• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیں اچھی طرح یاد ہے، جب پشاور میں اے پی ایس کا سانحہ ہوا، توکہا گیا کہ دشمن نے ہمارے دِل پر وار کیا ہے اوراب یہ جو9 اور 10 مئی کے سانحات ہوئےہیں، جن میں قوم نے اپنے ہی گھروں کو جلتے دیکھا۔ لاہور کا جناح ہاؤس جلا کر خاکستر کردیا گیا۔ شہدا کی یادگاریں بے دردی سے توڑپھوڑ کر شعلوں کی نذر کر دی گئیں۔ پشاور کا تاریخی ریڈیو اسٹیشن جلا دیا گیا۔ ظالموں نے ایدھی کی ایمبولینس کو بھی نہ بخشا۔ جلتی دھوپ میں مریضوں کو اُتارا اور ایمبولینس کو آگ لگا دی، حالاں کہ جنگ کے زمانے میں دشمن بھی ریڈ کراس اور ہلالِ احمر کی گاڑیوں کو احترام دیتے ہیں۔ جی ایچ کیو پر، جو ہمارے دفاع کی علامت ہے، حملہ ہوا۔ 

آئی ایس آئی کے دفاتربلوائیوں کا نشانہ بنے، تو کیا اس سے بڑا سانحہ اور المیہ کوئی اور ہوسکتا ہے۔ ہمارے ایک پاکستانی دوست نے امریکا میں موبائل اسکرین پر کور کمانڈر ہاؤس سے شعلے اُٹھتے دیکھے، تو کانپتی آواز میں واٹس ایپ پر پوچھا کہ ’’کیا یہ فیک ہے؟‘‘ ہمیں لگا، اُن کی یہی خواہش ہے کہ اللہ کرے، یہ فیک نیوزہو، لیکن جب ہم نے کہا کہ ’’یہ سب حقیقتاً ہورہا ہے‘‘، تو دوسری طرف سے اُن کی سسکیاں سُنائی دیں۔ یہ دوست ایک ممتاز امریکی یونی ورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں اور جمہوریت کے بڑے حامی ہیں۔ 

جب آگ نے سب کچھ جلا ڈالا اور ساری دنیا نے تصاویر اور ویڈیوز دیکھ لیں، تو کہا گیا کہ یہ تو پارٹی سربراہ کی گرفتاری کا ردّعمل تھا۔ پھر بتایا گیا کہ یہ نوجوانوں اور کارکنان کا غصّہ تھا، جو اس بھیانک شکل میں ظاہر ہوا۔ اور اِسی پر بس نہیں، بلکہ پارٹی قائد نے دھمکی دی کہ اگر پھر گرفتار کیا گیا، تو دوبارہ یہی کچھ ہوگا اور یہ بیان اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں بین الاقوامی میڈیا کے سامنے دیا گیا۔

یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ یہ کسی قسم کے انقلاب کی شروعات تھیں، لیکن جب ان انقلابیوں کے خلاف پولیس نے کارروائی شروع کی، تو بتایا گیا کہ یہ تو چند شرپسندوں کا کام تھا، جنہوں نے پُرامن احتجاج سبوتاژ کرنے کی کوشش کی اور ہمارا اُن سے کوئی تعلق نہیں۔ یوں انقلاب تو دھرا کا دھرا رہ گیا، لیکن شرپسندوں کی کارروائیاں کام یاب ہو گئیں، جنہوں نے قوم کا رہا سہا فخر و غرور بھی پھونکنے کی کوشش کی اور پھونک دیا۔ اس بربریت نے شہدا کے ورثاء کو خون کے آنسو تو رلایا ہی ہے، لیکن پوری قوم کو اُن کے سامنے مجرم بنا کر بھی کھڑا کر دیا ہے۔

9 اور10 مئی کو پاکستان میں جو کچھ ہوا، اُس کی تفصیلات اب پوری قوم ہی نہیں، دنیا کے بھی سامنے ہیں۔ جب کہ اتنے بڑے زلزلے کے آفٹرشاکس کے طور پر پی ٹی آئی کے نامی گرامی رہنما چند روز جیل میں گزار کر مسلسل اِن واقعات کی مذمّت اور پارٹی چھوڑنے کے اعلانات کر رہے ہیں۔ حالاں کہ اگر اِس مُلک میں جمہوریت چلنی ہے، آئین اور قانون کی حُکم رانی قائم ہونی ہے، تو کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ سیاسی جماعتیں ٹُوٹیں اور ماضی کا ایک اذیّت ناک کھیل بار بار دُہرایا جائے، لیکن کیا کوئی یہ بھی چاہے گا کہ تاریخ کے اس بدترین ظلم و بربریت کے مجرموں کو معاف کر دیا جائے کہ جو کچھ ان بد بختوں نے کیا ہے، اِس کا تصوّر تو کوئی بدترین دشمن بھی نہیں کرسکتا۔ 

قومی اسمبلی، قومی سلامتی کمیٹی، وزیرِ اعظم، تمام سیاسی جماعتیں، یہاں تک کہ تحریکِ انصاف کے مختلف رہنما بھی اس سانحے کی مذمّت کرنے کے ساتھ یہ بات بھی کُھل کر کہہ رہے ہیں کہ جس کسی نے بھی ان جرائم کا ارتکاب کیا، اُنھیں کڑی سزا ملنی چاہیے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ طیارے اُڑے ہوں، نوٹوں کی گڈیاں تقسیم ہوئی ہوں، وفاداریاں خریدی گئی ہوں اور سیاسی لوگوں کو زبردستی کسی پارٹی میں شامل کر کے اکثریت دلوائی گئی ہو، جیسے 2018ء اور اس کے بعد کے برسوں میں پی ٹی آئی کو سہولتیں فراہم کی گئیں۔لوگوں کو باقاعدہ جہازوں میں بَھر بَھر کر لایا گیا تاکہ وہ پارٹی میں شمولیت اختیار کرسکیں۔ 

اُس وقت یہ لوگ ایسی کارروائیوں پر دھمال ڈالا کرتے تھے۔ اِسے مُلک سے وفاداری اور ضمیر کی آواز پر لبیّک کہنا کہا جاتا تھا۔فخر سے بتاتے کہ آج اِتنی وکٹیں اُڑا دی ہیں۔ اب جب وہی لوگ قطاریں باندھ کر اپنے گھونسلوں میں واپس جا رہے ہیں، تو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شاید کوئی غیر معمولی کام ہو رہا ہے، کوئی بڑی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے۔ تو ایسا بالکل نہیں ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ یہ لالچ دے کر، کھینچ کھانچ کرلائے گئے تھے، اور اب اپنی مرضی و منشا سے واپس جا رہے ہیں۔ کیا کنونشن لیگ، جونیجو لیگ، قاف لیگ بننے کی باتیں صدیوں پرانی ہیں، جو پاکستانیوں کے اذہان سے محو ہوچُکی ہیں۔ 

کیا پہلے کبھی سیاسی رہنماؤں نے جیلیں نہیں کاٹیں۔ اِسی ملک کے تین دفعہ کے وزیرِاعظم ایک متنازع فیصلے پر دو سال جیل میں رہے اور گرفتاری اِس طرح دی کہ کینسر میں مبتلا اہلیہ کو غیر مُلک میں چھوڑ کر بیٹی کا ہاتھ پکڑکرجیل چلے گئے، لیکن کیا اُن کے کارکنان نے کہیں آگ لگائی، دہشت و بربریت کا کوئی بازار گرم کیا؟؟خواتین کو جیلوں میں ٹھونسا گیا، سیاسی رہنماؤں کو احتساب کے نام پر عدالتوں کے چکر لگوائے گئے۔یہ سب ریکارڈ کا حصّہ ہے، جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ضرورت صرف اس امرکی ہے کہ اس بار جو ایک انتہائی خوف ناک طرزِعمل دیکھنے میں آیا ہے، جس کی پوری 75 سالہ مُلکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، اُس کی نہ صرف ہر ہرسطح پر پورے شدّومد سے بھرپور مذمّت کی جائے بلکہ اس سانحے کے تمام تر ذمّے داران کو کیفر کردار تک بھی پہنچایا جائے۔

اِس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان جیسے ممالک میں سیاسی پارٹیاں، شخصیات ہی کے گرد گھومتی ہیں۔ اگر تحریکِ انصاف میں عمران خان کی شخصیت محور و مرکز ہے، تو یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں اور یہ بھی کوئی حیران کُن کی بات نہیں کہ اُن کے کارکنان اُن پر اپنا سب کچھ وارنے کو تیار ہیں، ہاں مگر، یہ اہم بات ضرور ہے کہ کیا یہ شخصیت پرستی کسی نظریے سے وابستگی کی بدولت ہے یا ایک مافیا کی صُورت اختیار کرچُکی ہے۔ درحقیقت، شخصیت پرستی کسی نظریے کا نام نہیں ہوتی، یہ تو بس ایک اندھی محبّت ہوتی ہے، جیسی قدیم زمانے کے یونانی دیوتائوں کے گھڑے گھڑائے قصّے کہانیوں میں ملتی ہے۔ 

ہومر اور الئیڈ دو مشہور رزمیہ شاعر تھے، جنہوں نے ایسے ہی دیوتائوں کے لیے، اِسی قسم کی اندھی محبّت سے لب ریز نظمیں کہیں۔ لوگ اُن دیوتا نُما انسانوں کے لیے جان دینا اپنا مقصدِ حیات سمجھتے، کیوں کہ کہانیوں میں وہ دیوتا ناقابلِ تسخیر بتائے جاتے۔ وہ اُن کے لیے لوگوں سے لڑتے۔ پھر مذاہب نے شخصیت پرستی کے یہ بُت توڑے اور انسان کو انسان کی غلامی سے آزاد کردیا۔ رفتہ رفتہ معاشرے کا مزید ارتقا ہوا، خصوصاً جمہوریت نے فرد کو یک سر آزاد کیا، اُس کے حقوق متعیّن ہوئے، جو آج مہذّب معاشروں کی پہچان ہیں، اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’جمہوریت‘‘ حُکم رانی کا سب سے بہتر نظام ہے۔ شخصیت پرستی تو ایک طرح کی اسیری اور غلامی ہے۔ 

کسی کے کہنے پر اُٹھنا، بیٹھنا، جان تک دینے کے دعوے کرنا، انسانیت کی توہین ہے اور جو شخص ایسا کرتا ہے، اُس کا تعلق خواہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، وہ بڑی حد تک عقل اور سوچ کا استعمال چھوڑ دیتا ہے،جیسا کہ ہم اپنے آس پاس دیکھ ہی رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں، شخصیت پرستی پر نہیں، نظریات اور منشور پر آگے بڑھتی ہیں اور اسی منشور کے بل پر عوام اُنھیں حُکم رانی کا موقع دیتے ہیں۔ سیاست میں بہت کچھ ہوتا ہے، الزامات بھی لگتے ہیں، تنقید بھی ہوتی ہے، جوابات بھی دئیے جاتے ہیں، بحث مباحثے ہوتے ہیں، لیکن قومیں اِسی طرح ارتقائی مراحل سے گزرتی ہیں اور جمہوریت مضبوط ہوتی رہتی ہے۔ 

پاکستان بھی ایک جمہوری مُلک ہے، لیڈر اور حُکم ران آتے جاتے رہیں گے اور اِسی طرح مختلف منشور بھی آزمائے جائیں گے۔ لیکن یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اگر کسی خیالی مسیحا، خود ساختہ اوتار یا مسلّط شدہ عقلِ کُل کو اپنایا، تو پھر وہی نتیجہ نکلے گا، جو 9 مئی کو دیکھا گیا۔ تحریکِ انصاف کو جس طرح اسٹیبلشمینٹ کی سپورٹ ملی، وہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں۔ نہ صرف خُود کپتان بلکہ اُن کے ترجمانوں اور وزیروں کی فوج ظفرموج بھی فخریہ کہتی رہی کہ ’’ہم ایک پیج پر ہیں۔‘‘ جب چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سے قرض لینے جاتے یا امریکا کے ڈونلڈ ٹرمپ سے مذاکرات ہوتے، تو اُس ایک پیج کا نہ صرف عام مظاہرہ ہوتا بلکہ اُس پر حد درجہ فخر بھی کیا جاتا۔

اب یہ کوئی راز نہیں کہ عمران خان کی حکومت اِسی مدد کے سہارے قائم رہی اور جب یہ بے ساکھی ہٹی، تو سب نے اُن کا حال دیکھ لیا۔ اُس وقت جو اس طرزِ عمل پر تنقید کرتے، احتیاط کرنے کو کہتے، اُن پر مغلّظات کی بوچھاڑ کر دی جاتی۔ اُنہیں غدّاری کے سرٹیفیکیٹس دئیے، لفافی قرار دے دیا جاتا، لیکن اب سب کو پتا چل گیا کہ اس پیج سے متعلق خُود تحریکِ انصاف کے سربراہ گزشتہ ایک سال سے اپنی تقاریر اور انٹرویوز میں کیا فرمارہے ہیں۔ میرجعفر اور میرصادق سے متعلق وہ لاکھ تاویلات کریں، مگر سب کو معلوم ہے کہ وہ ان کی آڑ میں کسے نشانہ بناتے رہے۔

پھر، کچھ عرصے سے اِس منظر نامے میں ایک اور عُنصر کا اضافہ ہوا اور وہ ہے، مراعات یافتہ طبقے کا کردار۔ اِن میں بارسوخ خاندان، ریٹائرڈ افسران اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اُنھیں یقین ہے کہ وہ یا اُن کے اہلِ خاندان کچھ بھی کرتے رہیں، آخرکار چُھوٹ جائیں گے کہ پہنچ بہت آگے تک ہے۔ اُنھیں ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹونمنٹ کے علاقوں میں جو رہائش گاہیں ملیں، اُن ہی میں میں بیٹھ کر سیاست کرنے لگے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کی ایک پوری کھیپ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر چھا گئی۔ کوئی ٹاک شو ان ریٹائرڈ افسران کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ جہاں تک ان کی دفاعی تجزیہ کاری کا سوال ہے، تو وہ سر آنکھوں پر کہ یہ دنیا بَھر کے ٹی وی چینلز پر ہوتا ہے، لیکن مسئلہ تب پیدا ہوا، جب یہ تجزیہ کار، موٹیویشنل اسپیکر، سیاسی جماعتوں کے ترجمان بن گئے۔ 

برسرِعام بتانے لگے کہ عوام کو کسے ووٹ دینا چاہیے، کسے نہیں۔ کون سا لیڈر چور، کرپٹ ہے اور کون صادق و امین، یعنی ٹی وی ٹاک شوز ہی میں عدالتیں لگا لی گئیں۔ کون نہیں جانتا کہ ان میں سے کئی ایک مارشل لا کے دَور میں آمروں کے دستِ راست رہے، جنہوں نے برسوں مُلک کو جمہوریت سے محروم رکھا۔ سارے فائدے اُٹھائے اور اب نام نہاد دانش وَر بن کر قوم کو فلاح کی راہ بتانے لگے ہیں۔ طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا، تو خوشیوں کے شادیانے بجائے گئے۔ بتایا گیا کہ کس طرح پاکستان علاقائی طاقتوں، چین اور روس کے ساتھ مل کر ایک عظیم طاقت بن جائے گا اور دنیا پر راج کرے گا، مگر آج حالات سب کے سامنے ہیں۔ مُلک قرضوں، منہگائی، بے روزگاری اور افراطِ زر کے بدترین چنگل میں جکڑا ہوا ہے۔ 

اب وہ سارے اہلِ دانش اور بین الاقوامی اُمور کے ماہرین کہاں ہیں؟اور افسوس تو یہ ہے کہ وہ اپنے بے بنیاد تجزیوں پر شرمندہ بھی نہیں ہیں۔ یہ سوشل میڈیا کا دَور ہے، جو خبر یا اطلاع پہلے دِنوں میں پہنچتی تھی، اب سیکنڈز میں پھیل جاتی ہے۔ لیکن نہ تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پاکستان کی ایجاد ہے اور نہ ہی اس کا استعمال پہلی مرتبہ سیاسی معاملات میں یہاں سے شروع ہوا۔ ہم بارہا عرب اسپرنگ کا ذکرکرچُکے ہیں، جس کے بانیوں نے اعتراف کیا کہ اس کی سب سے بڑی کم زوری غیر منظّم ہجوم کو اکھٹا کر کے چھوڑ دینا تھا۔ 

گو کہ یہ ہجوم کبھی کبھی بڑے بڑے سیاسی بُرج بھی اُلٹ دیتا ہے، مگر اس کی وجہ سے پھیلنے والی افراتفری سے مُلک ترقّی کی پٹری سے اُتر جاتا ہے۔ مِصر، یمن، تیونس، الجزائر، غرض کس کس کی مثال دی جائے۔وہاں غیر منظّم ہجوم کے ہاتھوں جو نقصان پہنچا، کئی سال گزرنے کے باوجود اس کی تلافی نہیں ہوسکی۔ ایسا ہی سوشل میڈیا کا تجربہ ہمارے مُلک میں بھی کیا گیا۔ باقاعدہ سرکاری سرپرستی میں یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی ایک فوج تیار کی گئی، جسے کبھی ففتھ جنریشن وار کا عنوان دیا گیا، تو کبھی سوشل میڈیا انقلاب کا نام، جب کہ حقیقتاً اِن تیار کردہ نوجوانوں کی مکمل برین واشنگ کرکے اِنھیں صرف یہی تربیت دی گئی کہ ہر مخالف کو رگید دو۔ ٹرولنگ کرنا آرٹ بن گیا۔ 

جھوٹ اس طرح پھیلائو کہ گوئیبلز کی رُوح بھی شرما جائے اور ان ناپختہ ذہنوں کو صحافی کہا گیا۔ اُنہیں بُلا بُلا کر پارٹی سربراہ داد دیتے اور بتاتے کہ انہوں نے تو کمال کردیا۔ یہاں تک کہ یہ نوبت آگئی کہ بڑے بڑے صحافی اس جھوٹ اور مغلّظات کے طوفان کے سامنے بے بس ہوگئے۔حقیقی صحافیوں کا سوشل میڈیا پر ایک طرح سے گھیراؤ کیا گیا تاکہ اُن کی ساکھ خراب کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ ہم یہاں ایک اور اہم امر کی جانب بھی اشارہ کرتے چلیں کہ اس وقت مُلک کی بیش تر بڑی یونی ورسٹیز میں میڈیا کےشعبہ جات موجود ہیں، جن میں ڈاکٹریٹ تک کی اسناد دی جارہی ہیں۔ قابلِ احترام پروفیسرز تعلیم و تربیت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ 

ایچ ای سی جیسا اعلیٰ ادارہ ان شعبوں کی نگرانی کرتا ہے۔ اور چوں کہ ہمارے یہاں زیادہ تر سیاسی تحریکیں میڈیا کواستعمال کرکے ہی آگے بڑھی ہیں، تو کیا ابلاغِ عامہ کے ان شعبہ جات میں کبھی سائنسی سطح پر کوئی ایسی تحقیق ہوئی کہ جس سے اندازہ ہو کہ میڈیا کے استعمال سے آگے بڑھنے والی اِن سیاسی موومنٹس کے معاشی و معاشرتی اثرات کیا رہے۔ نیز، آئندہ کیا ہونا چاہیے۔ ہمارے خیال میں تو اِس ضمن میں ایک آزادانہ اور بےلاگ تحقیق، ہماری قومی ضرورت ہے کہ یہی تحقیق میڈیا کی سمت متعیّن کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ پھر یہ بھی دیکھنا بہت ضروری ہے کہ ان ڈیپارٹمنٹس کے فاضل، میڈیا انڈسٹری میں کس نوعیت کا حصّہ ڈال رہے ہیں۔

ہم نے حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر بہت سی ایسی ویڈیوز گردش کرتی دیکھی ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے کچھ اوورسیز پاکستانی اپنے وطن سے شاکی ہیں۔ اُن پر بھی وہی کیفیت طاری ہے، جو 9 مئی کو یہاں تباہی کرنے والوں میں دیکھی گئی۔ اُن کے دماغوں میں اپنے وطن اور سیاسی رہنماؤں سے متعلق نہ معلوم کیا گند بَھرا ہوا ہے کہ اُن کا بس نہیں چلتا کہ وہ سارا دن سڑکوں پر کھڑے ہوکر احتجاج کرتے رہیں۔ یوں لگتا ہے کہ شاید اُنہیں احتجاج کے سوا کوئی اور کام ہی نہیں، جب کہ دوسری کمیونیٹیز یہی وقت بہتر تعلیمی، تحقیقی، تجارتی سرگرمیوں میں صرف کر کے اپنا اور اپنے آبائی ممالک کا نام روشن کر رہی ہیں۔ 

انتہائی گِری ہوئی زبان میں احتجاج، گالم گلوچ اور جنونی پن کا سرِعام مظاہرہ دیکھ کر کوئی بھی اِن پاکستانیوں کے بارے میں اچھی رائے قائم نہیں کرسکتا۔وہاں کے مقامی باشندے ان حرکتوں سے عاجز آچُکے ہیں، یہاں تک کہ پاکستانیوں کی شکایات تک درج کروائی گئی ہیں۔ اس کے برعکس، چینی اور بھارتی کمیونٹیز کو دیکھیں کہ انھوں نے کیسے ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کا ذریعہ بن کر اپنے وطن کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کیا، جب کہ ہمارا دُکھ یہ ہے کہ ہمارے اوورسیز ایسا کچھ بھی نہ کر سکے۔ اُن کا اپنے نئے وطن میں ریکارڈ پہلے ہی بہتر نہیں، اوپر سے اپنے آبائی وطن کی سیاست ان ترقّی یافتہ ممالک کی گلیوں اور بازاروں میں پہنچا کر اپنی ساکھ مزید خراب کر رہے ہیں۔

حیرانی ہوتی ہے کہ یہ لوگ کتنی تکالیف اور مصیبتیں اٹھا کر تعلیم اور ترقّی کی راہیں تلاش کرنے گئے تھے اور اب کس کام میں لگ گئے ہیں۔ ان سے تو توقّع ہے کہ یہ اپنے ہم وطنوں کو وہ راستے دِکھائیں گے، جو ترقّی کی منزل تک لے جاتے ہیں۔ مگر کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ توغلط رستوں پراپنے ہم وطنوں سے بھی دو ہاتھ نہیں، میلوں آگے نکل چُکے ہیں۔ کیا ان جمہوری ممالک اور ان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں نے انہیں احتجاج کا یہی طریقہ سِکھایا ہے۔ اگر ایسا ہے، تو پھر کیا ہی بہتر ہوتا کہ یہ اپنے ہی مُلک میں رہتے، کم ازکم کچھ روایات کی پاس داری تو کرتے۔