• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ تباہ کن سیلابوں نے تین کروڑ افراد کو متاثر یا بے گھر کیا ہے ۔ 10لاکھ سے زیادہ گھر تباہ ہوچکے ہیں یا انہیں جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے ۔

انفراسٹرکچر، جیسا کہ پل، سڑکیں ، ریلوے کی پٹریاں، شاہراہیں ، کمرشل جائیدادکی تباہی کی وجہ سے اشیا کی نقل وحمل میں خلل واقع ہوا ہے ۔ معیشت کو ہونیوالے نقصان کا فی الحال تخمینہ لگایا جارہا ہے ۔

 اندازہ ہے کہ دس ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے ۔کمزور اقتصادی حالات کے لئے یہ بھاری بوجھ ناقابلِ برداشت ہوگا تاوقتیکہ عالمی برادری ایک مرتبہ پھر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آگے بڑھے ۔ یہ بات اب تک کافی حد تک طے ہوچکی ہے کہ انتہائی شدید موسم، جیسا کہ ہیٹ ویو، سیلاب، خشک سالی کبھی کبھار، جیسا کہ دس سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ میں پیش آنے والے واقعات نہیں رہے ۔

موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرے ، جیسا کہ شدید بار شیں، گلیشیرز کا پگھلنا اور سیلاب اب معمول کا حصہ ہیں، اور ان کے پانی، خوراک اور توانائی کے ذخائر پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

 اقتصادی اور سماجی منصوبہ بندی کی شماریات کچھ ایسے طریقے وضع کرتی ہے جن سے ان خطرات کی روک تھام اور ان سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنا ممکن ہے ۔

اسی جذبے کے ساتھ لکھا گیا یہ مضمون اداروں کے ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے خطوط نمایاں کرتا ہے تاکہ مستقبل میں قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے فریم ورک طے کیا جاسکے ۔

 آئین کی اٹھارویں ترمیم، جو وفاقی حکومت کے انتظامی، قانونی اور عملی اختیارات صوبائی حکومتوں کو تفویض کرتی ہے اور ساتواں این ایف سی ایوارڈ جو ایف بی آر کے جمع کردہ محصولات کا ساٹھ فیصد صوبوں کو واپس دے دیتا ہے، کے بعد اگلا قدم فعال مقامی حکومتوں کا قیام ہونا چاہئے تھا۔

وہ حکومتیں ہر صوبے کے مخصوص حالات سے واقف ہوتیں اور انھیں سامنے رکھتے ہوئے کام کرتیں۔ 110 ملین کی آبادی رکھنے والا صوبہ پنجاب دنیا کے زیادہ تر ملکوں سے بڑا ہے۔ اس کے تمام اضلاع کے امور لاہور سے منتظم نہیں ہونا ممکن نہیں۔ پنجاب کے جنوبی اضلاع کے مسائل شمالی اور وسطی پنجاب سے بالکل مختلف ہیں ۔

جغرافیائی ماحول، جیسا کہ آب وہوا، زمین کی نوعیت اور استعمال اور پانی کی فراہمی کے حوالے سے پاکستان دس ارضیاتی خطے رکھتا ہے ، جیسا کہ سندھ کا ڈیلٹا، نہری علاقے ، ریگستان ، پہاڑی علاقے وغیرہ ۔ ان علاقوں پر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات بہت حد تک مختلف ہوں گے ۔

ان کا اندازہ ہر کسی کے انفرادی جائزے سے ہی لگایا جاسکتا ہے ،خوراک اورنقد آور فصلوں کی پیداوار اور مویشی بانی کا تعلق ان علاقوں کے ماحولیاتی خدوخال سے ہے، ارضیاتی، ماحولیاتی ، زرعی اور معاشی تفاوت کے خدوخال کو اجاگرنے کا مقصد یہ وضاحت کرنا ہے کہ ان کی گورننس کے لئےاسلام آباد، لاہور، کراچی ، پشاور اور کوئٹہ کے مراکز میں ہونے والے فیصلے ، اور ان فیصلوں کی بنیاد پر پاکستان کے 160اضلاع کے مخصوص اور مختلف خدوخال اور ماحولیاتی پیچیدگیوں جیسے مسائل سے نمٹنے کے لئے وسائل مختص کرنا کام نہیں دے گا۔

 یہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ اور دور افتادہ طاقت کے مراکز گراس روٹ لیول پر ان آبادیوں کے مسائل کی نہ تفہیم رکھتے ہیں اور نہ حل ۔ چترال لسبیلہ نہیں اور نہ ہی تھرپارکر گوجرانوالہ ہے ۔ ہر کسی کے لئے ایک جیسا بندوبست درکار نہیں۔

پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2022 ء کی بات کرلیتے ہیں ۔ یہ ایکٹ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے لئے ایک معیار طے کرتا ہے ۔ اس میں شہری اور دیہی علاقوں کی واضح تقسیم موجود ہے ۔

 اس کے مطابق پورے ضلع کےلئے صرف ایک ہی ناظم منتخب نہیں ہوگا۔ ہر ضلع میں ضلع کونسل ہوگی جو دیہی علاقوں کی نمائندگی کرے گی، جب کہ میٹروپولیٹن یا میونسپل کارپوریشن شہری آبادی کی نمائندہ ہوگی ۔ ضلعی میونسپل فورم ایک ضلع کے اندر صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے رابطہ رکھنے والا ادارہ ہے ۔ اس کی سربراہی ضلع کونسل کا چیئرمین یا کارپوریشن کا میئر کرے گا۔

اس کا دارومدا ر اس بات پر ہوگا کہ دونوں میں سے کس آبادی کی زیادہ نمائندگی ہے، دوسرے لفظوں میں نئے نظام میں اختیار کسی ایک کے ہاتھ میں مرتکز نہیں ہوگا، گرچہ صوبائی حکومتیں دس محکموں کے اختیارات مقامی حکومتوں کو سونپیں گی ۔ 2001 کے نظام میں تمام کام ایک ضلعی ناظم سرانجام دیتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ نظام کافی حد تک کامیاب رہا تھاکیونکہ اس کے ذریعے عام شہری عوامی خدمات سے مستفید ہوئے تھے۔ ان کی اپنے ناظم تک آسان رسائی تھی ۔ لیکن اس دوران اس کی کمزوریاں بھی سامنے آئی تھیں۔

اس کی وجہ سے اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر کے عہدے ختم اور ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے اختیارات تحلیل ہوگئے تھے ،ضلعی رابطہ کار افسرنے ڈی سی کی جگہ لے لی تھی۔

وہ براہِ راست ناظم کو رپورٹ کرتا تھا۔ اس بندوبست کی خامی یہ تھی کہ یہاں کوئی سیاسی طور پر غیر جانب دار افسر نہیں تھا جس سے شہری اپنے ذاتی اور مالی مفادات کے تحفظ اور صاحبانِ اقتدار کی انتقامی کارروائیوں یا قدرتی آفت سے بچائو کے لئے رابطہ کرپاتے ۔

موجودہ نظام نے ڈپٹی کمشنر کے عہدے کو برقرار رکھا ہے ۔ لیکن ایک ابہام پھر بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ قدرتی آفت کے وقت انتظامات کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی ۔

2022 ء کا ایکٹ کہتا ہے کہ کونسل ، کارپوریشن ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی معاونت کریں گی ، لیکن یہ واضح نہیں کہ بچائو، امداد، تقسیم اور پھر بحالی کی سرگرمیوں کا نگران کون ہوگا؟ قومی ، صوبائی اور ضلعی سطح پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے افسرسرگرم ہیں لیکن ان کا کوئی مرکزی کردار نہیں ہے ۔

ماضی کے تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ڈپٹی کمشنر اور اس کا عملہ ہی اس ذمہ داری کو نبھانے کےلئے موزوں ترین ہے ۔ ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو براہ راست ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں کام کرنا چاہئے ۔

وہ قدرتی آفت کے آثار دیکھ کر قبل ازوقت اقدامات کرتے ہوئے متاثرہ افراد کی پناہ کےلئے عارضی امدادی کیمپ قائم کرسکتا ہے ۔ ڈپٹی کمشنر کا عملہ چوں کہ زمینی خدوخال کو بہتر طور پر جانتا ہے، اس لئے وہ انخلا کی سرگرمیوں کے لئےمحفوظ راستے اختیار کرسکتا ہے ۔ وہ امدادی اشیا، جیسا کہ خوراک، پینے کا پانی، کمبل، ادویات، پانی صاف کرنے والی گولیوں وغیرہ کی فراہمی کے لئے علاقے کے خوش حال افراد کو متحرک کرسکتا ہے ۔

 اس کے بعد صوبائی اور وفاقی حکام اور عطیات فراہم کرنے والے عالمی اداروں اور سول سوسائٹی سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔ امداد اور بحالی کی سرگرمیوں کےلئے علاقے تقسیم کر سکتے ہیں تاکہ کوئی متاثر ہ فرد امداد سے محروم نہ رہ جائے اور نہ ہی محدود افراد تک ہی بار بار رسد پہنچتی رہے۔ ضلعی افسران پانی کی فراہمی کو یقینی بناسکتے ہیں ۔

 نیز نکاسیٔ آب میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کےلئے بھی ان کے پاس وسائل ہوتے ہیں ۔ جو کچھ یہاں بیان کیا گیا ہے ، ماضی میں کئی ایک اضلاع میں کامیابی سے ہوتادکھائی دیا ۔ اس میں راقم الحروف کا ذاتی تجربہ بھی شامل ہے ۔

 ہم نے چٹاگانگ میں سیلابوں کے دوران خدمات سرانجام دی تھیں۔ تمام صوبائی حکومتوں کو یہ ابہام دور کرتے ہوئے ضلع انتظامیہ کو قانونی اور مالی وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ قدرتی آفات کی روک تھام اور بحالی کے کاموں میں ناظم اور چیئرمین ڈپٹی کمشنر کی معاونت کرتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین