• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
آج کل برطانیہ کی پارلیمانی سیاست بہت گرم ہے، بورس جانسن کے مستعفی ہونے کے بعد نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لئے کنزرویٹو پارٹی میں امیدواروں کی دوڑ لگی ہوئی ہے لیکن اس کے لئے پہلے تو پارٹی لیڈرکا انتخاب ہوگا تاہم پارٹی قیادت اور وزارت عظمیٰ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے عہدے ہیں، یہاں یہ تو نہیں ہوتا کہ ایک وزیراعظم یا پارٹی ہیڈ کے استعفیٰ کے بعد اس کا بیٹا، بیٹی یا کوئی رشتہ دار خودبخود اس کا وارث بن جائے، یہاں سیاسی پارٹیاں بھی کسی کے گھر کے جاگیریں نہیں ہیں اور نہ ہی وزارت عظمیٰ پر کوئی اپنے اثرورسوخ کی و جہ سے اپنا حق دکھا سکتا ہے، پرانا وزیراعظم وزارت عظمیٰ کو بھی اور پارٹی کی سربراہی کو بھی اس وقت تک چلائے گا جب تک نئے لیڈر کا انتخاب نہیں ہو جاتا اور پارٹی کے ہر ممبر کو جو کہ پارلیمنٹ کا رکن ہے اسے پارٹی قیادت کے لئے الیکشن لڑنے کا مکمل حق ہے، اس کے لئے نہ تو کوئی دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں نہ ہی کوئی کسی پر کسی قسم کیالزام تراشی کرتا ہے، ایک مرحلہ وار طریقہ ہے جس سے ہر کسی کو گزرنا ہے، خواہ وہ ارب پتی ہو یا ورکنگ کلاس سے، گو کہ سرمایہ داری جمہوریت میں سرمایہ داروں کے مفادات کی محافظ سیاسی جماعت سمجھا جاتا ہے، اس لحاظ سے اس وقت وزارت عظمیٰ اور پارٹی قیادت کے لئے جو بھی دوڑ میں آتا ہے وہ اس طبقے کے بہتر نمائندے کے طور پرخودکومنوانے کی کوشش کرتا ہے، اس تمام تر پالیسی اور پارلیمانی عمل کی نگراں کمیٹی 1922 ہے جس میں سینئر ٹوری لیڈرشپ موجود ہے جنہیں بیک بنچرز بھی کہا جاتا ہے جوپارٹی کی ڈائریکشن اور سیاست کو کنٹرول کئے ہوئے ہیں، اس میں شامل لوگ دراصل برٹش اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کرتے ہیں جنہیں گرے سوٹوں والے بھی کہا جاتا ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے سرمایہ دارانہ جمہوریتوں میں اس طریقے سے اپنا عمل دخل اور کنٹرول قائم کر رکھا ہے، عالمی طورپر اس ڈائریکشن کا کام سنبھالنے کے لئے G7 جیسے ادارے بنا رکھے ہیں، بورس جانسن کو اسمبلی کے ایک رکن کی جنسی اسکینڈل میں ملوث ہونے کے باوجود عہدے پر تعینات کرنے پر مستعفیٰ ہونا پڑا، ابھی تھوڑا ہی عرصہ پہلے بورس عدم اعتماد کی ایک تحریک سے خود کو بچانے میں کامیاب توہو گئ، ضوابط کے مطابق پارلیمنٹ میں ایک سال میں ایک بار سےزیادہ عدم اعتماد کی تحریک نہیں لائی جاسکتی، گوکہ اب کمیٹی1922 اس بات ضابطے میں ترمیم لانے کا سوچ رہی ہے اور اس پر کام جاری ہے تاکہ اس سال میں صرف ایک بار عدم اعتماد کی تحریک کو ختم کرکے ایک سے زیادہ بار پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک لانے کا ضابطہ بن جائے، 1922 کمیٹی 1923 میں معرض وجود میں آئی تھی، دراصل 1922 میں منتخب ہونے والے کنزرویٹو ممبران نے پارٹی کے اندر Consensus رکھنے کے لئے یہ کمیٹی تشکیل دی، یہ کمیٹی ہفتہ وار ملتی ہے لیکن مہینے میں ایک بار وزیراعظم یا لیڈرآف دی پارٹی بھی تمام ایشوز پر ایک نقطہ نظر پر پہنچنے کے لئے اکھٹےہوتے ہیں اورپارٹی کی سیاسی سمت کو کنٹرول کیا جاتا ہے، یہ کمیٹی اس لئےبھی اہم ہے کہ دراصل یہیں سے عدم اعتماد کی تحریک بھی لانچ ہوتی ہے اور پارلیمنٹ کے کنزرویٹو ارکان اسی کمیٹی کی طرف دیکھتے ہیں، اگر پارلیمنٹ کی طرف سےایسی کوئی تجویز آئے اور 15 فیصد ارکان اس کی حمایت میں ہوں یعنی کم ازکم 54 ارکان اس تجویز کے حق میں ہوں تو اسے بل کی لانچ تصویر کیا جاتاہے، اسی لئے جب بورس کے خلاف پارٹی کے مستعفیٰ ہونے والوں کی تعداد 60 تک پہنچ گئی تھی اور کمیٹی نے اسے وزارت عظمیٰ چھوڑنے کی تجویز دے دی تھی اس وقت وزرات عظمیٰ اور پارٹی قیادت کی دوڑ میں ابتدا سے 11 ارکان نےشمولیت کا اعلان کیا تھا جو کہ اب6 رہ گئے ہیں اور آنے والے جمعرات تک دو امیدوار میدان میں رہ جائیں گے اس کے بعد ستمبر میں ہونے والی پارٹی کانفرنس کے ایک لاکھ 60 ہزار ممبران دونوں امیدواروں میں سے ایک کو اپنا پارٹی لیڈر چنیں گے، اس وقت تک کی دوڑ میں دو امیدواروں کی پوزیشن خاصی نمایاں ہے، ان میں سابق چانسلر رشی سوناک اور سیکرٹری ٹریڈ (وزیر تجارت) پینی مارڈونٹ ہیں، گو کہ رشی سونک کی پوزیشن بظاہر بہت مضبوط دکھائی دے رہی ہے لیکن پارٹی میں پینی مارڈونٹ کی جڑیں زیادہ مضبوط ہیں اور برٹش میڈیا بھی اسے زیادہ پروجیکٹ کر رہا ہے۔ رشی سوناک 1980ء میں انگلینڈ کے شہر سائوتھمپٹن میں پیدا ہوئے ان کے والد کینیا میں پیدا ہوئے تھے جب کہ والدہ کا تنزانیہ سے ہے، سوناک مہنگے ترین تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ ہیں، ان کی بیوی انڈیا کے ارب پتی خاندان کی بیٹی ہیں جب کہ ان کے مدمقابل پینی مارڈونٹ (Penny Mordaunt) اپنی 49 سالہ عمر میں بے شمار اعلیٰ اداروں میں کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں۔ 9/11 کے دوران جارج بش کے لئے ہیڈ آف انٹرنیشنل پریس کی خدمات بھی سرانجام دے چکی ہیں اور 2005ء کے بعد سے مسلسل پارلیمانی کیریئر میں ہیں، انہیں 2019ء میں پہلی مرتبہ برطانیہ کی پہلی خاتون وزیر دفاع بننے کا اعزازبھی حاصل ہے، اس وقت پارٹی کے اندر 5 ستمبر کو ہونے والے فیصلے میں پینی مارڈونٹ کو ہی آئندہ کا پارٹی لیڈر اور بورس جانسن کی جگہ بننے والا وزیراعظم سمجھا جا رہا ہے۔
یورپ سے سے مزید