں زندہ رکھنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔

نمائندہ جنگ ماسٹر افضال کی بیٹی اور داماد کے ہمراہ
نمائندہ جنگ ماسٹر افضال کی بیٹی اور داماد کے ہمراہ 

انہوں نے کہا کہ حکومت ماسٹر افضال کا نام تاریخ میں زندہ رکھنے کے لیے ان کے نام سے کوئی، ادارہ، شہر، یا سڑک بھی منسوب کرسکتی ہے، صرف یہی  نہیں بلکہ اس حوالے سے کوئی یادگار بھی بنائی جاسکتی ہے، جبکہ قومی ایام میں ٹی وی پر معلوماتی پروگرامز بھی کرنے کی ضرورت ہے۔

ماسٹر افضال زندگی میں کیا کہتے تھے؟

محمد مہتاب کا کہنا ہے کہ ماسٹر افضال اپنی زندگی میں کہتے تھے کہ میں نے پاکستان کا پرچم سب سے پہلے اپنے ہاتھوں سے تیار کرکے کوئی معرکہ سر انجام نہیں دیا ہے، بلکہ اللّٰہ نے اس قوم کے لیے مجھ سے یہ کام لیا ہے اور اس کے بدلے میں مجھے حکومت یا پھر سرکاری اداروں سے کسی مراعات لینے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔

ان کے داماد محمد مہتاب کا کہنا تھا کہ نئی کراچی میں ایک پارک کو ماسٹر افضال کے نام سے منسوب کیا گیا تھا، مگر کئی سال گزرنے کے باوجود بھی وہ پارک آج تک نہیں بن سکا، جبکہ ان کی قبر پر بھی اب کسی سرکاری یا حکومتی عہدیدار کو آنے کی توفیق نہیں ہوتی، اس کا خیال بھی ہم لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کرتے ہیں۔

ماسٹر افضال کے داماد کا کہنا تھا کہ اتنا بڑا معرکہ سر انجام دینے والے ماسٹر افضال کے اہلخانہ آج بھی گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں اور کسی کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ ملک کا قومی پرچم بنانے والے ماسٹر افضال ہمارے خاندان سے تھے۔

انہوں نے کہا کہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ دنیا بھر کی قومیں اپنے ہیرو ز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں، کئی ممالک نے اپنے قومی ہیروز کے مجسمے تیار کرکے عجائب گھر میں رکھوائے ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا کوئی طریقہ رائج نہیں کیا جاسکا، بلکہ الٹا ان ہیروز اور ان کے کارناموں کو فراموش کیا جاچکا ہے۔

دکان پر پرچم سیتے ہوئے امریکی فوٹو گرافر کی تصویر کھینچنے کا واقعہ

 ماسٹر افضال سکندر آباد میں پیدا ہوئے تھے بعد میں روزگار کے حصول کے لیے دلی تشریف لے گئے اور وہیں اپنی دکان پر انہوں نے اس ملک کا پرچم سب سے پہلے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا۔ ماسٹر افضال کا شمار اس زمانے میں بہترین درزیوں میں ہوتا تھا اور تحریک پاکستان کے کئی بڑے بڑے رہنما ان سے اپنی شیروانیاں بھی سلواتے تھے، ماسٹر افضال اور ان کے چھوٹے بھائی ماسٹر الطاف اپنی دکان پر بیٹھے قومی پرچم تیار کرنے میں مصروف تھے، کہ اسی دوران وہاں پر امریکی میگزین ’لائف‘ کی ایک فوٹو گرافر تشریف لے آئی اور اس دوران اس فوٹو گرافر نے اپنے کیمرے سے پرچم تیار کرتے وقت ماسٹر افضال اور الطاف حسین کی تصویر محفوظ کرلی جو بعد میں امریکی میگزین میں بھی شائع ہوئی، اس دوران ماسٹر الطاف حسین اس پرچم پر ٹانکا لگارہے تھے، انہیں نہیں معلوم تھا کہ یہ تصویر تاریخ میں بہت اہمیت حاصل کرلے گی۔

ماسٹر افضال کی صاحبزادی اپنے والد کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟

ماسٹر افضال کی صاحبزادی نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد نے ملک کا پرچم سب سے پہلے تیار کرنے کا کارنامہ سر انجام دیا، مگر قوم نے اس کارنامے کو بھلادیا ہے، ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ تاریخ میں ان کا نام زندہ رکھنے کے لیے سرکاری سطح پر سنجیدہ قسم کی کوششیں کی جائیں۔