• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانی کا بحران تو اپنی جگہ لیکن اب یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ خوراک کا بحران بھی عنقریب پیدا ہونے والا ہے جس کے اثرات بڑے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ زرعی ممالک کی پیداواری صلاحتیوں میں فرق آ گیا ہے، سیلاب، 'ممالک کے آپس میں تنازعات، ' خشک سالی اورمالی بحران ، سیا سی عدم استحکام اور دیگر وجوہات اس صورتِ حال کی وجہ بن رہی ہیں۔ پہلے ہی بیشتر ترقی پذیر ممالک میں غربت اور افلاس کے سائے منڈلا رہے ہیں اور فی کس آمدنی میں نمایاں کمی آئی ہے جس سے افراد کی بقا بھی خطرے میں ہے، پیداوار میں مسلسل کمی آ رہی ہے، افراطِ زر بھی غذائی بحران کی ایک اہم وجہ ہے،جس نے دنیا کے اکثر ممالک کو غذائی بحران سے بچانے کیلئے لائحہ عمل متعین کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔تنازعات، 'موسمیاتی تبدیلی اور کوویڈ-19 کے بعد پیدا ہونے والے معاملات کی وجہ سے بھی غذائی بحران نے سر اٹھا لیا ہے، جس کے باعث عالمی سطح پر بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے۔اس حوالے سے اقوام متحدہ نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ اگر ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو خوراک کا موجودہ بحران 2023 میں عالمی تباہی میں تبدیل ہوسکتا ہے۔بہت سے ممالک میں جاری خشک سالی اور تنازعات اور یوکرین روس جنگ کی وجہ سے اناج کی ترسیل میں رکاوٹوں نے خوراک کے بحران کو مزیدبڑھایا ہے اور لاکھوں انسانوں کو فاقہ کشی کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا کے 45 ممالک میں تقریبا 50 ملین افراد قحط کا سامنا کر سکتے ہیںجب کہ دنیا بھر میں کم و بیش800 ملین سے زیادہ لوگ ہر رات خالی پیٹ سوتے ہیں۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھی اپنی رپورٹ میں متنبہ کیا ہے کہ دنیا کو خوراک کے بحران کا سامنا ہے کیوں کہ قیمتوں میں بڑے اتار چڑھائو سے غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے۔ خوراک کے بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہ خطہ افریقہ ہے جہاںلاکھوں انسانوں کی جان خطرے میں ہے۔اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق افریقی براعظم میں ہر5 میں سے ایک شخص موسمیاتی تبدیلی، تنازعات، کورونا وبا اور یوکرین روس جنگ جیسی وجوہات کی وجہ سے صحت بخش غذا سے محروم ہے۔مشرقی افریقہ میں 81 ملین لوگ خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہیں تو 16 ملین مشرقی افریقی شہریوں کو کھانا پکانے اور پینے کے قابل پانی تک رسائی نہیں ہے۔یعنی خوراک کا بحران عالمی مسئلہ بن چکا ہے، اس سے بچائو کے لیے عالمی سطح پر ایک ایسا فورم تشکیل دینا ضروری ہو چکا ہے جس کے ذریعے ممالک آپس میں بیٹھ کر اس کے تدارک کے لیے فیصلے کر سکیں۔ پاکستان میں تو ابھی سے سیلاب کی وجہ سے خوراک کا بحران آ چکا ہے اورچولستان میں تو ایک ہی گھاٹ سے جانور اور انسان پانی پیتے ہیں اور وہیں سے خواتین گھر کے استعمال کے لیے پانی لے جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ نے اگلے سال کو خوراک کے بحران کا سال قرار دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے خوراک سے متعلق ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے سربراہ ڈیوڈ بیسلے نے دنیا بھر کے ارب پتیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ تقریباً 30 کروڑ لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے آگے آئیں کیوں کہ اگر ان لوگوں کو ورلڈ فوڈ پروگرام کی طرف سے مدد نہ ملی تو یہ موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ فروری سے لے کر اب تک امریکہ عالمی سطح پر ہنگامی بنیادوں پر خوراک کی دستیابی کو یقینی بنانے کی خاطر 5.7 ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کر چکا ہے۔ یہ امداد اُن افریقی ممالک کو بھی دی گئی ہے جن کے شہری شدید بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں جن کی سب سے بڑی وجہ باہمی تصادم ہیں۔ ان بحرانوں کی کئی قسمیں سامنے آ چکی ہے جن میں سیاسی ، معاشی بحران، پانی کا بحران اور اخلاقی بحران بھی شامل ہے لیکن ان سب میں خطرناک اخلاقی اور سماجی بحران ہے ابھی تک غذائی بحران سے 45 _سے زائد ممالک متاثر ہو چکے ہیں لیکن بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ 2023 تک اس فہرست میں مزید ممالک بھی شامل ہو چکے ہوں گے۔ غذائی بحران پاکستان جیسے ملک میں تو نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن موجودہ سیلاب کے سبب یہاں بھی صورت حال تسلی بخش نہیں ۔ ان بحرانوں سے بچنے کے لیے ہمیں مل کر مقابلہ کرنا اور ان کے سدِباب کے لیے اقدامات کر نے چاہئیں، پا کستان نے اگر اس غذائی بحران سے بچنا ہے تو اس کو اپنی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہو گا اور درآمدات و برآمدات کے توازن کو درست رکھنا ہو گا۔ غیر ملکی اشیاء کی نسبت اپنے ملک کی پیداکردہ اشیاء کے استعمال میں اضافہ کرنا بھی ضروری ہے۔ کسانوں کی پیداواری مہارت میں بہتر ی لانی ہے۔ 2023 کا غذائی بحران ماہرین کے مطابق شدید ترہو سکتا ہے جس سے دنیا کے بہت سےممالک کی معیشت پر برے اثرات پڑتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان کے حالات پہلے ہی مثالی نہیں ہیں۔ غربت، بے روزگاری ہے اور معیشت عدم استحکام کا شکار ہے، سیاسی بحران اس پر مستزاد ہے۔ ایسے حالات میں سیاست دانوں کو مثبت رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔ غذائی بحران سے بچنے کے لیے حکومت کو پہلے ہی سے موثر اقدامات کرنے چاہئیں اور اپنی سوچ کے دھاروں کو بھی تبدیل کرنا چاہیے تاکہ ملک سیاسی اور معاشی لحاظ سے آگے بڑھ سکے اور پاکستان مستحکم ہو۔ یہ بحران پاکستان کی طرف بھی رُخ کر رہا ہے جس کو روکنا اوراس باب میں اقدامات کرنا بہت ضروری ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین