• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1973 ءکا آئین پاکستان کی سالمیت اور بقا کا ضامن ہے۔اس آئین کی تشکیل میں پاکستانی قوم نے اجتماعی دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایسی دستاویز ترتیب دی جس کی بنیاد پر پاکستان کی چاروں اکائیاں متحد ہیں۔آئین پامال کرنے کی داستان بہت طویل ہے۔پاکستان میں بالادست طبقے نےجب بھی دستور کی بے حرمتی کی اس کے سنگین نتائج پوری قوم نے بھگتے۔آج پاکستان کا ہر ذی شعور شخص اس بات سے خوفزدہ ہے کہ موجودہ حالات کا انجام کیا ہوگا۔ آج، سیاسی اور دستوری روایات منہدم کی جارہی ہیں، اندھی طاقت کے زعم میں مبتلا حکمراں طبقہ، اپنے موقف کے خلاف اٹھنے والی ہرآواز کو دبانے کے درپے ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ زبان و بیان پر اتنی سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ مقبول سیاسی قائدین کی سرگرمیوں کی کوریج مشکل بنادی گئی ہے۔ سرکاری چینل کیا اور نجی ذرائع ابلاغ کیا، سب پیمرا کی غیر آئینی ہدایات کی چھری تلے، ذبح ہو رہے ہیں۔ جرات اس قدر بڑھ گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود انتخابات ملتوی کردیےگئے ہیں۔جسارت کا یہ عالم ہے کوئی قاعدہ خاطر میں نہیں لایا جا رہا۔مختلف سیاسی موقف رکھنے والے رہنماؤں اور کارکنان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔اور انہیں دیوار سے لگانے کیلئے ہر قسم کا حربہ اختیار کیا جا رہا ہے۔پورے ملک میں خوف و ہراس کا عالم ہے۔قانون نافذ کرنےاورانصاف فراہم کرنےوالےپر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔11 جماعتی حکومتی اتحاد اس وقت ہر قسم کی سیاسی مصلحتوں اور دستوری تقاضوں کو پس پشت ڈال کر محض طاقت کے زور پر اپنے مخالفین کی آواز دبانے میں مصروف دکھائی دیتاہے۔دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ کھلے عام کہتے ہیں کہ’’ ہم رہیں گے یا ہمارے مخالفین‘‘۔اس نوعیت کے بیانات سےتو یہی عیاں ہوتا ہے کہ شکست کے خوف سے حکمراںاتحاد حواس کھو رہا ہے۔پاکستان کا دستور،یہاں رہنے والے ہر شہری کے بنیادی حقوق کا محافظ ہے۔اس دستور کے تحت ہر شہری کو انفرادی اور اجتماعی آزادی حاصل ہے۔اس متفقہ دستور میں تمام اصول و ضوابط طے کر دیے گئے ہیں۔ انتخابات کے انعقاد سے لے کر حکومت سازی تک تمام جزئیات باریک بینی سے بیان کر دی گئی ہیں۔آئین میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کرائے جائیں گے لیکن سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود پاکستان میں انتخابات کا انعقاد ناممکن بنا دیا گیا۔ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ماضی میں جب بھی دستور سے انحراف کیا گیا اس کے سنگین نتائج برآمد ہوئے۔1971 میں جب عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کیا گیا تو اس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا۔1977میں آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منتخب حکومت کا تختہ الٹا گیا تو اس کا خمیازہ آج تک بھگتا جا رہا ہے، ماضی میں ہماری عدالتوں نے آئین شکنی کو نظریہ ضرورت کی چھتری فراہم کی۔ کئی کئی سال انتخابات التوا کاشکار ہوتے رہے اس کے نتیجے میں پاکستان میں سیاسی قیادت کا بحران پیدا ہوا،جس کا خمیازہ آج ہم بطور قوم اجتماعی طور پر بھگت رہے ہیں۔1950کی دہائی میں اگر آئین شکنی کو نظریہ ضرورت کا جواز نہ بخشا جاتا اور آئین توڑنے والوں کو کڑی سزا دی جاتی تو آج ملک سیاسی بحران کا شکار نہ ہوتا۔پاکستان کے دستور سے انحراف کرتے ہوئے حکومت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلی کے انتخابات ملتوی کئے،1973 کے آئین میں دی گئی شخصی آزادیوں پر قدغن عائد کی،سیاسی کارکنان کو بلاجواز جیلوں میں بند رکھا گیا،حکومت مخالف جماعت کی سیاسی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں،لیکن ان سب کے باوجود عوام نے سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے تصادم سے گریز کیا اور مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں اکٹھا ہوکر اپنی اجتماعی دانش کا ثبوت دیا۔پاکستان کے اقتدار پر قابض گروہ اس وقت ہر قسم کی آئینی قانونی اور اخلاقی حمایت سے محروم ہے،اور اسے خود احساس ہے کہ نہ اس کے اقدامات کی کوئی دستوری حیثیت ہے اور نہ ہی عوام انہیں قبول کر رہے ہیں۔اس کے باوجود دستور کی خلاف ورزیوں پر اصرار کرنا ریاست کیلئے اچھا شگون نہیں۔بدقسمتی سے تمام ادارے متنازع ہوچکے ہیں قوم ایک مرتبہ پھر 1973 کے آئین کی طرف دیکھ رہی ہے،جسے موجودہ حکمراں اتحاد نے گویا غلاف میں لپیٹ کر کسی طاق پر رکھ دیا ہے لیکن اگر پاکستان بچانا ہے تو ہمیں دستور کی کتاب کھولنا پڑے گی۔اگر پاکستان کی بنیادیں مضبوط کرنی ہیں تو دستورِ پاکستان کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔انفرادی حقوق کا تحفظ یقینی بنانےکیلئے ہمیں آئین سے رہنمائی لینا پڑے گی۔ورنہ انتقام پر انتقام کی سیاست نہ صرف ملک کی چولیں ہلا دے گی بلکہ معاشرے میں انارکی پھیلےگی ۔موجودہ حکومت کے اقدامات کی وجہ سے اس وقت نچلی سطح پر شدید اضطراب کی کیفیت ہے۔مہنگائی سے مارے عوام آئین کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا شکار ہیں اس سے پہلے کہ یہ لاوا پھٹ پڑے اور کسی بھی سیاستدان اور سیاسی جماعت کے قابو میں نہ رہے اب بھی وقت ہے کہ دستور پر عمل کیا جائے، آئین پر عمل کرتے ہوئے قومی انتخابات کا اعلان کیا جائے عوام کو حق دیا جائے وہ اپنی مرضی کی جماعت کو ووٹ دیں، عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے عوام کی منتخب حکومت کو اقتدار دیا جائے تاکہ ملک کو اس دلدل سے نکالا جاسکے۔پاکستان اب مزید کسی دستوری کھلواڑ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

تازہ ترین