• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدقسمتی سے پاکستان کو لوٹنے والے جمہوریت کے نام پر اہم بن گئے۔ اپنی دھرتی کو بے دریغ لوٹنے والوں نے اپنےگرد پستہ ضمیر لوگوں کا ہجوم اکٹھا کیا پھر انہوں نے ملکی اداروں کو بدنام کرنا شروع کیا۔ اگر آپ ان سے وطن سے محبت کا سوال کریں تو انہیں فوراً جمہوریت کا بخار چڑھ جاتاہے۔ ان نادانوں کو یہ پتہ نہیں کہ جمہوریت کا مطلب وطن دشمنی نہیں بلکہ جمہور کی خدمت ہے۔ ان سے سادہ سا سوال ہے کہ کیا جمہوریت لوگوں سے دشمنی کانام ہے۔ کیا جمہوریت وطن سے دشمنی کانام ہے اور کیا جمہوریت اپنےوطن کے اہم ترین اداروں سے دشمنی کا نام ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی۔ کچھ بابو قسم کے دانشور اور کچھ لبرل بیبیاں پاکستان کی مخالفت فیشن کےطور پر کرتی ہیں۔ ایسے لوگوں کو دھرتی پر جینے کا حق نہیں ہونا چاہئے۔
جیسا کہ میں نے کالم کے آغاز میں لکھا کہ پاکستان کو جمہوریت کے نام پر وطن کو لوٹنےوالے میسر آئے۔ اسی طرح بدقسمتی سے وہ مذہبی قیادت ایوانوں کا حصہ بن گئی جن کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے تحریک پاکستاان کی مخالفت کی تھی۔ ان میں سے کچھ مذہبی گروہوں نے ملک میں تشدد کی لہر کو رواج دیا۔ مذہب کے ان ٹھیکیداروں نے ایسے مشائخ کو پیچھے دھکیلا جن کے اجداد نے پاکستان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ پاکستان بنانے والوں کی اولادیں پیچھے چلی گئیں اور پاکستان کو لوٹنے والے آگے آگئے۔ دھرتی کے دکھ بولتے ہیں ، ان دکھوں کی آرزو ہے کہ اس پاک دھرتی کو پاک کرو۔ یہاں ایسے لوگوں کو جینے کاکوئی حق نہیں جو ہر دم اس ملک سے دشمنی کرتے ہیں۔ پاکستان کی مخالفت کو اپنا ’’جمہوری‘‘ حق سمجھتے ہیں۔ ہمیں تو ایسی جمہوریت نہیں چاہئے جس میں قافلے کے راہبر، راہزن بن جائیں، ہمیں ایسی جمہوریت نہیں چاہئے جس میں پاکستان دشمنی چھپی ہوں، ہمیں استحصالی جمہوریت نہیں چاہئے ۔ دھرتی کے دشمن، دھرتی پر بوجھ بنتے جارہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ دھرتی کو غداروں سے پاک کردیا جائے۔ یہ باتیں مجھے کیوں لکھنا پڑ رہی ہیں اس لئے کہ میرا دل دکھی ہے اور اس لئے بھی کہ پاکستان بچانے کیلئے لوگ سوچ رہے ہیں۔ اگر انہیں پاکستان کیلئے گھروں سے نکلنا پڑا تووہ نکلیں گے۔ کسی چور لٹیرے کیلئے محض جمہوریت کے نام پر نہیں صرف پاکستان کے لئے۔پورے دو روز اسلام آباد، پنڈی میں راوینز کا میلہ سجا رہا۔ کیا کیا لوگ تھے جن سے ملاقات ہوئی۔ ہر ایک کی جھولی میں حسین یادوں کےموتی تھے۔ ہمارے لئے تو سب موتیوں والے تھے۔ اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں گپ شپ جاری تھی۔ باہر بادل برس رہے تھے۔ شب اپنےنصف کو چھونے والی تھی کہ الوداعی ’’جپھیاں‘‘ ڈل رہی تھیں اور آسمان سے بارش ایسے اتر رہی تھی جیسے موتی لڑیوں کی صورت میں اتر رہے ہوں۔ دوست رخصت ہوئے تو شب نے نصف کراس کیا مگر مجھے تو ابھی ایک اور میٹنگ میں جانا تھا۔ خاموش ہوتے ہوئے منظروں میںاسلام آبادکے دوسرے کونے میں پہنچا۔ ایک بڑے ہال میں داخل ہوا تو دیکھا کہ باہوؒ کا بیٹا بول رہا تھا۔ صاحبزادہ سلطان فیاض الحسن، وطن سے محبت پر مبنی گفتگو کر رہے تھے۔ دو باتیں بہت اہم تھیں۔ رسول ﷺ سے عشق اورپاکستان سے محبت۔ رات کے آخری پہروں میں جب سلطان وطن کی محبت میں بول رہا تھا تو سر ہلانے والوں میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے بھی شامل تھے۔ پی ٹی آئی والے بھی اور وطن کا دردرکھنے والے بھی۔ سلطان فیاض الحسن نے احادیث کے حوالے دیئے، تاریخ کے اوراق سے چمکتے موتی بیان کئے اورپھر کہا کہ..... ’’ہمیں پاکستان بچانے کیلئے سرگرم ہونا ہوگا.....‘‘ باہوؒ کا بیٹا کہنے لگا کہ ..... ’’جس تن میں بھی پاکستان کی محبت کا بسیرا ہے، وہ ہمارے ساتھ چلے گا، ہمارا ساتھ دے گا۔ ہمارے اجداد نے پاکستان بنایا، ہم اپنے پیارے دیس کو بچانے کیلئے آگے بڑھیں گے.....‘‘ تھوڑا توقف ہوا تو میں نے عرض کیا کہ صاحبزادہ صاحب! اس مشن میں پیر منور جماعتی کو بھی شامل کریں کیونکہ ان کے اجداد میں سے پیر جماعت علی شاہؒ تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ پیر جماعت علی شاہؒ ،قائداعظمؒ کے چند اہم ترین ساتھیوں میں شامل تھے۔ باتیں ہوتی رہیں اور پھر اختتام سے پہلے باہوؒ کا لعل بولا..... ’’پاکستان بچانے کی تحریک کسی جماعت کے زیرسایہ نہیں ہوگی۔ اس تحریک میں وہ سب لوگ شامل ہوں گے جنہیں پاکستان سے پیار ہے۔ اس میں حصہ لینے والے افراد کسی ایک شعبے سے نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے سے ہوں گے کیونکہ زندگی کے ہر شعبے میں کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی غدار بیٹھا ہواہے۔
ہمیں اس دھرتی کو غداروں سے پاک کرنا ہے۔ ہم پاکستان کو بچائیں گے۔ پاکستان کو بچانے کیلئے بھرپور تحریک چلائیں گے۔ یہ ہم پر فرض ہے ۔ ہم اپنی دھرتی پر ظلم و ستم برداشت نہیں کرسکتے۔ نہ ہی دھرتی پر وطن دشمنوں کے وجود کو برداشت کریں گے..... ‘‘
پاکستان سے محبت ہمارے خون میں ہر دم تازہ رہنی چاہئے۔ وہ بھی کوئی آدمی ہے جو اپنی دھرتی کا دشمن ہو۔ وہ بھی کوئی آدمی ہے جو محض لالچ کے باعث وطن کی مخالفت کرے۔ عباس تابش ہمارے پیارے ’’راوین‘‘ ہیں، ان کےاشعار یاد آ رہے ہیں؎
یہ محبت بھی ولایت کی طرح رکھتی ہے
حالت ِ حال میں یا حالت ِ حیرانی میں
اس لئے جل کے کبھی راکھ نہیں ہوتا دل
یہ کبھی آگ میں ہوتا ہے کبھی پانی میں
تازہ ترین