• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران کے مقتدر حلقوں سے بیک ڈور رابطے، لچک کی وجہ، تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) معروف اینکر پرسن و تجزیہ کار شہزاد اقبال گفتگونے کہا ہے کہ عمران خان کے مقتدر حلقوں سے بیک ڈور رابطے ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے ڈیمانڈ میں لچک دکھائی ہے، جبکہ حامد میر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت سے محاذ آرائی سے نہیں چاہتی اسی لیے ڈی چوک کی کال نہیں دی،حکومت کو ایزی لینے کی ضرورت ہے اگر ایزی نہیں لے گی تو پریشانی میں آسکتی ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کے اعلان پر جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شہزاد اقبال کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا اور تمام لوگوں کو کہا ہے کہ پہنچیں ڈی چوک یا ریڈ ژون میں آنے کا اعلان نہیں کیا ہے۔

 اہم بات جو انہوں کی ہے اسمبلی کب تحلیل ہوگی اور دوسرا لیکشن کی تاریخ کیا ہوگی۔

 لگتا یہی ہے کہ مقتدر حلقوں سے ان کے بیک ڈور رابطے ہیں کیوں کہ ڈیمانڈ میں تھوڑی بہت لچک دکھائی گئی ہے اب وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ فوری الیکشن کروائیں بلکہ وہ الیکشن کی تاریخ مانگ رہے ہیں اور ہمارے ذرائع کے مطابق تحریک انصاف اکتوبر کے آس پاس کی تاریخ پر راضی ہوجائے گی۔

بالکل عمران خان کا پہلے یہی موقف رہا ہے کہ ادارے حق و باطل کی جنگ میں نیوٹرل نہیں رہ سکتے لیکن آج انہوں نے یہ بات کہی ہے ادارہ نیوٹرل رہے میرے خیال سے اس وقت انہوں نے اس تناظر میں بات کہی ہے کہ جب ان کے لوگ مختلف شہروں سے اسلام آباد پہنچیں تو اُن کو روکا نہ جائے اور اگر وہ نیوٹرل ہیں تو نیوٹرل ہی رہیں کسی کی سائیڈ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

حکومت کی د و اسٹیٹجیز ہوسکتی ہیں یا تو وہ لوگوں کو آنے دے یا پھر دوسری یہ کہ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ لوگوں کا آنا انتشار کا باعث ہوسکتا ہے تو حکومت بذور طاقت انہیں روکنے کی کوشش کرے گی اور اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ لاء اینڈ فورسز ایجنسیز کو ہی استعمال کریں گے میرے خیال سے اس صورت میں عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ نیوٹرل رہیں۔

 2014 کے دھرنے میں تحریک انصاف کے لوگ دن کے وقت گنے چنے ہوتے تھے اور شام کے وقت اسلام آباد اور قریبی علاقوں سے لوگ آکر جوائن کرتے تھے اور جو مستقل وہاں بیٹھنے والے غالباً عوامی تحریک کے لوگ تھے گرم موسم میں لوگون خو مستقل وہاں بیٹھا کر رکھنا ایک چیلنج ہوگا۔

اگر تحریک انصاف کے لوگ دن میں پینڈال کو چھوڑ کر چلے جائیں گے اور رات کو واپس آجائیں گے تو شاید وہ دھرنا اتنا موثر ثابت نہ ہو۔

نون لیگ کا کہنا ہے کہ اگر ہم مشکل فیصلے لیں اور اس بجٹ کو پیش کریں تو اگلہ بجٹ بھی پیش کرنے دیا جائے تاکہ عوام کو ریلیف پہنچا سکیں اور سخت بجٹ دینے کے بعد الیکشن میں جانا نون لیگ کو سوٹ نہیں کرتا دوسری موقف نون لیگ فوی الیکشن کا ہے ۔ اور میرے ذرائع کے مطابق اگر عمران خان کو اکتوبر نومبر میں الیکشن کی تاریخ مل جاتی ہے تو وہ اس پر اتفاق کرلیں گے اور اسمبلی میں بھی آجائیں گے۔

اسد عمر اور شاہ محمود بیان دے چکے ہیں کہ اگر الیکشن کی تاریخ آجاتی ہے تو ریفامز سمیت دوسرے ایشوز پر بات کرنے لیے تیار ہیں۔

 معروف انیکر حامد میر جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں جہاں یہ بات حکومت کیلئے چیلنج ہوگی وہیں تحریک انصاف کیلئے بہت ہوگی کیونکہ گرمی کا موسم ہے سری نگر ہائی وے پر بلا رہے ہیں اس کا مطلب ہے.

 انہوں نے ڈی چوک کی کال نہیں دی ہے اس کا مطلب ہوسکتا ہے کہ حکومت کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہ رہے ہیں یہ اُن کی بڑی نپاتلا قدم ہے کہ انہوں نے وقت بھی دے دیا ہے اور جو جگہ دی ہے وہ بہت اہم ہے سری نگر ہائی وے کشمیر روڈ زیادہ کھلی اور اُس جگہ کو بھرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ وہ بہت پر اعتماد ہیں کہ لوگ زیادہ آئیں گے۔

 ایسا لگتا ہے کہ وہ پہلے کشمیر ہائی وے پر لوگوں کو اکٹھا کریں گے جو 2014 میں بھی کیا تھا اس کے بعد وہ ڈی چوک کی طرف آئے تھے اس دفعہ بھی شاید یہی اسٹیٹجی ہو ضروری ہے حکومت انہیں روکنے کی کوشش نہ کرے اور پرامن طریقے سے آنے دے اور جو رکاوٹیں عمران خان کے دور میں کھڑی کی گئیں تھیں وہ ابھی تک وہیں موجود ہیں جو کنٹینر جن جگہوں پر کھڑے کر کے گئے تھے وہ وہیں کھڑے ہیں مگر مزید کنٹینر کھڑے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت کو ایزی لینے کی ضرورت ہے اگر ایزی نہیں لے گی تو پریشانی میں آسکتی ہے۔

کل تحریک انصاف کی لیڈر شپ سے بات ہو رہی تھی جو شیریں مزاری کے معاملے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر جمع تھے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اگر انہوں نے بڑی تعداد میں لوگوں کو رات میں اکٹھا کرلیا ہے جو یقینا ہزاروں میں نہیں تھے لیکن سینکڑوں میں ضرور تھے لانگ مارچ ہوجائے تو لوگ اکٹھا کرلیں گے .

اس پر ان کا یہی کہنا تھا کہ ہم بالکل کرسکتے ہیں اور ہمارا ٹارگٹ یہ ہے کہ کم از کم ایک مہینہ کے لیے اسلام آباد میں بیٹھنے آئیں گے اس کے لیے یقینا وہ انتظامات بھی کریں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس کو کس طرح ہینڈل کریں گے؟ کچھ اتحادی جے یو آئی ف اس لانگ مارچ کو سختی سے نمٹنے کا مشورہ دے رہے ہیں جب کہ پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ روٹین کی سیاسی ایکٹوٹی کے طور پر ڈیل کیا جائے۔

اہم خبریں سے مزید