• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2021ء میں طے پانے والی قومی سلامتی پالیسی نے جیو اکنامکس کو اپنا بنیادی محور بنایا ہے۔ ضروری ہے کہ ایک مربوط اور جامع انداز میں دیکھا جائے کہ اس ہدف کے حصول کے لیے پاکستان کے دیگر ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات کس نہج پر استوار کیے جائیں۔ خارجہ اقتصادی پالیسی وضع کرتے وقت ہمیں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ایسی پالیسی ملک کی خارجہ اور ملکی اقتصادی پالیسیوں کی ضمنی پیداوار ہوگی۔ مثال کے طور پراگر کسی خاص ملک یا ممالک کے گروپ کے ساتھ خارجہ پالیسی غیر فعال ،دوغلی یا لاعلمی پر مبنی ہے تو پھر اس ملک یا گروپ کے ساتھ مضبوط اقتصادی تعاون پرمبنی پالیسی نہیں بنائی جا سکتی۔ اسی طرح اگر ملکی اقتصادی پالیسی مالیاتی مسائل کی وجہ سے محدود ہو تو بین الاقوامی منڈیوں میں پاکستانی اشیا کو فروغ دینے کے لیے مالی سہولت فراہم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

مستقبل کے تعلقات طے کرنے کیلئے کس قسم کے اہداف ہونے چاہئیں؟

چین نے ابھرتے ہوئے صنعتی ممالک اور مشرقی ایشیا سے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزشتہ 25برسوں میں 1.2بلین افراد کی حقیقی فی کس آمدنی میں چار گنا اضافہ کیا اور غربت کو 50 فیصد سے کم کرکے 10فیصد تک لے آیا۔ ایک اور ملک، بھارت، جس کی آبادی ایک ارب سے تجاوز کر چکی اورجو افراتفری اور ناقص جمہوریت رکھتا ہے، نے اپنے تمام تر مسائل کے باوجود گزشتہ 15 سال میں 6 فیصد کی سالانہ شرح نمو سے ترقی کی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے بھارت غربت کی سطح کو کم کر کے 23 فیصد تک لے آیا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب بھارت نے تجارت کو آزاد کردیا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے آسانیاں پیدا کیں۔

ضروری ہے کہ ہم بہت احتیاط سے ان عوامل کا انتخاب کریں جو ہماری معیشت کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور ان سے بچیں جو اتار چڑھاؤ اور مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ میری نظر میں، کم از کم مختلف درجے اور فعالیت رکھنے والے دس ممکنہ عوامل ہیں :

-1 عالمی منڈیوں میں تجارتی اشیا کی برآمدات میں اضافہ کریں اور علاقائی تجارت کو فروغ دیں۔

2 ۔سروسز ،خاص طو ر پر آئی ٹی اور پیشہ ور سروسز میں اضافہ کریں ۔3۔دیگر ممالک کو تجارت کیلئے ٹرانزٹ راہ داری، انفراسٹرکچر اور سروسز فراہم کریں۔ 4۔آلات اورپرزوں کی فراہمی کے ساتھ عالمی سپلائی چین کا حصہ بنیں ۔5۔براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو خاص طور پر برآمدات اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں ترغیب دیں۔ 6۔پاکستانی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنا سرمایہ بیرونی ممالک میں رکھ کر بیرونی ٹھیکے حاصل کریں۔7-کثیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ مل کر مشترکہ منصوبے شروع کیے جائیں۔8۔پاکستانی کمپنیوں کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی حوصلہ افزائی کریں، اور پاکستانی کمپنیوں کو عالمی سطح پر اپنا مقام بنانے کی سہولت فراہم کریں۔ 9۔اُن ممالک میں افرادی قوت بھیجنے کے لیے اپنے افراد کو تربیت دیں جنھیں افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے بیرونی دنیا سے بھجوائی گئی رقوم کے حجم میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کریں۔ 10۔اعلیٰ مہارت رکھنے والے ٹیکنیکل اور فنانشل ماہرین کی بیرونی دنیا کو فراہمی ممکن بنائیں ۔

مندرجہ بالا فریم ورک دیکھتے ہوئے ہم مندرجہ ذیل ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی نوعیت جا ئزہ لیتے ہیں :امریکہ، چین ، خلیجی ریاستیں، جنوبی ایشیا، افغانستان۔ وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کا بہت حد تک دارومدار افغانستان کے حالات اور ایران کے ساتھ مغربی دنیا کے رویے پر ہے ۔

امریکہ:امریکہ اقتصادی، فوجی اور انسانی بنیادوں پر امداد کا ایک بڑا فراہم کنندہ رہا ہے۔ 2014 کے بعد سے اس امداد میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے جو امریکہ اور پاکستان دونوں کے لیے ایک خوش آئند اقدام ہے ۔ دراصل امریکی امداد دونوں ممالک میں مختلف تاثرات رکھنے کی وجہ سے ایک متنازعہ مسئلہ بنی رہی ہے ۔ امریکی امداد زلزلے اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کے لیے زیادہ مؤثر اور فعال ثابت ہوئی ۔ متاثر ین نے اسے سراہا ہے۔ 2022 کے سیلاب کے لیے بروقت امداد اس کی ایک مثال ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے بجا طور پر اپنی توجہ تجارت، سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر مرکوز کر دی ہے۔ یہ ایک بہتر تبدیلی ہے بشرطیکہ اس حکمت عملی کو بھرپور طریقے سے فعال کیا جائے۔ ماضی میں ایسی کوششیں کامیاب نہیں ہوئی تھیں۔ امریکی چیمبر آف کامرس بجا طور پر پاکستانی ٹیکسٹائل کی امریکی منڈیوں تک رسائی کو آسان بنانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ پاکستان کی نمایاں برآمدات پر امریکی محصولات اوسطاً تقریباً 10 فیصد ہیں، جو دوسرے ممالک سے درآمدات پر امریکی ٹیرف کی اوسط شرح سے چار گنا زیادہ ہیں۔ ٹیرف کی شرح میں کمی پاکستانی برآمد کنندگان پر کوئی احسان نہیں کرے گی بلکہ انہیں برابری کا میدان فراہم کرے گی۔ ایک ایسے ملک کے لیے جو بازار میں مسابقت پر پختہ یقین رکھتا ہے، یہ ایک اصلاح ہے نہ کہ رعایت۔

پاکستان کو توانائی کی ترسیل اور تقسیم، گیس پائپ لائنز، تیل اور ایل این جی ٹرمینلز، ریفائننگ کی صلاحیت، پیٹرو کیمیکل کمپلیکس سمیت دیگر شعبوں میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ امریکی سرمایہ کاروں کو ایکسپورٹ امپورٹ بینک کے قرضوں اور اوورسیز پرائیویٹ انویسٹمنٹ کارپوریشن کی پاکستان کے توانائی کی ترقی کے منصوبوں میں شرکت کی ضمانتوں کے ذریعے حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ان میں سے ایک شعبہ ایسا ہے جس کی کارکردگی میں کوئی اور ملک بہتر نہیں ہے۔

اکیسویں صدی میں صنعتی معیشت کی جگہ ڈرامائی طور پر علم پر مبنی معیشت نے لے لی۔ اگلی دہائی میں یہ عملی طور پر کس حد تک حاصل کیا جا سکتا ہے اس کا انحصار ان بنیادوں پر ہوگا جن پر ہماری معیشت کھڑی ہے، یعنی سائنسی اور تکنیکی افرادی قوت کی مقدار اور معیار۔ ہم دوسرے ہم مرتبہ ممالک سے پیچھے ہیں، اسلئے ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔ امریکہ اعلیٰ تعلیم اور سائنسی اور تکنیکی تحقیق میں دنیا میں سرفہرست ہے۔ ہمیں امریکہ کے سرکردہ اداروں میں اپنے اساتذہ اور سائنسدانوں کو تربیت دلوانے، پاکستانی اور امریکی یونیورسٹیوں کے درمیان روابط اور اسکالرز کے تبادلے اور زراعت، آبی وسائل، قابل تجدید توانائی اور کم توانائی کے شعبوں میں ہماری تحقیقی تنظیموں کی استعداد کار کو مضبوط بنانے کیلئے ان سے رابطہ کرنا چاہیے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین