اسحاق ڈار صاحب دسمبر سے قوم کو یہ یقین دہانی کراتے رہے ہیں کہ ان شا اللہ کل یا اگلے ہفتے یا آئندہ چند روز میں سعودی عرب، قطر اور دیگر دوست ممالک سے ڈالرز آ جائیں گے۔ دسمبر چھوڑ کر اب مارچ آ چکا ہے لیکن نہ تو چین کے سوا کسی دوست ملک سے کوئی پیسہ موصول ہوا ہے اور نہ ہی آئی ایم ایف کا پروگرام ابھی تک بحال ہو سکا ہے جس کے بارے میں عندیہ دیا گیا تھا کہ وہ ان شا اللہ آئی ایم ایف کے فروری کے دورے کے چند روز بعد بحال ہو جائے گا۔ عرب ممالک میں مشہور ہے کہ وہاں کوئی شخص اگر آپ سے کسی کام پر ان شا اللہ کہے تو اس کا یہی مطلب لینا چاہئے کہ میرا ذاتی طور پر تو یہ کام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، ہاں اگر اللہ نے مجھ سے کروا لیا تو ہو جائے گا۔ ہمارے وزیر خزانہ کی یہ یقین دہانیاں اور بیانات بھی اب مذاق اور تماشا لگنے لگے ہیں، ہماری ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔
پاکستان جنوبی ایشیا کا کمزور ترین کرنسی کا حامل ملک ہے۔ 2022ء میں ایشیا کی سب سے بد ترین کارکردگی کی حامل کرنسی بھی پاکستانی روپیہ ہی تھا۔ دیوالیہ ہونے کے باوجود سری لنکا کے معاملات آئی ایم ایف سے طے پا گئے ہیں، بنگلہ دیش کو بھی عالمی مالیاتی فنڈ سے قرض مل چکا ہے، ایک ہم ہی ہیں کہ جنہیں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے باوجود قرض کی اگلی قسط نہیں مل سکی۔ انسٹیٹیوشنل میموری سے کسی بھی ادارے کی ایسی یادداشت مراد ہے جو اس کے ماضی میںکئے گئے مخصوص کاموں کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔ماضی میں ہمیں آئی ایم ایف کی طرف سے قرض کے حصول میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اس لئےہمارے حکمرانوں کو آئی ایم ایف کی انسٹیٹیوشنل میموری کی بنا پر لگتا ہے کہ ہمیں اس بار بھی آسانی سے قرض مل جائے گا جبکہ ماضی میں ہمیں آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کیلئے کبھی اتنے پاپڑ نہیں بیلنا پڑے جتنے اس بار بیل چکے ہیں۔ہماری ایک انسٹیٹیوشنل میموری یہ بھی ہے کہ ہمیں سعودی عرب یا دیگر خلیجی ممالک سے پیسوں کے حصول میں کبھی کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا، ہمارے چند اہم عہدیداروں کی درخواست کرنے کی دیر ہوتی تھی اور یہ عرب ممالک ا سٹیٹ بینک کو ڈالر ٹرانسفر کر دیتے تھے۔ ہم اب بھی بہت سے معاملات کے حوالے سے ماضی میں رہ رہے ہیں لیکن دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔
وہ ممالک جن سے ہم ماضی میں مالی امداد لیتے رہے ہیں اور آج جن کی مالی یقین دہانیوں کے انتظار میں آئی ایم ایف پروگرام رکا ہوا ہے، اب خود بہت بدل رہے ہیں۔ وہاں تیل بھی مہنگا ہو رہا ہے، عوام پر ٹیکس بھی لگایا جا رہا ہے، حکومت کی شاہ خرچیاں کم کی جا رہی ہیں، عوام کو محنت اور کام کرنے کی طرف راغب کیا جا رہا ہے، یعنی وہ ممالک اب اپنی معیشت کا انحصار صرف تیل پر نہیں رکھنا چاہتے اور دیگر معاشی سرگرمیوں کو بھی اپنی ترجیح بنائے ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ ممالک اب ہم سے بھی اپنی اصلاح کے خواہاں ہیں اور ڈھکے چھپے الفاظ میں اس کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ اب وہ ممالک اپنے عوام کو بھی جواب دہ ہیں جو پہلے کی نسبت اب ملکی معاملات میں زیادہ متحرک ہو چکے ہیں۔ وہ ممالک آج پاکستانی حکمرانوں سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ جب ہم پوری دنیا کو تیل برآمد کرنے کے باوجود اپنے عوام کو تیل پر سبسڈی نہیں دے رہےتو آپ کوکیسے دے سکتے ہیں؟ اگر پاکستان میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہوتا تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جو پیسہ آج آپ ہم سے وصول کر رہے ہیں، وہ کھا پی کرکل کو آپ دوبارہ قرض مانگنے نہیں آئیں گے؟ کیونکہ ملک کے بنیادی مسائل کو حل کئے بغیر کوئی قرض معاشی مسائل کا حل ثابت نہیں ہو سکتا۔ آئی ایم ایف کو بھی یہی خدشہ ہے کہ اگر وہ اپنا پروگرام بحال بھی کر دیتا ہے اور پاکستان کو قرض کی اگلی قسط مل بھی جاتی ہے تب بھی اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ ہم اپنے معاشی مسائل حل کر سکیں گے کیونکہ حکومت کوئی معاشی بہتری لائے بغیر اگلے بجٹ میں اپنی سیاسی تشہیر کیلئے پھر سے عوام کو ریلیف دیتی نظر آئے گی، اور ہم پھر سے قرض کیلئے مارے مارے پھرتے نظر آئیں گے۔ 2022-23 مغربی ممالک کیلئے بھی معاشی طور پر مشکل وقت ہے ، وہاں بھی مہنگائی ہے اور معاشی بحران بھی سر اٹھا رہا ہے۔
اس وقت اصل مسئلہ ہماری ساکھ کا ہے۔ ہم وعدے کرتے ہیں اور پھر انہیں پورا نہیں کرتے۔ سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ کسی سیاسی جماعت کو اس وقت ملک کے مستقبل سے کوئی غرض نہیں ہے، غرض ہے تو صرف حصولِ اقتدار سے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت عالمی مالیاتی فنڈ سمیت دیگر عالمی ادارے اور نہ ہی دوست ممالک ہم پر اعتبار کر رہے ہیں۔ سیاسی رسہ کشی اور ملکی مفادات کو پس پشت ڈالنے کی اس روش کی وجہ سے دنیا میں ہماری اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔
عوام کو ریلیف دینا اچھی بات ہے لیکن یہ ریلیف دینے کیلئے گنجائش موجود ہونا اور بڑی معیشت کا حامل ہونا بھی ضروری ہے۔ ایک طرف پہلے ہی آئی ایم ایف پروگرام بحال نہیں ہو رہا اور دوسری طرف آئی ایم ایف کو اعتماد میں لئے بغیر ہی عوام کیلئے پٹرول سبسڈی کا اعلان کر دیا گیا ۔ یاد رہے کہ پہلے بھی پٹرول سبسڈی ہی آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کی خرابی کی وجہ بنی تھی۔ اور پھر نہ ڈار صاحب اور نہ ہی ان سے پہلے کسی نے ایسا کوئی اقدام کیا جس سے اشرافیہ پر موثر اور براہِ راست کوئی ٹیکس لگایا گیا ہو یا حکمرانوں اور افسر شاہی کی شاہ خرچیوں کو صحیح معنوں میں ختم کیا گیا ہو۔
اس وقت ہماری کوئی معاشی سمت نہیں ہے۔ اگر مکمل غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو اس میں پی ڈی ایم، عمران خان اور ماضی کے تمام اسٹیک ہولڈرز برابر کے شریک ہیں۔ جب ذاتی مفادات ملکی مفادات سے بالا تر سمجھے جائیں تو ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اُس بچے کا کیا قصور ہے جو حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے آج تک اسکول نہیں جا سکا، اُس مریض کا کیا قصور ہے جو تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی مہنگائی کی وجہ سے اپنا علاج کرانے سے بھی قاصر ہے۔ ان والدین کا کیا قصور ہے جو روز افزوں مہنگائی کی وجہ سے اپنے بچوں کا پیٹ نہیں بھر سکتے اور بچوں سمیت موت کو گلے لگانا آسان سمجھتے ہیں۔ کسی مہذب ملک میں ایسا ایک بھی واقعہ رونما ہو جاتا تو وہاں قیامت برپا ہو جاتی لیکن یہاں تو ایسے واقعات معمول بن چکے ہیں جو محض اخباروں کی سرخیوں کی زینت بن کر رہ جاتے ہیں۔ پاکستان کا آنے والے چند ماہ میں کیا بنے گا اور سیاست کے ساتھ معیشت کا کیا بنے گا؟ شاید آج کوئی بھی یہ نہیں بتا سکتا کہ پاکستان کا مستقبل ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)