• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پولیس کے سب سے بڑے تربیتی ادارے نیشنل پولیس اکیڈیمی کی سربراہی کچھ عرصے کیلئے مجھے سونپی گئی۔ اس دوران دو اہم چیزیں موصول ہوئیں۔ ایک اخبار ی خبر جس میں بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا کے سابق آئی جی پولیس ملک نوید مالی بدعنوانی کے کیس میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ دوسرا ایک خط جو گرفتار ہونے والے افسر ملک نوید کے بیچ میٹ اور دوست سابق آئی جی جہانگیر مرزا نے انہیں لکھا، اور کاپی ہمیں بھی بھیج دی ۔ دوست تو دوستوں کی غلطیوں اور گناہوں کو چھپاتے اور اس کا دفاع کرتے ہیں۔ کیا یہ خط اسی لئے لکھا گیا تھا؟ چالیس زیرتربیت پولیس افسروں کو یہ خط پڑھ کر سنایا گیااس کا اردو ترجمہ آپ بھی پڑھ لیں۔
’’میرے قابلِ قدر ساتھی! میرے بیچ میٹ! میرے دوست! تم یہ کیسے کرسکتے تھے! تم نے یہ کیوں کیا؟ تمہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا! تمہارا ایک ممتاز، پڑھے لکھے، خوشحال اور بااثر خاندان سے تعلق تھا۔ تم معاشی بدحالی یا اقتصادی محرومیوں سے کبھی دوچار نہیں رہے۔ تم ان چند خوش قسمت نوجوانوں میں سے تھے جنہیں ایف اے کرنے کے فوراًبعد پولیس سروس آف پاکستان میں اس حیرت انگیز سکیم کے تحت بھرتی کر لیا گیا جو ایوب خان نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں شروع کی تھی۔ آپ لوگوں کو ایف اے کے بعد گریجویشن کیلئے گورنمنٹ کالج لاہور جیسے اعلیٰ ادارے میں بھیجاگیااور گریجویشن کے بعد تربیت کیلئے اس بیچ کے ساتھ سول سروسز اکیڈیمی بھیجا گیا جو مقابلے کے امتحان کے بعد منتخب ہوا تھا۔ اس طرح آپ لوگ دسمبر 1982میں ہمارے بیچ کے ساتھ ٹریننگ میں شامل ہوگئے۔ میں اُن دنوں سے تمہیںبہت اچھی طرح جانتا ہوں صرف اس لئے نہیں کہ ہم بیچ میٹ تھے بلکہ اس لئے بھی کہ ہم ایک ہی کمرے میں رہتے تھے۔تم ایک بائیس سالہ خوبرو پٹھان تھے!تھوڑے سے فربہ اندام مگر گورے چٹّے، خوش لباس، ذہین، خوش اطوار، خوش گفتار اور پسندیدہ عادات کے مالک۔ ہم صبح پی ٹی اور پریڈ کیلئے اور شام کو گھڑسواری کیلئے اکٹھے جایا کرتے تھے۔ ہم سکواش بھی اکٹھے کھیلتے تھے۔ اس کھیل کی جانب تم نے ہی مجھے راغب کیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ سکواش کورٹ میں تم اپنی بھرپور قوت کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔
ہمیں معلوم تھا کہ تم ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے ہو۔ ان دنوں مہینے کے آخر میں ملنے والا چار سو چوالیس روپے کا چیک اگرچہ ایک معقول رقم ہوتی تھی مگر اس سے پورا مہینہ گزارنا مشکل ہوتاتھا اور جب مہمانوں کی تعداد اور ریستورانوں کے چکر بڑھ جاتے تھے تو سارے اضافی اخراجات تم بڑی فراخ دلی سے برداشت کرتے تھے جس سے تمہارے والدین کی مالی خوشحالی کا پتہ چلتا تھا۔
اکیڈیمی سے تربیت مکمل کرنے اور پھر اسلامی سربراہی کانفرنس میں فرائض سرانجام دینے کے بعد تمہاری NWFP میں اور میری پنجاب میں تعیناتی ہوگئی۔ مگرہمارا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ برقرار رہا۔ اس کے بعد ہماری شادیاںہوگئیں اور پھر ہم بچوں کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے رہے۔ تمہارا پروفیشنل کیریئر بہت اچھا رہا اور خاص طور پر جب تم پانچ سال کیلئے کویت میں لیبر اتاشی کے طور پر تعینات رہے تو تمہارے بقول تمہیں مشاہرے میں سے معقول رقم بچ گئی جو تم نے کسی کاروبار میںinvestکردی ۔ مجھے یاد ہے تم نے ایک بار یہ بھی بتایا تھا کہ گدون میں لگایا ہوا تمہارا پیکنگ کا کارخانہ کامیابی سے چل رہا ہے۔ خدانے تمہیں بہت اچھی رفیقۂ حیات اور بہت پیارے بچوں سے نوازاتھا۔ آخری بار جب ہم تمہارے ہاں آئے تھے تو اس وقت تم فرنٹیئرکانسٹیبلری کے کمانڈنٹ تھے اور پھر اُس وقت تمہیں تمہارے خوابوں کی تعبیرمل گئی جب تمNWFPکے انسپکٹرجنرل پولیس مقرر کردئیے گئے۔ اس طرح تم نے وہ منزل حاصل کرلی جو ہمارے بیچ کے بہت کم افسر حاصل کرسکے۔ اس منزل تک پہنچنے کیلئے تم نے بلاشبہ بڑی تگ ودَو کی۔ اس عہدے کا حصول یقیناًتمہارے اور تمہاری فیملی کیلئے انتہائی مسرت اور فخر کا باعث تھا اور جب تمہیں سب کچھ مل گیا اورتم اپنی کامیابیوں پر پوری طرح مطمئن تھے تو تمہارے متعلق مالی بدعنوانی میں ملوث ہونے کی باتیں سنائی دینے لگیں۔ پہلے تو ہم نے ایسی باتوں کو محکمے ہی کے چند شرارتی عناصر کی پھیلائی ہوئی بے بنیاد باتیں سمجھ کر نظرانداز کردیا۔ لیکن جلد ہی جب یہ افواہیں ٹھوس الزامات کی صورت میں سامنے آگئیں اوراس صوبے میں تعینات سینئر پولیس افسروں نے بھی اس بارے میں اعلانیہ اظہارِ خیال کرنا شروع کردیا تو پھر سب کچھ واضح ہوگیا۔ صرف تقدیر کا فیصلہ ہونا باقی رہ گیا۔ میرے پیارے دوست ملک نوید، میں پھر تم سے پوچھتا ہوں تم نے ایسا کیوں کیا؟ تمہاری آنکھوں پر کس چیزنے پردہ ڈال دیا ؟کس چیز نے تمہیں اندھا کردیا؟ کیا تم نہیں جانتے تھے کہ تم پر تمہارے ملک، تمہارے محکمے، تمہاری فیملی اور تمہارے دوستوں کے بھی حقوق ہیں تم نے انہیں کیوں فراموش کردیا؟ کوئی ایسا لالچ یا تحریص میرے لئے ناقابل تصّور ہے جو تمہاری طرح اعلیٰ مقام پر تعینات کسی شخص کو اس طرح بے حس کردے کہ وہ اس کے نتیجے میں آنے والی ذلّت کا اندازہ نہ کر سکے۔ تم نے یہ کیوں نہ سوچا کہ تمہارے اس فعل سے تمہاری ذات، تمہاری فیملی اور تمہارے محکمے کو کتنا بڑا دھچکا لگے گا۔کیا تمہارا خاندان اب بھی تمہاری کامیابیوں پر فخر کرسکے گا؟ کیا تمہارے بچے اپنے سکولوں اور کالجوں میں اب بھی اپنے دوستوں کے سامنے سراونچا کرکے چل سکیں گے؟ کیا تمہارے دوست (جنہیں تمہارے اس فعل سے شدید صدمہ پہنچا ہے) اب کبھی تمہارے بارے میں اچھی رائے کا اظہار کرسکیں گے؟ ہرگز نہیں!یہ بات میرے لئے ناقابلِ فہم ہے کہ تم یہی سمجھتے رہے کہ تمہارا یہ جرم کبھی ظاہر نہ ہوگا اور تمہارا اثر ورسوخ ہمیشہ تمہیں تحفظ دیتا رہے گا۔ چلو ایسا ہی سہی! مگر تم نے یہ کیوں نہ سوچا کہ جلد یا بدیر تمہیں سب سے بڑی عدالت میں تو پیش ہونا ہی ہے۔ اپنے خالق کی عدالت میں! تم نے رشوت لینے جیسی گھٹیا حرکت کرنے سے پہلے اس سے ہونے والے نفع ونقصان کے بارے میں ضرور سوچا ہوگا۔ تم نے پیسے کے لالچ اور ہوس میں اپنے بچوں اور اپنی فیملی کی عزت کونیلام کردیا۔ ایساکرکے تم نے اپنے آپ کو میرے جیسے قریبی دوست کی نظروں سے بھی گرا دیا ہے! تمہارے معصوم بچوں کے بارے میں سوچ کر میرا دل پھٹتا ہے کہ اب وہ اس ظالم سماج کا کیسے سامنا کریں گے! اچھے والد توبچوں کیلئے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ ان کے سامنے کسی معمولی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی بھی نہیں کرتے تاکہ بچوں کی نظروں میںوالد کا امیج خراب نہ جائے۔ مگر تم نے اپنے بچوں کے سامنے اپنا امیج خود ہی مسخ کرڈالاہے۔ میرے دوست !میں اس لئے دل گرفتہ ہوں کہ تمہارے قبیح فعل نے جو سیاہی تمہارے منہ پر ملی ہے اس کے کچھ چھینٹے پوری پولیس سروس کے دامن پر بھی لگے ہیں۔ لہٰذا اس بناء پر ملک نوید !میں تمہاری پُرزورمذمت کرتا ہوں اور ان کی بھی جو تم سے پہلے اس قابلِ مذمت فعل یعنی کرپشن میں ملوث رہے ہیں اور ان کی بھی جو آئندہ تمہارے پیروکار بنیں گے۔!!
فقط جہانگیر مرزا
جہانگیر مرزا صاحب (جو خود بلاشبہ دیانتداررہے ہیں) کا خط پڑھنے کے بعد تمام زیرِ تربیت پولیس افسروں سے ان کے خیالات سنے گئے۔ کسی نے کہا’’شدید صدمے سے دوچار دوست کے آنسو لفظوں میں ڈھل گئے ہیں ۔‘‘ کسی نے کہا ’’ خط کا ایک ایک لفظ تازیانہ بن کر برس رہا ہے۔ ملک نوید کو ایک دوست کے اس خط نے عمر قید سے بڑی سزا سنادی ہے‘‘۔ کسی نے کہا کہ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ پولیس سروس میں آج بھی Peer Pressure بڑا مضبوط ہے۔ کاش دوسری سروسز اور سیاست میں بھی اپنی پارٹی کے دوستوں کو ایسے خط لکھنے کا کلچر پیدا ہو‘‘۔کسی نے کہا ’’ اگر آئندہ بھی کوئی پولیس افسر کرپشن میں ملوث ہوکرپولیس سروس کو بدنام کرے گاتو اس کے دوستوں میں سے ہی اسے خط لکھنے والے بھی ضرور موجود ہوں گے‘‘بہت سے زیرِ تربیت افسروں کا کہنا تھا کہ ’’آج کی نشست میں integrity اور character کے بارے میں ہماری ٹریننگ مکمّل ہوگئی ہے‘‘۔نئے سال کے پہلے روزآج اسلام آباد میں ملک بھر کے پولیس شہداء کی یاد منائی جارہی ہے تو اے قافلۂ شہداء کے وارثو! آؤ مل کر اس موقع پر یہ عہد کریں کہ ہمارے بھائیوں اور بیٹوں نے پولیس کے جس دامن کی آلودگیاں اپنے خون سے صاف کی ہیں ہم اپنی سروس میں اس پر کوئی داغ نہیں لگنے دیں گے، اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو ہم اپنے شہیدوں کے خون سے بے وفائی کے مجرم ہوں گے۔
تازہ ترین