یہ واقعہ میرے مرحوم کزن کے ساتھ پیش آیا، وہ فیصل آباد کی ایک مقامی پراڈکٹس کمپنی میں چیف اکائونٹنٹ تھے۔ اُن کے دو بیٹے ہیں، بڑے کا نام مراتب، جب کہ چھوٹے کا نام ندیم۔ دونوں ماشاء اللہ اہل و عیال والے ہیں۔ یہ اُس وقت کی بات ہے، جب ندیم کی عمر تین چار برس تھی۔
گھر کے کونوں کُھدروں میں کھیلتا پھرتا تھا۔ اُس کی عادت تھی کہ جو چیز ملتی، اُٹھا کر منہ میں ڈال لیتا۔ ایک روز اسی طرح کھیلتے ہوئے اُسے ایک کیل نظر آئی، تو حسبِ عادت منہ میں ڈال لی اور نگل گیا۔ کسی کو پتا ہی نہ لگا اور اس نے بھی ڈر کے مارے کسی کو نہیں بتایا۔
چند روز بعد اُسے بخار ہوگیا۔ اُس کے والد نے ایک ڈاکٹر کو دکھایا، مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ پھر دوسرے ڈاکٹر کو دکھایا، اس نے بھی دوا بدل کر دی، مگر بچّے کا بخار نہ اُترا، مسلسل بخار کی وجہ سے اُس کا چہرہ بھی زرد پڑتا جارہا تھا۔ اسی تشویش ناک حالت میں آخر اس کے والد اُسے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ اسپتال لے گئے۔
وہاں سینے کا ایکس رے کروایا، تو رپورٹ دیکھ کر سب کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ بچّے کے پھیپھڑے کے ایک جانب کیل گھسی ہوئی واضح نظر آرہی تھی۔ ڈاکٹر نے تفصیلی معائنے کے بعد بتایا کہ پھیپھڑے میں پھنسی کیل نکالنے کے لیے آپریشن ناگزیر ہے۔ چناں چہ وہ بیٹے کو لے کر میو اسپتال پہنچے۔ ایکس رے رپورٹ اور بچّے کی حالت دیکھ کر ڈاکٹرز نے فوری آپریشن کا فیصلہ کرکے اسے داخل کرلیا۔
بچّے کو اسپتال میں داخل کرواکر اس کے والد اسپتال کے قریب مسجد چلے گئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر اپنے بچّے کی صحت یابی اور آپریشن کی کام یابی کے لیے دعائیں مانگنے لگے۔ اس وقت اُن کی دلی کیفیت کیا ہورہی تھی، اس کا اندازہ اولاد والے ہی لگاسکتے ہیں۔ بہرحال، خوب رو کر، آنسو بہاکر اور خشوع و خضوع سے اپنے بچّے کی سلامتی کی دعائیں مانگنے کے بعد جب واپس وارڈ میں آئے، تو آپریشن کا وقت ہوچکا تھا۔
انھوں نے اپنے لختِ جگر کو سینے سے لپٹاکر خُوب پیار کیا اور نم آنکھوں سے اپنی دعائوں کے سائے میں آپریشن تھیٹر روانہ کیا۔ آپریشن تھیٹر میں ڈاکٹرز تیار تھے، تمام کارروائی مکمل ہونے کے بعد بچّے کو بے ہوشی کا انجیکشن لگا دیا گیا، مگر عین اُسی لمحے اُسے کھانسی ہونے لگی اور شدید کھانسی کے دوران منہ سے بلغم نما مواد خارج ہوا۔ یہ دیکھ کر بچّہ فوراً اسٹریچر سے اُترا اور زمین سے کوئی چیز اٹھاکر ڈاکٹر کو دی اور اسٹریچر پر لیٹتے ہی فوراً بے ہوش ہوگیا۔ اس وقت تک نشہ آور ادویہ اثر کرچکی تھی۔
بچّے نے ڈاکٹر کو زمین سے اٹھا کر جو چیز دی تھی، وہ کیل ہی تھی۔ چناں چہ دوبارہ ایکس رے کیا گیااور اللہ کے فضل سے پھیپھڑے میں جہاں پہلے کیل تھی، وہ جگہ اب بالکل صاف تھی۔ اس طرح وہ معصوم بچّہ ایک بڑے آپریشن سے عین وقت پر آنے والی کھانسی کے سبب محفوظ ہوگیا۔ یقیناً یہ اُس بچّے کے والد کی دعائوں اور آہ و زاری ہی کا نتیجہ تھا۔ باپ کی محبت و خلوص اور دل سے کی گئی دُعا رنگ لائی۔
بے شک، اسلام میں والدین کی دعائوں کی خصوصی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ آج اس بچّے ندیم کے خود کئی بچّے ہیں اور وہ ایک خوش و خرّم زندگی گزار رہا ہے۔ (محمد جاوید افضل علوی، لاہور)