• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو خبروں نے دو دن پہلے مجھے بڑا پریشان کردیا۔ ایک اخبار نے لکھا کہ جنرل کیانی صاحب کو ایک سال کی مزید توسیع دی جاسکتی ہے اور غور ہورہا ہے اور ساتھ ہی عثمان منظور نے خبر دی کہ ن لیگ کی حکومت قانون میں تبدیلی کررہی ہے کہ سارے ملک کے کینٹ بورڈ فوجی کنٹرول سے نکال کر سویلین منتخب لوگوں کے حوالے کردیئے جائیں اور ایک قومی اسمبلی کی کمیٹی بھی بنادی گئی ہے جس میں 12 ممبر شامل ہیں اور حکومتی لوگوں کے علاوہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، تحریک انصاف کے عارف علوی، غلام احمد بلور اور متحدہ کے وکیل اور سینیٹر فروغ نسیم شامل ہیں۔ جنرل کیانی کی مدت میں توسیع کی خبر پر ایک نجی ٹی وی چینل نے پروگرام بھی نشر کیا اور اس میں یہ بتایا گیا کہ جنرل کیانی کو توسیع دینے کیخلاف کتنے لوگ ہیں اور کون حمایتی ہیں۔ بتایا گیا کہ اکثر لوگ توسیع کیخلاف ہیں اور جو تفصیل بتائی گئی اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ جنرل کیانی ہمیشہ پنڈی کے قریب یا پنڈی ہی میں تعینات رہے ہیں اور انکے امریکی حکام سے گہرے روابط ہیں۔ یہاں تک کہا گیا کہ خود بے نظیر بھٹو نے ملک اس شرط پر آنے کی حامی بھری تھی کہ جنرل کیانی فوج کے سربراہ ہوں گے اور NRO تو امریکیوں ہی نے کروایا تھا جس میں کیانی صاحب کا مرکزی رول تھا۔ یہ ساری خبریں اور TV پروگرام میں دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک فون آیا اور دوسری طرف ایک بہت ہی جغادری سابق سرکاری افسر تھے جن کا فوج سے بھی گہرا تعلق رہا ہے۔ انہوں نے ایک ایسی کہانی سنائی کہ یقین نہیں آیا۔ کہنے لگے سال 2000 ء میں امریکہ بھارت کو Centcom کا ممبر بنانے پر تلا ہوا تھا یعنی جو جنرل پاکستان اور اس کے اردگرد کے علاقوں کا چیف تھا وہی بھارت سے بھی راہ راست منسلک ہوجاتا۔ پاکستان کی حیثیت کمزور ہوجاتی اور اس وجہ سے فوج کو سخت تشویش تھی اور اس دوران جنرل کیانی نے جو اس وقت میجر جنرل تھے ایک امریکی پاکستانی کے ذریعے امریکی فوجیوں کو یہ پیغام بھجوایا کہ وہ ایسا نہ کریں۔ یہ امریکی پاکستانی اور ایک ڈاکٹر ہیں جو کہ ان اہم امریکی جنرلوں اور ان کی فیملی کے معالج تھے۔ پیغام ایک نجی محفل میں دیا گیا اور امریکی ناراض بھی ہوئے کہ ایک ڈاکٹر کا دفاعی معاملات میں مداخلت کا کیا جواز ہے لیکن بات اتنی ٹھوس تھی اور پیغام اتنا جاندار تھا کہ چند دن ہی میں امریکہ پیچھے ہٹ گیا۔ بعد میں ان ڈاکٹر صاحب کو پاکستان نے اعلیٰ اعزاز سے بھی نوازا۔ پھر اس کہانی کے بعد سابق افسر نے یہ کہانی بھی سنائی کہ جب 3 سال پہلے زرداری اور گیلانی حکومت نیا آرمی چیف لگانے پر غور کررہی تھی تو کیانی صاحب نے انکار کردیا کہ وہ توسیع نہیں لیں گے۔ کچھ کور کمانڈر پریشان تھے کہ اگر کوئی دوسرا چیف آگیا تو فوج کو نقصان ہوسکتا ہے لہٰذا پھر ایک اور پیغام بھیجا گیا کہ کیانی کو ایک سال کی توسیع دی جائے۔ جس دن فیصلہ ہونا تھا کیانی صاحب نے کور کمانڈرز کا اجلاس بلالیا۔ صبح 8 بجے اجلاس شروع ہوا اور فوراً ہی رات دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ زرداری اور گیلانی صاحب گھبرا گئے کہ نہ جانے کیا ارادے ہیں۔ پیغام بھیجا گیا کہ ایک سال کی توسیع دی جاسکتی ہے مگر اب کیانی صاحب نے انکار کردیا اور کہا کہ اگر دنیا ہی ہے تو پوری 3 سال کی توسیع ہونی چاہئے۔ حکومت کی گھبراہٹ اتنی بڑھی کہ رات گئے وزیر اعظم گیلانی نے TV پر قوم سے خطاب فرمایا اور چند منٹ کی تقریر میں کیانی صاحب کو 3 سال کی مزید توسیع دیدی۔ یہ بھی تاریخی واقع ہی تھا۔ اب نواز شریف صاحب بھی اس مشکل میں پھنسے ہیں۔ مگر جو بات سمجھ میں نہیں آرہی وہ توسیع کا مسئلہ نہیں وہ یہ فیصلہ ہے کہ فوج سے تمام ملک کے کینٹ بورڈز کا کنٹرول یہ ایک جنبش واپس لے لیا جائے اور کسی ہر علاقے کے چھوٹے موٹے سیاستدان کے حوالے کردیا جائے۔ یہ حکومت کو کس وزیر یا مشیر نے مشورہ دیا ہے اس کی دماغی حالت پر غور کرنے اور بورڈ بٹھانے کی ضرورت ہے۔ ذرا سوچیں ہر فوجی کا گھر بنگلہ، زمین، بادشاہت پہلے کینٹ بورڈ سے شروع ہوتی ہے اور پھر ڈیفنس سوسائٹی پہنچتی ہے اور زرعی فارم کمپنیوں اور مریضوں تک پھیلتی ہے اگر بنیادی طاقت کا قلعہ یعنی کینٹ بورڈ ہی فوجیوں سے چھین لیا گیا تو جو غصہ اور بداعتمادی چھوٹے سے لیکر بڑے فوجی افسر اور انکی بیگمات تک پھیلے گی اسکی شدت اس زلزلے سے زیادہ ہوگی جو زرداری اور رحمن ملک نے آتے کیساتھ ہی ISI کو اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش میں برپا کیا تھا۔ یہ تو روز کی زندگی اور جو مراعات اور عیاشیاں فوجیوں کو اپنے قلعوں کے اندر یعنی کینٹ بورڈز میں حاصل ہیں اس پر کاری ضرب ہوگی۔ اگر جنرل کیانی ایک سال کی مزید توسیع لینے کیلئے یہ ضرب کلیم فوج پر لگا گئے تو ان کے اثرات کیا ہونگے یہ کہنا مشکل ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ نواز شریف کے وزیر یا مشیر اور رحمن ملک میں کچھ زیادہ فرق نظر نہیں آئیگا۔ یہ آگ سے کھیلنے کے برابر ہوگا اور وہ بھی اتنی جلدی میں کہ 3 نومبر کو الیکشن ہونا ہیں سارے کینٹ بورڈز میں اور اس سے پہلے اسٹیشن کمانڈر کی ویٹو پاور اور سارا کنٹرول سویلین کو دیدیا جائیگا یہ ہضم ہونیوالی بات نہیں حیرت اس بات پر ہے کہ جہاں بلدیاتی انتخاب ہونے چاہئیں یعنی ہر تحصیل اور ضلع کی سطح پر وہاں سیاست دان ستو پی کر ٹھنڈ پروگرام پر عمل کررہے ہیں اور دیگر جگہوں پر سپر مین بننے کی کوشش میں ہیں۔ کوئی بتائے کہ ہم بتلائیں کیا۔کراچی ابھی قابو میں نہیں، طالبان سے بات چیت کا کچھ پتہ نہیں۔ لیکن یہ مسئلے میاں نواز شریف کے سوچنے کے ہیں مگر مخالفین کا الزام ہے کہ وہ آج کل اربوں کھربوں ڈالر کے منصوبوں اور نئے شہر بسانے اور ملک کی اگلے 50 سال کی پلاننگ میں مشغول ہیں۔ زمین نیچے کتنی قابو میں ہے یہ سوچنے کا وقت ابھی نہیں مل رہا ۔مخالفین کا ایک مبینہ الزام یہ بھی ہے کہ ہر وہ کام جس میں تجارتی فائدہ ہو وہ ترجیہات کی لسٹ میں اوپر ہے اور مثلاً پی آئی اے کو کسی نجی پارٹی کو دینا، اسٹیل مل کو بیچنا، سونے اور تانبے کی کانوں کو بلٹ ٹرین اور موٹروے کے عوض ارزاں فروخت کرنا وغیرہ۔ یہ سب اچھے پلان ہیں مگر پہلے زمین پر پاؤں ٹک جائیں پھر۔ کچھ اڑتی اڑتی خبریں اور بھی گردش میں ہیں۔ مثلاً موجودہ حکومت ایک بڑے اہم ستون جلد ہی جعلی ڈگری اور اخلاقی بے ایمانی بے ایمانی کے الزامات کی زد میں آنے والے ہیں اور یہ حملہ مبینہ طور پر امریکہ کے شہر بوسٹن میں جہاں مشہور زمانہ ہارورڈ یونیورسٹی بھی ہے ہونے والا ہے۔ کچھ لوگ بڑی سر توڑ کوشش کرہے ہیں اور ہر ہفتے واشنگٹن کے چکر لگارہے ہیں وزیراعظم جب امریکہ پہنچیں گے تو یہ پٹاخہ یا بم پھٹ چکا ہوگا۔ بوسٹن کے لوگ واقعی خطرناک ہوتے ہیں۔ کیونکہ جان کیری بھی وہیں سے تعلق رکھتے ہیں اور KK یعنی کیری کیانی کی دوستی کی کہانیاں ویسے ہی مشہور ہیں قصے تو اور بھی مشہور ہیں مگر ہمارے جانے والے صدر نے اپنے سہیل وڑائچ کے پروگرام میں کیا بات کہہ دی کہ ان کی پانچ سال کی ساری کارکردگی سمجھ میں آگئی۔ زرداری جانے آخر سچ بولتے ہوئے فرمایا کہ ”مولے نوں مولا نہ ماریتے مولانا نئیں مردا“ یعنی وہ اپنے آپ کو مولا جٹ سمجھتے ہیں۔ پانچ سال کی ان کی حکومت کی کارکردگی دیکھیں تو اب پتہ چل گیا کیوں اتنی ناکامی ہوئی۔ صدا مولا جٹ کی بادشاہت لمبی ہوگئی بچہ سقہ بیچارہ صرف ایک دن میں چمڑے کے سکے رائج کر گیا۔
تازہ ترین