• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صرف انہی معاشروں نے ترقی کی ہے جہاں جمہوری عمل نہ صرف ارتقا پذیر رہا بلکہ جہاں سیاست کا محور صرف اور صرف اس کےعوام رہے، ان معاشروں میں ساری قوتیں یکجا طور پر ارتقا پذیر ہوئیں اور انہوں نے آئین کی پاسداری کو اپنا نصب العین بنا لیا۔دانشوروں اورسیاسی محققین کے سامنے آج سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جس کے قیام سے پہلے اس کے جمہوری کردار کو طے شدہ تصورکر لیا گیا تھا، وہ ملک اپنے قیام کے بعد جمہوریت کے راستے پر گامزن کیوں نہ ہوسکا؟مبصرین کی رائے ہے کہ ہندوستان کی تقسیم سے سیاسی اور جغرافیائی سطح پرتو ردوبدل ہوا لیکن معاشرے کی سماجی ساخت ، اقتصادی نظام ، پیداواری رشتوں اور ریاست کے بنیادی آمرانہ کردار میں کوئی اساسی تبدیلی نہ ہوئی اور مابعدبھی ملک کے اندر نو آبادیاتی دور کا نظام رچا بسا رہا ۔ البتہ نہرو نے آتے ہی ہندوستان میں جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کر دیا جس نے وہاں کے سیاسی نظام پر اثر ڈالا ۔اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں نو آبادیاتی حکمرانوں نے جاگیرداروں ، پیروں، سجادہ نشینوں اور ان تمام قبائلی سرداروں کو ریاستی سرپرستی مہیا کی اور یوں آزادی کے بعد بھی جمہوری ادارہ سازی پروان نہ چڑھ سکی ۔ یوں رفتہ رفتہ عوام نے ریاست کو ایک ما ں کے روپ میں دیکھنے کے بجائے ایک دشمن کے طور پر دیکھااور اداروں کی مسلسل مداخلت کی وجہ سے جمہوری سیاست اور جمہوری عمل کبھی سماج میں پنپ نہ سکا۔ عمران خان انہی آمرانہ ادوارکا تسلسل ہیں اور اسی آمرانہ بیانیہ کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت، جو کہ انہی اداروں کی بدولت اقتدار میں آئی ہے ، نے بھی جمہوری ارتقا کو آگے بڑھانے سے ہر طرح کا گریز کیا ۔یہ عمران خان سےنئے الیکشن کی تاریخ پر بات کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی گمشدہ افراد کا مسئلہ حل ہو سکا۔ ایم این اے علی وزیر اوراعظم سواتی کے ساتھ ناروا سلوک ان کے اس دہرے رویے کی مثالیں ہیں۔پاکستان میں البتہ آمرانہ طرز عمل نے رفتہ رفتہ ریاستی اداروں کی ساخت بدل کر رکھ دی اورآج بھی پچھتر سال گزرنے کے بعد ایسا نہیں لگتا کہ ریاستی ادارے عوامی نمائندوں کے سامنے اسمبلی یا عدلیہ میں جوابدہ ہونگے،ان کےآمرانہ طرز عمل نے شروع سے ہی جمہوری طرز عمل نہ اپنایا، پاکستان بنتے ہی صوبہ سرحد کی حکومت توڑ دی گئی اور اس کے کچھ عرصے کے بعد50کی دہائی میں مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی حکومت کو چند ماہ میں فارغ کر دیا گیا۔ ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا تاکہ اس کے ذریعے وہ اپنی قانونی حیثیت قائم کر سکیں اور لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ وہی ملک کے حالات کو سنبھال سکتے ہیں، جس کا اثر عوام کی نفسیات پر پڑااور لوگ جمہوری اداروں اور ان کی کارکردگی سے مایوس ہوتے چلے گئے اور سیاست میں اس آمرانہ طرز عمل نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد ڈالی۔ایوب خان نے کنونشن لیگ بنائی اور ضیاالحق نے غیر جماعتی سیاست کے تحت مسلم لیگ بنا ڈالی ۔ پرویز مشرف نے مسلم لیگ ق بنائی اور اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے بنیادی سیاسی نظام کی بیخ کنی کرتے رہے اور نیب کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کو نیست و نابود کرتے ہوئے نیب زدہ افراد کو ق لیگ میں شامل بھی کرواتے رہے۔ کیا یہ سلسلہ اب بند ہوگا؟ سابق آرمی چیف نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ فوج کا اب سیاست سے کوئی تعلق نہیں ۔ جبری طور پر گمشدہ افراد کا مسئلہ، ایم این اے علی وزیر اور اعظم سواتی کو جہاز کے ذریعے ایک صوبے سے دوسرے صوبے لے جانا سیاست سے الگ ہونے کے تاثر کو تقویت نہیں پہنچا رہے۔؟آج پاکستان کو جمہوری ارتقا کے راستے پر ڈالنے کیلئے ضروری ہے کہ موجودہ حکومت جلد از جلد تمام سیاسی پارٹیوں اور اداروں کی مشاورت سے ایک ایسا ’’ٹروتھ کمیشن ‘‘بنائے جہاں ادارے اور افراد آکر اپنے ظلم اور غلطیوںکا اعتراف کریں اورجو لوگ سچ پر مبنی یہ اعتراف نہ کریں ، ان پرملکی قانون کے مطابق مقدمات قائم کئےجائیں۔ نیلسن منڈیلا نے ایسا ہی ایک کمیشن بنا کر جنوبی افریقہ میں سیاہ فام عوام اور سفید فام اشرافیہ کوجنہوں نے سینکڑوں سال سیاہ فام لوگوں پر اپنا جبری تسلط قائم رکھا ، ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی تاکہ وہ ایک چمن میں مختلف پھولوں کی خوشبو سے معطر ہو کر گلشن کی پذیرائی کر سکیں۔نیلسن منڈیلا 27سال جیل میں قید رہے لیکن آزاد ہو کر انہوں نے سفید فام لوگوں سے انتقام تو چھوڑیے، بے اعتنائی بھی نہ برتی۔

پاکستانی سماج آج سیاسی اور اقتصادی حالات کی وجہ سے آئی سی یو میں ہے جبکہ سیاستدان اور سیکورٹی ادارے پچ کی دونوں طرف کھیل رہے ہیں اور مرض کی تشخیص ، اس کا آپریشن اور مریضوں کی حالت بدلنا ان کا مقصد ہی نہیں ہے۔یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں کہ پاکستان میں سیاست اور اقتصادی میدان میں اشرافیہ کا قبضہ ہے۔ آزاد منش سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستانی سماج اروندکیجری وال جیسے عام آدمی کو پیدا ہی نہیں ہونے دے گا جس نے نہ صرف ہندوستان کے تین صوبوں میں حکومت بنائی ہے بلکہ حال ہی میں بی جے پی کو نہ صرف دہلی کے لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں شکست دی بلکہ گجرات میں بھی سیٹیں حاصل کیں۔اگلے الیکشن میں وہ اسی سماجی تبدیلی کے نعرے کے ساتھ بغیر وسائل کے ہندوستان کے دو مزید صوبوں میں حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔حکمران پاکستان کو جمہوری راستے پر گامزن کریں،پچ کے دونوں طرف کھیل کر وہ دراصل ایک گول دائرے میں سیاسی سفر کرتے رہیں گے۔

تازہ ترین