• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہوسکتا ہے جب یہ کالم چھپے تو یہ خبر پہلے ہی بریک ہوچکی ہو کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے ایک آئینی مشیر نے اس لئے استعفیٰ دے دیا ہے کہ ان کی دہری شہریت کا پتہ مجھے چل گیا تھا اور جب میں نے ان سے یہ بات تصدیق کرنے کو پوچھی تو انہوں نے مستعفی ہونا بہتر جانا۔ یہ مشیر کینیڈا سے تشریف لائے تھے اور ایک ملٹی ملین ڈالر کی اسامی ہیں۔ ان کا نام عظمی حق یا اعظم الحق ہے اور کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں رہتے ہیں۔ ایک ادارہ بنا رکھا ہے جو مختلف موضوعات پر بحث اور مباحثہ کیلئے لوگوں کو اکٹھا کرتا ہے اور کئی بڑے بڑے لوگ ان کے مہمان بنتے ہیں۔ دنیا بھر کے ہر موضوع پر بات چیت ہوتی ہے اور بھارت کے سابق صدر کلام بھی ان کی ایک نشست میں شریک ہو چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو ان کی باتیں اور خیالات اتنے پسند آئے کہ انہوں نے بلا کر مشیر لگا دیا۔ وہ سرکاری مشینری کو ٹھیک کرنے کیلئے قواعد و ضوابط بنا رہے تھے کہ ان کی شہریت کے بارے میں سوال اٹھا تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا خود مجھے لاہور سے فون کیا کہ میں یہ خبر نہ چھاپوں کیونکہ وہ صرف ایک اعزازی طور پر مشیر تھے کوئی تنخواہ نہیں لیتے تھے مگر اب وہ واپس چلے جائیں گے مگر وزیراعلیٰ اور وزیراعظم جو کہ ملک سے باہر ہیں ان کی واپسی کے بعد۔ میں نے ان سے کہا کہ جب کوئی خبر میڈیا کے کسی ایک حصے تک پہنچ جاتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اگر وہ خبر جلد بریک نہ کی گئی تو پھر کسی اور اخبار نویس یا ٹی وی چینل کو دے دی جائے گی اس لئے اب خبر کا رکنا مشکل ہے ہاں دو چار دن کی تاخیر ضرور ہوسکتی ہے۔ دوسری بات میں نے یہ کہی کہ جب وزیراعظم کے ایک دہری شہریت رکھنے والے مشیر جناب جمشید عظیم عدالت عالیہ کی مداخلت کی وجہ سے مستعفی ہوگئے تو پھر آپ کا مشیر کے آئینی عہدہ پر رہنا مشکل ہے۔
اس مکالمے پر انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ استعفیٰ دینے کا فیصلہ پہلے ہی کرچکے ہیں۔ میں ان کی اس بات پر گہری سوچ میں پڑ گیا کہ یہ بات تو صحیح ہے کہ کسی ایسے شخص کو جس نے کسی دوسرے ملک کا وفادار ہونے کا حلف بھی اٹھایا ہو کوئی ایسی اہم جگہ پر جہاں ملکی راز کھلیں اور دیگر کئی ایسے فیصلے کرنے ہوں کہ ایک تضاد کی صورت پیدا ہو، وہاں اس کی تعیناتی نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بالکل جائز بات ہے اور ہر وزیر یا اسمبلی کے ممبر یا مشیر کا عہدہ اس زمرے میں آتا ہے۔ اس طرح جہاں حکومتی ادارے چلانے ہوں اور ایسی صورت وہاں بھی نکلتی ہو کہ ایک ملک کے مفاد میں یا دوسرے ملک کے مفاد میں فیصلے کرنے پڑیں وہاں بھی یہ لائن بالکل واضح ہونی چاہئے جو ہماری عدالتوں نے تقریباً واضح کر ہی دی ہے۔ اس وجہ سے وزیر داخلہ رحمن ملک کو برطانیہ کی شہریت چھوڑنی پڑی، کئی ممبر اسمبلی بجائے شہریت کے اسمبلی چھوڑ گئے اور حال ہی میں وزیراعظم کے مشیر کوPIA اور سول ایوی ایشن کی اہم پوزیشن چھوڑنی پڑی۔ تحریک انصاف کی روح رواں فوزیہ قصوری کو پارٹی نے الیکشن نہیں لڑنے دیا حالانکہ انہوں نے باہر کی شہریت بھی چھوڑ دی وہ بیچاری تو دونوں طرف سے نقصان میں رہیں۔ تو کیا دہری شہریت ایک واقعی ایسا جرم ہے کہ اسے گالی بنا دیا جائے۔ لاکھوں پاکستانی ملک چھوڑ کرمعاشی ہجرت صرف اس لئے بنے کہ ملک میں ان کو نوکریاں، روزگار، ترقیاں اور وہ مواقع نہیں ملے جو کہ ملنے چاہئے تھے۔ اگر ہر ایک کے ساتھ انصاف ہوتا تو سمجھ میں آنے والی بات تھی کہ لوگ جوق در جوق دوسرے ملکوں میں تلاش روزگار میں نہ بھٹکتے پھرتے۔ جو قانونی طور پر اور بے شمار غیر قانونی طریقے سے باہر جانے میں کامیاب ہوگئے اور وہاں اپنی محنت اور صلاحیت کی وجہ سے کامیاب ہوگئے اور اعلیٰ عہدوں یا بہترین نوکریوں یا بزنس میں نام پیدا کیا وہ کیا پاکستان کے غدار ہوگئے؟ لگتا تو ایسا ہی ہے کیونکہ اب دہری شہریت کا یہی مطلب لیا جا رہا ہے مگر سمجھنے والے جانتے ہیں ان تارکین وطن نے ملک کی کیا خدمت کی ہے پاکستان کی معیشت آج ان اربوں ڈالر جو ہر سال بیرون ملک سے مفت میں پاکستان آتے ہیں کے بغیر کہاں کھڑی ہوتی۔ بے شمار ڈاکٹر، انجینئر اور ماہرین نے جو باہر جا کر کامیاب ہوئے واپس پاکستان میں انہوں نے ادارے بنائے اور وہ کام کیا جو حکومت کے کرنے کا تھا، تو یہ دہری شہریت کو پھر گالی کا درجہ کس نے دیا۔ کیوں اس بے انتہا اہم قومی اثاثے کو سیاست کی نذر کردیا گیا۔ یہ کیوں واضح نہیں کیا گیا کہ اہم قومی عہدوں پر کوئی دہری شہریت والا نہیں بیٹھے گا مگر اس کے علاوہ ہر اس پاکستانی جس نے باہر رہ کر پاکستان کو فراموش نہیں کیا اور ہر طرح سے ملک کی خدمت کرنے کی کوشش کی وہ کیوں بے عزت ہو رہا ہے اور بے عزت کرنے والے کون ہیں؟ وہ سیاست دان اور طاقت کے نشے میں پاگل ہونے والے بے ضمیر جنہوں نے ملک کی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹی اور باہر کے ملکوں میں جمع کرا دی تاکہ جب ان کی لوٹ مار بند کر دی جائے تو وہ ٹکٹ کٹا کر یا کسی پرائیویٹ جیٹ میں ملک سے فرار ہو جائیں اور ساری عمر وہ اور ان کی اولادیں عیش کریں۔ دہری شہریت رکھنے والے کئی پاکستانی خود میری طرح اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ رہتے تو ملک سے باہر ہیں لیکن سارا کام اور ساری توجہ اور صلاحیتیں ملک کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ کوئی غیر قانونی کام تو نہیں ہے بلکہ کچھ تو اپنی اس پوزیشن کی ایک طرح سے سزا بھی بھگت رہے ہیں یعنی میں اگر اپنی ہی مثال دوں تو آج تک میں نے پاکستان سے اپنا رشتہ اتنا مضبوط رکھا ہے کہ 20 سالوں میں سوائے پاکستان کے کہیں کسی کی نوکری نہیں کی اور ایک ڈالر امریکہ میں نہیں کمایا ہمیشہ پاکستانی اخبارات اور میڈیا کے ساتھ ہی وابستہ رہا۔ مگر سزا یوں بھگتی کہ ایک باشعور اور قانون کا احترام کرنے والے شہری کی طرح دونوں ملکوں میں پورا پورابلکہ کچھ زیادہ ہی ٹیکس ادا کیا۔ ایک دو سال پہلے میں واشنگٹن میں تھا تو ایک بڑا حکومتی وفد وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی سربراہی میں آیا۔ شیری رحمن کے گھر رات ان سب لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ پوری وزارت خزانہ موجود تھی۔ FBR کے اس وقت کے سربراہ ملے تو علیک سلیک کے بعد ٹیکسوں کی وصولی کی بات ہوئی۔ میں نے کہا میں تو دہرا ٹیکس دیتا ہوں۔ لاکھوں روپے پاکستان کو ہر سال اور جو بھی آمدن پاکستان میں ہوتی ہے اس پر امریکہ میں بھی۔ کہنے لگے بادشاہ آدمی ہیں۔ مجھے ایک درخواست دیں جتنا ٹیکس پاکستان میں آپ نے جمع کرایا ہے وہ آپ کو فوراً واپس مل جائے گا کیونکہ دہری شہریت تو ہوسکتی ہے دہرے ٹیکس نہیں کٹتے۔ میں نے سوچا یہ تو معاملہ بہت بڑا اسکینڈل بن جائے گا اگر میں ان کی حکومت سے لاکھوں جمع کرائے ہوئے ٹیکس کی رقم واپس لے لوں فوراً ہی حکومت سے مک مکا کا الزام لگے گا اور وہ بھی زرداری اور گیلانی یا راجہ رینٹل کی حکومت میں۔ ان FBR کے چیئرمین صاحب سے فوراً میں نے معذرت چاہی اور حفیظ شیخ سے چونچ لڑانے پہنچ گیا۔ آج تک جو کچھ میں نے کہا اور لکھا وہ پاکستان کیلئے تھا مگر امریکہ میں اس پر کسی کو اعتراض نہیں اور جتنی پاکستان کی خدمت ہمارے میڈیا نے چند سالوں میں کی ہے وہ کسی سیاستدان نے شاید ہی کی ہو، تو جناب عظمی حق تو ایک میڈیا کے سوال پر استعفیٰ دے گئے۔ ان کو چاہئے تھا کسی اور طرح خدمت کرتے رہتے کیا مشیر ہونا ضروری ہے۔
تازہ ترین