پاکستان اور چین کی دوستی، تعلقات کی اہمیت و وسعت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ دونوں ممالک کے تعلقات 75 برس سے زاید عرصے پر محیط ہیں اور وقت کے تمام امتحانات پر پورے اُترے ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں کی سرحدیں چین کے ساتھ ملتی ہیں اور یہ خطّہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جب کہ بدلتے علاقائی و بین الاقوامی حالات میں اِس علاقے کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ چین نے معاشی و اقتصادی لحاظ سے غیرمعمولی ترقّی کی، جس میں زور افزوں بڑھوتری ہی دیکھی جا رہی ہے۔
آج دنیا کا کوئی بھی مُلک چین کی معاشی تعمیر و ترقّی کسی صُورت نظر انداز نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں فوجی حکومت ہو یا جمہوری، چین کے ساتھ تعلقات ہمیشہ سے خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصّہ رہے ہیں، کیوں کہ چین نے بھی ہمیشہ پاکستان کی معاشی و معاشرتی ترقّی اور داخلی استحکام میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، جب کہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہمیں مختلف ایشوز پر چین کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ اور پھر 2013ء میں تو پاک، چین تعلقات کی نوعیت اُس وقت یک سَر بدل گئی، جب دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی راہ داری (CPEC:Chaina Pakistan Economic Corridor) قائم کرنے جیسا منصوبہ سامنے آیا۔
پاک، چین اقتصادی راہ داری(سی پیک)چینی صدر شی جن پنگ کا آئیڈیا تھا، جس سے متعلق اُنہوں نے کئی پاکستانی حُکم رانوں سے مشاورت کی۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دَور میں اِس پر بنیادی گفت و شنید ہوئی، پھر آصف علی زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں کئی مرتبہ چین کے دَورے کیے۔ اپریل 2015ء میں صدر شی جن پنگ کے دورۂ پاکستان کے دَوران سی پیک منصوبوں سے متعلق46 ارب ڈالرز کی 51 یاد داشتوں پر دستخط کیے گئے۔ نومبر2017 ء میں لانگ ٹرم معاہدے کی مدّت کے سمجھوتے پر دستخط ہوئے،جس کا دورانیہ 2017 ء سے2030 ء تک ہے۔
اِس سمجھوتے کا پہلا مرحلہ2020 ء تک مکمل ہونا تھا۔ درمیانی مرحلے کے لیے2025ء تک کا وقت طے کیا گیا تھا،جب کہ تیسرا اور آخری مرحلہ2030 ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچنا ہے۔ پاک، چین اقتصادی راہ داری کا مقصد پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کی گہرے سمندر کی گوادر بندرگاہ کو چین کے مغربی علاقے سنکیانگ سے منسلک کرنا ہے۔ منصوبے کے تحت 36ارب ڈالر توانائی کی پیداوار پر خرچ ہوں گے۔ چین کے علاوہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے بھی قرضے کی سہولت میسّر ہو گی اور توانائی کی پیداوار کےبیش ترمنصوبے خیبر پختون خوا میں مکمل ہوں گے، جب کہ توانائی کے ساتھ صنعتی علاقوں اور ڈرائی پورٹس کی تعمیر سے محصولات میں خاطرخواہ اضافہ ہوگا۔
اِس منصوبے میں پاکستان کی 2500 کلومیٹر طویل شاہ راہوں کی تعمیر و مرمّت بھی شامل ہے، پھرریلوے ٹریک بہتر بنا کر ریل گاڑیوں کی رفتار160 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بڑھائی جاسکے گی۔ یہ راہ داری گوادر سے ژنگ جہانگ اورمغرب میں کاشغر تک ملائی جائے گی اور تین ہزار کلومیٹر طویل اِس منصوبے کے تحت مستقبل میں گوادر اور سنکیانگ کے درمیان نئی شاہ راہوں اور ریل رابطوں کی تعمیر کے علاوہ گیس اور تیل کی پائپ لائنز بھی بچھائی جائیں گی۔ منصوبے کے لیے زیادہ تر رقوم چینی سرمایہ کاری کی صُورت مہیّا کی جارہی ہیں،لیکن ان مالی وسائل میں وہ نرم قرضے بھی شامل ہیں، جو چین نے پاکستان کو فراہم کیے۔
اِس راہ داری منصوبے کو دس سال کا عرصہ مکمل ہوچُکا ہےاوراس کے تحت19 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے 27منصوبے بھی مکمل ہوچُکے ہیں، جب کہ35 ارب ڈالرز سے زاید کے63 منصوبے ابھی باقی ہیں۔ اِن منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنےوالی کمپنی،چائنا تھری گورجس ساؤتھ ایشیا انویسٹمنٹ لمیٹڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق، مکمل ہونے والے منصوبوں میں سے11کا تعلق توانائی کے شعبے سے ہےاورسات پراجیکٹ پاکستان کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری لانےکےلیےتھے۔ گوادر میں بندرگاہ کے تین منصوبوں کے علاوہ چھے فلاحی منصوبے بھی مکمل ہوچُکے ہیں۔
چین مسلسل آٹھ سالوں سے پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ 2022ء میں دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کا حجم 26.5 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چُکا تھا اور اب پاکستان کے پہلے سب وے اور پہلے انٹیلی جنٹ ایکسپریس وے کے کچھ حصّےمکمل کر کے ٹریفک کے لیے کھول دئیے گئے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کے تحت فلیگ شپ منصوبے کی حیثیت سے سی پیک نے توانائی، نقل و حمل اور صنعتی تعاون کو اہمیت دی ہے، جس سے 2022ء کے اختتام تک2 لاکھ30 ہزار سے زائد ملازمتیں پیدا ہوئیں۔
بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے بڑے منصوبوں، گوادر بندرگاہ اوردیگرسماجی واقتصادی ترقّی سے متعلق منصوبوں کی تکمیل سے پاکستان کے عوام کو ٹھوس فوائد حاصل ہوئے، کاروبار اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہوئے، پھر سی پیک سے پاکستان ریلوے کے نظام میں جدّت لائی گئی ہے اور چین کی مدد سے لاہور میں تعمیر کیے جانے والے منصوبے، اورنج لائن میٹرو کی بدولت پاکستان میٹرو ریلوے کے دور میں داخل ہو چُکا ہے۔ سی پیک ہی کے تحت ریلوے کے سب سے بڑے منصوبے’’ مین لائن وَن‘‘ (ایم ایل وَن ) کی منظوری بھی ہوچُکی ہے۔ یہ منصوبہ 6.8 ارب ڈالر کی لاگت سے9 سال کی مدّت میں2030 ء میں مکمل ہوگا۔
ایم ایل وَن منصوبے کے تحت کراچی سے پشاور اور ٹیکسلا سے حویلیاں تک 1872کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک اَپ گریڈ اور ڈبل کیا جائے گا اور اس نئے اور بہتر ٹریکس سے مسافر ٹرینوں کی رفتار110سے بڑھ کر160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوجائے گی۔ تمام ٹریکس کے گرد حفاظتی باڑ اور راستے میں جدید ٹیلی کام سگنلز کی تنصیب ہوگی، جب کہ ٹرینوں کی یومیہ آمدورفت 34 سے بڑھ کر 171 ہوجائے گی۔ منصوبے کے تحت فریٹ ٹرینز کے لوڈ میں ایک ہزار ٹن اضافے سے وزن کپیسٹی24 ہزار سے بڑھ کر 3400ٹن ہوجائے گی۔ علاوہ ازیں، حویلیاں کے قریب جدید خصوصیات کی حامل ڈرائی پورٹ بھی تعمیر ہوگی۔
یاد رہے، 2030 ء میں مکمل ہونے والے ایم ایل وَن منصوبے پر 90 فی صد پاکستانی اور10 فی صد چینی ماہرین اور لیبر کام کرے گی،اور یوں منصوبے سے2 لاکھ تک مقامی افراد کو روزگار کےمواقع میسّر آئیں گے۔ منصوبے کے تحت174 کلومیٹر ریلوے ٹریک پشاور سےنوشہرہ اور راول پنڈی پہنچے گا، راول پنڈی سے لالہ موسیٰ کا105 کلومیٹر اور خانیوال سے پنڈورا کا52 کلومیٹر طویل ڈبل ٹریک بنے گا، جب کہ لاہور سے لالہ موسیٰ کا132 کلومیٹر اور لاہور سے ملتان کا 339 کلومیٹر کا ڈبل ٹریک بھی مکمل کیا جائے گا۔ منصوبے کے مطابق نواب شاہ سے 183 کلومیٹر ٹریک روہڑی سے جا ملے گا اور حیدرآباد سے کیماڑی کا182 کلومیٹر کا ٹریک بھی بنایا جائے گا، جب کہ حیدرآباد، ملتان کے درمیان طویل ترین749 کلومیٹرکا ٹریک بھی ڈبل اور اَپ گریڈ ہوگا۔ اِسی طرح سی پیک کے تحت دیگر منصوبوں پر کام جاری ہے۔
معاشی ماہرین اِس منصوبے کو پورے خطّے کے لیے گیم چینجر قرار دے رہے ہیں، لیکن حب، گوادر سمیت بلوچستان کے عوام اور سیاسی و سماجی حلقوں میں پائے جانے والے تحفّظات تاحال مکمل طور پر دُور نہیں کیے جا سکے۔ کبھی مغربی رُوٹ کی تبدیلی پر اعتراضات اُٹھائے جاتے ہیں، توکبھی بلوچستان کےحصّے کے پراجیکٹس کی پنجاب منتقلی پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ سی پیک منصوبے کے دَوران بلوچستان میں بدامنی میں تیزی آئی، سیکڑوں سیکیوریٹی اہل کار اور عام شہری اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو چُکے ہیں، جب کہ حکومت کی جانب سے تخریب کاری کے ہر دوسرے بڑے واقعے کو بھی سی پیک کے خلاف سازش سے تعبیر کیاجاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سی پیک منصوبہ بلوچستان ہی کی وجہ سے رُوبہ عمل آیا، جب کہ یہاں کی سیکیوریٹی فورسزاور عوام نے بھی گراں قدر قربانیاں دیں، اگر اس کے باوجود اس میگا منصوبے کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکےاور اُن کے تحفّظات برقرار رہے، تو پائے دار ترقّی کا حصول ناممکن ہوگا۔ معروف ماہرِ معاشیات اور سابق مشیر وزیرِاعلیٰ بلوچستان، ڈاکٹر قیصر بنگالی کا سی پیک سے متعلق کہنا ہے کہ ’’یہ منصوبہ پاکستان کا معاشی جغرافیہ بدل کر رکھ دے گا اوراِس سے پاکستانی معیشت کو بیش بہا فائدہ پہنچے گا، لیکن ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس ضمن میں بلوچستان کی معاشی محرومیوں کومدِّنظر رکھتے ہوئے اقدامات کیے جائیں۔
اگر بلوچستان اورخیبر پختون خوا کے پس ماندہ علاقوں کو ترقّی سے ہم کنار کرنا ہے، تو اضلاع کے مابین سڑکوں کا جال بچھایا جائے، جدید صنعتی انفرااسٹرکچروضع کیاجائے اور مقامی افراد کو پورٹ مینجمنٹ سےمتعلق آگاہی اور مناسب تربیت فراہم کی جائے۔‘‘مقامی تجزیہ کاروں کے مطابق ’’سی پیک کے مغربی رُوٹ کے مختلف منصوبوں میں مقامی آبادی کو پوری طرح آن بورڈ لینے اور اُن میں ترقیاتی عمل کا احساسِ ملکیت پیدا کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا جانا ضروری ہے، کیوں کہ اگر مقامی آبادی کو الگ تھلگ رکھا گیا اورسیاسی جماعتوں کے سنجیدہ تحفّظات پر توجّہ نہ دی گئی، تو ترقی وخوش حالی کا عمل متاثر ہونے کا خدشہ موجود رہے گا۔
گوادر کو مُلک کے دیگر علاقوں سے منسلک کرنے کے لیے شاہ راہوں کی تعمیر کا منصوبہ بھی بنایا گیا، جس پر تیزی کے ساتھ عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اور اس کے ساتھ پوری قوم یک سُو ہوکر اِس معاملے میں حکومت کےساتھ کھڑی ہو اور برادر مُلک، چین کو واضح پیغام دیا جائے کہ ہم اُس کے تعاون کو نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، بلکہ اِن منصوبوں کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دُور کرکے رہیں گے۔
یہ منصوبہ تمام صوبوں اور پورے پاکستان کا ہے، لہٰذا اِس سےتمام صوبوں کو فائدہ پہنچنا چاہیے۔ کسی بھی حکومت کے لیے اِتنا ہی کریڈٹ کافی ہوگا کہ سی پیک کو اس کی رُوح کے مطابق اور بروقت مکمل کر لیا جائے۔ نیز، اس منصوبےکو اچھی اور معیاری رابطہ سڑکیں بنا کر چاروں صوبوں، اسلام آباد، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے منسلک کیاجائے۔ اور کسی تنازعے یا اختلاف کاباعث بننےوالی باتوں سے گریز کیا جائے۔‘‘
سی پیک… پاکستان، چین دونوں کے لیے یک ساں اہمیت کا حامل ہے
محفوظ علی خان(سابق سیکرٹری خزانہ، بلوچستان)
سی پیک (CPEC) دراصل ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ انیشیٹیو کڑی کا ایک اہم ترین پراجیکٹ ہے۔ صدر شی جن پنگ نے2013ء میں قازقستان میں اس پروگرام کا اعلان کیا تھا۔ یہ چین کا دنیا سے اقتصادی تعلقات بڑھانے کی طرف ایک اہم قدم تصوّر کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ امر پیشِ نظر رہے کہ اقتصادی راہ داری، کسی خاص جغرافیائی حدود میں اقتصادی ترقّی کے لیے تجارت اور صنعتی سرگرمیوں کے ایک مربوط نظام کو کہتے ہیں۔ یہ راہ داریاں، کسی ایک مُلک میں بھی بنائی جا سکتی ہیں اور اِنہیں مختلف ممالک سے بھی منسلک کیا جاسکتا ہے۔ اِن کا ایک بڑا مقصد متوازن ترقّی کے ذریعے علاقائی اقتصادی فرق کو دُور کرنا بھی ہوتا ہے۔
اس کا پہلا تجربہ ’’Greater Mekong subregion Corridor‘‘ کے طور پر ایشین ڈیویلپمنٹ بینک نے مشرقی ایشیا میں نہایت کام یابی سے کیا۔ جہاں تک سی پیک کی بات ہے، تو یہ راہ داری پاکستان کے لیے اقتصادی ترقّی کے بھرپور مواقع لیے ہوئے ہے، لیکن ساتھ ساتھ یہ چین کے لیے بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ اُسے درآمدات کے لیے آبنائے ملاکا کے ذریعے 12900 کلو میٹر کا طویل سمندری راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ اِن درآمدات میں اگر صرف تیل ہی کے اعداد وشمار دیکھ لیے جائیں، تو چین کو 6.3 ملین بیرل تیل درآمد کرنے کے لیے یومیہ18 ملین ڈالرز خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
اگر وہ گوادر کے راستے تیل منگواتا ہے، تو اُسے وسطی چین تک 3626 کلومیٹر اور سنکیانگ تک لے جانے کے لیے2295 کلو میٹرطےکرناہوگا اور اِس طرح اُسے یومیہ6 ملین ڈالر کی بچت ہوگی۔ یاد رہے، چین کی آدھی برآمدات بھی بحری راستے ہی سے مغربی ممالک تک جاتی ہیں۔ پھرچین نے افغانستان میں تانبےکی کان میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے، لیکن اگر وہ یہ تانبہ وخان کوریڈور کے ذریعے اپنے ہاں لے جاتا ہے، تو یہ اقتصادی طور پراُسے بہت منہگا پڑے گا۔ اِس طرح جہاں سی پیک سے پاکستان کو اقتصادی ترقّی کی صُورت فائدہ ہوگا، وہیں چین بھی اس سے متعدد فوائد حاصل کرے گا۔
جب یہ راہ داری منصوبہ شروع کیا گیا، تو دو طرح کے خیالات سامنے آئے۔ ایک طبقہ چین کی اِس سرمایہ کاری کومثبت انداز میں دیکھ رہا تھا اور اُس کا خیال تھا کہ پاکستان میں اِس سے بڑی غیر مُلکی سرمایہ کاری ماضی میں کبھی نہیں ہوئی۔ جب کہ دوسرا طبقہ اسےچین کے اقتصادی تسلّط کے طور پردیکھتا ہے اور اس کے ثبوت کے طور پر سری لنکا کی بندرگاہ کی مثال دی جاتی ہے کہ اُسے کس طرح قرضوں کی عدم ادائی پر بندرگاہ چین کےحوالے کرنی پڑی۔ اگر معروضی حالات دیکھیں جائیں، تواِتنی بڑی بین الاقوامی سرمایہ کاری میں جہاں بے شمار فوائد ہیں، وہیں مختلف طرح کے چیلنجز بھی درپیش ہیں۔
چین نے اِس راہ داری منصوبے پر عمل درآمد کی راہ میں تین اقسام کے ممکنہ خطرات کی نشان دہی کی تھی۔ پہلا خطرہ تو علاقائی، قومی سیاست میں رسّہ کشی اوراس سے وابستہ سیکوریٹی مسائل تھے، پھر قدرتی آفات اور تیسرا نکتہ یہ اُٹھایا گیا تھا کہ پاکستان بنیادی اقتصادی رکاوٹوں پر کس حد تک قابو پا سکتا ہے؟یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں تھی کہ علاقائی ممالک، جن کے تجارتی مفادات متاثر ہوسکتے تھے، اِس منصوبے سے خائف ہوں گے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کریں گے۔ چوں کہ گوادر اِس علاقے کی واحد گہرے پانی کی بندرگاہ ہے، اِس لیے اِس کی ترقّی کی وجہ سے دُبئی کی پورٹ علی اور ایران کی چا بہار اور بندرعباس پر منفی اثرات مرتّب ہونا قدرتی امر ہے۔