• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عبدالرحمٰن میرا پُرانا دوست ہے ، صاف گوئی کو ناپسند کرنیوالے اسے ’’منہ پھٹ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ کئی مواقع پر میں نے بھی اُسے سمجھایا کہ آج کے معاشرے میں سچ کا چلن متروک ہوتا جا رہا ہے۔ تمہاری راست گوئی تمہیں ’’تنہا کر دے گی‘‘۔ مگر وہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ ہروقت ایک ہی بات کہتا ہے کہ یہ دُنیا والے میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں کہ میں سچ بولنا چھوڑ دوں ۔ جو دِیا ہے سب اﷲ کا ہے ۔ اپنی محنت سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہوں۔ اﷲ نے ایک رات بھی بھوکا نہیں سلایا ۔ اُس نے قناعت کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ لمبی اُمیدیں میں کسی سے نہیں باندھتا اِس لئے خدا اور رسول ﷺ کے فرمان کو بھلا کر صاف گوئی ترک کر کے خوشامد کی راہ اپنانا میرے لئے مشکل ہے۔ اُس کے ’’دلائل‘‘ کے آگے میں جب خاموش ہو جاتا تو وہ قہقہہ لگا کے کہتا منگواؤ چائے کیونکہ میں نے کہیں جانا ہے۔
مسکراہٹ اس کے چہرے سے ہمیشہ ہی ہویدا رہتی مگر کچھ عرصہ سے اُس کے قہقہوں میں بھی کمی آ گئی ہے اور مسکراہٹ بھی مدھم ہونے لگی ہے ۔ عبد الرحمٰن کا ایک چھوٹا سا ادارہ ہے ۔ جس کا صدر دفتر اسلام آباد، چاروں صوبائی دارالحکومتوں اور بعض بڑے شہروں میں بھی اُس کے چھوٹے چھوٹے دفاتر ہیں۔ ستر کے قریب افراد اُس کے دفاتر میں کام کرتے ہیں۔کل وہ میرے دفتر آیا تو پھوٹ پھوٹ کے رو دیا ۔ رونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگا چھوڑو یار کیا بتاؤں تمہارے پاس کون سا حل ہے۔ تم کون سے افلاطون ہو کہ تمہیں بتاؤں گا تو تم جادو کی چھڑی گھماؤ گے اور مسئلہ حل ہو جائے گا؟ میں نے کہا بات بتاتی نہیں تو بزدلوں کی طرح میرے سامنے رونے کا فائدہ؟ فوراً بولا میں بزدل ہوں، بولو میں بزدل ہوں؟ جس نے صاف گوئی کی خاطر آمر حکمران سے عملاً مار کھائی، بچے تک میرے محفوظ نہ رہے۔ واہ رے واہ تو بڑا بہادر ہے، سنبھال کے رکھ اپنی بہادری کو ۔ میں نرم پڑ گیا اورملتجیانہ لہجے میں کہاکہ بھائی کچھ تو بتاؤ۔ عبد الرحمٰن پھٹ پڑا کہنے لگا تم بڑے صحافی بنے پھرتے ہو زرداری کے بارے میں بڑی اسٹوریاں دیتے تھے کہ وہ کر گیا ملک کا خزانہ تباہ کر گیا مگر اب جو ہو رہا ہے، قلم کے مجاہدوں کو نظر نہیں آ رہا؟ انصاف اور میرٹ کو جس طرح نافذ کیا جا رہا ہے تم کو دکھائی نہیں دیتا؟ چار مہینوں میں پٹرول کی قیمتیں کہاں پہنچ گئیں، بجلی آتی ہی نہیں مگر بل باقاعدگی سے آتے اور ان کی قیمتیں اب کہاں پہنچ گئیں۔ نئی حکومت کے دور میں ایک لِٹر پٹرول کی قیمت میں تقریباً پندرہ روپے کا اضافہ ہو گیا، پٹرول کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ہر چیز کو آگ لگ جاتی ہے ۔ میرے دفتر کے ایک ملازم کی تنخواہ گیارہ ہزارتھی، وہ دفتر موٹر سائیکل پر آتا ہے ۔ موجودہ اضافے سے اس کے پٹرول کے خرچ میں کم از کم پانچ صد روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ جو ملازم گیارہ ہزار میں سے تقریباً نصف تنخواہ پٹرول پر خرچ کر دیتا ہے۔ وہ اپنا اور بچوں کے پیٹ کیسے بھرے گا؟ وہ کہنے لگا تمہیں معلوم ہے میں حساس آدمی ہوں مجھ سے یہ ناانصافی برداشت نہیں ہوتی۔ میں نے پھل اور دیگر مہنگی چیزیں خود خریدنا چھوڑ دی ہیں کیونکہ جب میں پھل کا ہفتے کا پندرہ صد خرچ کرنے لگتا ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے دفتر کے کم تنخواہ والے ملازم کھڑے ہو جاتے ہیں، میری آنکھوں میں جھڑی لگ جاتی ہے۔ رات کو نیند نہیں آتی کہ ہم پھلوں اور دیگر عیاشیوں پر کتنا خرچ کر دیتے ہیں لہٰذا یہ ذمہ داری بیگم صاحبہ نے خود اپنے ذمہ لے لی ہے۔ عبدالرحمٰن کی قمیض آنسوؤں سے تر ہو گئی آج وہ چپ ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اُس نے اسلام آباد کے اسپتالوں، شاہراہوں اور بعض کاروباری مقامات کے نام لے کر کہا کہ وہاں جو خواتین کھڑی ہوتی ہیں جن میں سے اکثر نے چہرے چھپائے ہوتے ہیں، تمہیں نہیں معلوم وہ وہاں کیوں کھڑی ہوتی ہیں؟ تم پارسا لوگ انہیں نہ جانے کیا کیا نام دیتے ہو ۔ اِن کی اکثریت بھی شریف گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے ۔ پیغمبر ﷺ نے تو فرمایا ہے غربت ، افلاس کفر کی طرف لے جاتی ہے اور تم بڑے دانشور انہیں نہ جانے کیسے کیسے دشنام دیتے ہو۔ جو بڑے سرکاری اداروں میں بیٹھ کر جائز کام بھی نہیں کرتے اور دفتروں میں سرعام سودے بازیاں کرتے ہیں۔ جن کے بنگلوں میں لہو لعب کی محفلیں سجتی ہیں، جو ڈاکٹر بھاری تنخواہ لے کر سرکاری اسپتال میں علاج کرنے کے بجائے مریض کو اپنے نجی شفا خانے میں علاج کرانے پر مجبور کرتا ہیں۔ وکیل فیس لے کر اکثر تاریخوں پر حاضر نہیں ہوتا، صحافی سچ لکھ کر قوم کو اصل حقائق نہیں بتاتا تم سب شرفاء ہو؟ اور وہ جو اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے ’’آگ کا دریا‘‘ پار کرتی ہے وہ ہدف ملامت ہے۔ جو یہ کام نہیں کرتی اُس کی تم خبر چھاپتے ہو کہ فلاں نے چار بچوں کا گلا دبا کر بالآخر اپنے گلے میں پھندا ڈال کر جسم و جاں کا رشتہ ختم کر دیا۔ جھوٹ لکھتے ہو تم، سچ یہ ہے کہ یہ پھندا اُس نے اپنے گلے میں نہیں ڈالا ، یہ پھندا تمہاری اشرافیہ نے اُسے لگایا تمہارے معاشرے میں ایسے ظالموں کے لئے کوئی سزا نہیں؟ میں نے کہا بس کرو یار تمہاری باتوں سے سر پھٹ رہا ہے۔ وہ تو اُسی لمحے اٹھ کے میرے دفتر سے چلا گیا مگر اُس کی باتیں میرے سر پر ہتھوڑے چلا رہی ہیں کہ ہم کدھر جا رہے ہیں؟ ہر آنے والا دن بد سے بدترین ، ہمارے ارباب اقتدار بیت اﷲ اور روضہ رسول ﷺ پر حاضری کی خبریں تو ضرور شائع کراتے ہیں مگر اِنہیں خدا اور رسول ﷺ کے احکامات کا ذرا بھی پاس نہیں؟ روضہ رسول ﷺ کے اندر ہی پاک پیغمبر ﷺ کے ساتھ جن دو شخصیات کی قبریں ہیں اُن میں سے ایک سکون کی نیند سونے والے حضرت عمر ؓ ہیں جن کے دور میں جب قحط پڑا تو اُنہوں نے چھوٹی چھوٹی چوری کے جرائم پر سزائیں معطل کر دیں اور کہا کہ جو حکمران روٹی نہیں دے سکتا اُس کو ہاتھ کاٹنے کا بھی حق نہیں۔ برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے دورِ وزارت عظمیٰ میں اُن کے ہاں مہمان آ گیا تو دفتر کے اوپر تیسری منزل پر جا کر خود چائے بنا کے لا رہی تھیں کہ سیڑھیوں پر پاؤں مُڑ گیا اور گرنے سے ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ہمارے صدر و وزیراعظم تو درکنار اُن کے سیکریٹری کے بھی کتنے ملازم دفتروں اور گھروں میں موجود ہیں؟ہمارا معاشرہ اچھی صِفات اور اعلیٰ روایات سے خالی ہو کر بنجر کیوں بن گیا، کیا ہمارے ہاں بھی کبھی ہریالی آئے گی؟ جس دن ہم نے غور و فکر کیا اپنے ضمیر کو زندہ کیا تو معاشرہ بھی تبدیل ہو جائے گا۔
تازہ ترین