• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی مجموعی آبادی کیلئے بنیادی اور ثانوی صحت کی سہولتوں تک رسائی کو یقینی بنانا اور طبی نگہداشت کا موثر نظام فراہم کرنا حکومت اور ریاست کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ خطے کے دیگر ممالک سے اگرموازنہ کیا جائے تو پاکستان شعبہء صحت پر کم ترین رقم خرچ کرنے والا ملک ہے۔ صوبہ سندھ کے علاوہ دوسرے صوبوں میں علاج کی سہولت مہنگی اور بہت سے لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے ۔ پی ٹی آئی حکومت نے صحت کارڈ 2016 میں خیبرپختونخوا سے شروع کیا، مگر 2016 سے 2022 تک ہزاروں کی تعداد میں ایسے مریض ہیں جو سندھ کے سرکاری اسپتالوں کا رُخ کرتے رہے اور لاکھوں روپے کا مفت علاج سندھ کے سرکاری اسپتالوںسے کرواتے رہے، تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر خیبرپختونخوا کی حکومت 2016 سے صحت کارڈ کا پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے تو وہاں کےرہائشی بیمار ہوکر سندھ کا رُخ کیوں کرتے رہے، جہاں لاکھوں روپے کا لیور ٹرانسپلانٹ کروانے کے لئے نہ آپ کو کسی صحت کارڈ کی ضرورت ہے اور نہ ہی پیسوں کا تقاضہ ہوتا ہے۔ ایک اور بات جو کچھ عرصہ پہلے عمران خان نے کی، جس کے بعد صحت کارڈ اور مستقبل کی مافیا کے حوالے سے شک و شبہات مزید بڑھ گئے ، وہ یہ کہ اگر ڈاکٹر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتالوں میں عوام کی خدمت کے لئے نہیں جا رہے تو حکومت پیسہ کیوں خرچ کرے اور حکومت ان تمام ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتالوں کو بند کردےگی، ان کی جگہ ہم پرائیویٹ اسپتالوں کو سہولتیں دے کر انھیں سرمایہ کاری کا موقع دیں گے۔ تو جناب کیا ان کا یہ بیان حکومت کے فرض سے دستبردار ہونے کے مترادف نہیں ؟ سندھ میں گھمبٹ ایک دور افتادہ علاقہ ہے اور گاؤں کی طرح ہے ، سندھ حکومت نے وہاں عالی شان اسپتال بنا کر مثال قائم کر دی ہے کہ اگر حکمرانی کا ڈھنگ ہو تو سرکاری ملازمین سے نجی ملازمین سے زیادہ بہتر انداز میں کام لیا جاسکتا ہے۔ اور ایک بات جو سابق وزیر اعظم کو سمجھ نہیں آتی وہ یہ کہ اگر سرکاری ڈاکٹر حکومتی صحت مراکز میں ڈیوٹی سے غیر حاضر ہیں تو یہ حکومت کی ناکامی ہے اور اس کی اصلاح کرنی چاہئے، مسئلہ حکمرانی میں ہے نہ کہ سرکاری ڈاکٹرز میں جن کی غیر حاضری کو بہانہ بنا کر پی ٹی آئی حکومت ملک بھر سے سرکاری اسپتال بند کرنا چاہتی تھی۔ صحت کارڈ کے ضرور فوائد ہوں گے مگر غریب کے لئے اس کارڈ کے فوائد سے زیادہ نقصانات نظر آتے ہیں، کیونکہ صحت کا سارا بجٹ اس کارڈ پر جھونک دیا جائے گا اور اگر خدانخواستہ کسی ضلع میں کوئی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہو تو نجی شعبے کے ڈاکٹر کی مرضی ہوگی کہ وہ آئے یا نہ آئے، سرکاری اسپتالوں میں سرکاری عملے اور ڈاکٹرز کی ایمرجنسی کی صورت میں چھٹیاں منسوخ کردی جاتی ہیں، لیکن جب سرے سے سرکاری اسپتال ہی بند ہوجائیں گے تو پھر حادثات اور قدرتی آفات میں پورا ملک نجی اسپتالوں کے رحم و کرم پر ہوگا، ایسے میں جب یہ اسپتال دیکھیں گے کہ ملک میں سرکاری اسپتال نہیں ہیں تو شوگر مافیا کی طرح ان کا بھی کارٹل بن جائے گا اور جس کا دل جتنا چاہے گا، مریض سے اتنی ہی فیس وصول کرے گا۔ صحت کارڈ کا ایک اور منفی پہلو یہ ہے کہ کارڈ ہوتے ہوئے بھی مریض کو داخل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے سے پہلے کنسلٹنسی فیس کے علاوہ تمام میڈیکل ٹیسٹ چارجز ادا کرنے ہوتے ہیں، اس صحت کارڈ کا سب سے بڑا منفی پہلو یہ بھی ہے کہ دس لاکھ سے زیادہ اگر خرچ آرہا ہے تو مریض کو جیب سے ادا کرنا ہوگا، اس کے مقابلے میں سندھ جہاںکارڈ کی کوئی سہولت نہیں، کے سرکاری اسپتالوں میں مریض پر50 لاکھ بھی اگر خرچ ہورہا ہے تو اس کی جیب سے ایک دھیلہ بھی خرچ نہیں ہوتا کیوں کہ سندھ میں دل کا علاج ہو، جگر کی پیوندکاری ہو یا پھر کینسر کا علاج، سب مفت ہے اور کسی کارڈ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ صرف پچھلے ایک سال میں، سندھ میں پنجاب کے تقریباً 200 مریضوں کی 5.4 ملین روپے کی جگر کی بلامعاوضہ پیوند کاری کی گئی ہے، ان مریضوں سے نہ کسی نے صحت کارڈ مانگا نہ کوئی ڈومیسائل، جب سندھ میں یہ ہوسکتا ہے تو عمران خان حکومت کو کس نے روکا تھا کہ وہ ایسے سرکاری اسپتال قائم کرتے جن کا مقابلہ سندھ کے سرکاری اسپتالوں سے کیا جا سکے؟ اب اس صحت کارڈ کا مریض کیا کرے جب مریض کو روزانہ کی بنیاد پر استعمال کرنے والی ادویات بھی خود خریدنی پڑیں گی۔ شنید یہ ہے کہ اس کارڈ میں او پی ڈی کی بھی سہولت میسر نہیں یعنی سابق وزیر اعظم سرکاری اسپتال بند کر کے عوام کو او پی ڈی کےلئے ان مہنگے اسپتالوں کی طرف جاتا دیکھنا چاہتے ہیں،آج اس اسکیم کی افادیت پر ہر شہری سوال کر رہا ہے کہ اس کارڈ سے انھیں کچھ ملے نہ ملے انشورنس کمپنیوں کی چاندی ہوجائے گی کیونکہ اس صحت کارڈ سے پریمیم ان لوگوں کےلئے بھی ادا کیا جائے گا جو اس سہولت کا استعمال نہیں کررہے ، یعنی پنجاب، خیبرپختونخواکا جو شہری سارا سال علاج نہیں کروائے گا قومی خزانے سے اس کے نام پر لاکھوں روپے انشورنس کمپنی کو منتقل ہوجائیں گے، یعنی قومی وسائل کو حکومت سے پرائیویٹ اسپتالوں کی طرف موڑ کر عوام کو نجی اسپتالوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا، پی ٹی آئی کی حکومت کا صحت کارڈ عوام کے صحت کے بجٹ کی چوری کے مترادف ہے جو عوام کا پیسہ نجی انشورنس کمپنیوں کو فراہم کرتا ہے، عمران خان کچھ سیکھیں نہ سیکھیں سندھ حکومت سے سرکاری اسپتال چلانا ضرور سیکھیں، جہاں انڈس اسپتال جیسے اداروں کے پیچھے بھی سندھ حکومت کھڑی نظر آتی ہے اور ایک خطیر رقم فلاحی اور رفاعی اداروں کو سندھ کے بجٹ سے دیتی ہے تاکہ عوام کو ان کی دہلیز پر مفت علاج میسر آسکے۔

تازہ ترین