السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
کہیں کا نہیں چھوڑا
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں متبرّک صفحاتِ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ شامل تھے، جنہیں پڑھ کر دلی سکون ملا۔ واقعی گلوبل وارمنگ نے سب کچھ اتھل پتھل کر دیا ہے۔ ’’بارٹر ٹریڈ‘‘ سے متعلق صد فی صد درست فرمایا کہ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور معیشت کی مجبوری بھی۔ ’’ڈالر راج ڈگمگا رہا ہے؟‘‘ پڑھ کر دلی دُعا کی کہ اللہ کرے، یہ زمین بوس ہی ہوجائے اور دنیا بھر میں ہمارے شروع سے بہترین دوست مُلک چِین کی کرنسی کا راج ہو، تاکہ ہمیں بھی اِس کے کچھ ثمرات حاصل ہوں کہ ڈالر نے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔
یوں بھی چِین ایک امن پسند مُلک ہے۔ یہ بلاوجہ کسی سے پنگا نہیں لیتا، ہاں اگر کوئی اس کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے، تو پھر چھوڑتا بھی نہیں۔ ’’سمندر یا خوابوں کا مدفن‘‘ بڑی دل دہلا دینے والی تحریر تھی۔ خدارا! اپنے وطن میں روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرلیں اور اگر دیارِغیر جانا ہی ہے، تو قانونی طریقے سے جائیں تاکہ اپنے اور اہل وعیال کے لیے خوشیوں کا سبب بنیں، نہ کہ دُکھ اور اذیّت کا۔ ’’عالمی ادبی شہ پارے‘‘ مضمون واقعی بہت معلوماتی تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن میں کون سی جماعت برتری حاصل کرتی ہے۔ اللہ کرے، جو بھی پارٹی برسرِاقتدار آئے، وہ صرف اور صرف عوام کی بھلائی کے اقدامات کرے۔ (آمین) (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: اللہ خیر کرے، آج تو ضرورت سے کچھ بہت زیادہ ہی سمجھ داری کی باتیں کرلیں۔ امّاں یا بیگم سے کہیے گا، آپ کی نظر اُتارلیں۔
’’کہکشاں‘‘جمع کرنے کا کریڈٹ
عموماً لوگ دجّال سے تو واقف، لیکن اس کی فتنہ انگیزیوں سے نابلد تھے، جب کہ ایک طبقہ تو اِسے صرف قصّے کہانیوں کا حصّہ سمجھتا تھا۔ سو، ’’قصص القرآن‘‘ کے اِن سبق آموز واقعات نے پڑھنے والوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ قرآن کو محض ثواب کی کتاب سمجھنے والوں کے لیے قرآن فہمی کا یہ بہترین موقع ہے، لیکن مجھے ڈر یہ ہے کہ شیطان کے بعد، تم لوگوں نے یہ جو دجّال کی اصلیت ظاہر کرنے کا بیڑہ اُٹھایا ہے، تو کہیں شیطان اور دجّال کے پیروکاروں، چیلوں کے تن بدن میں آگ نہ لگ جائے اوروہ خدانخواستہ تم لوگوں کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں۔
تمھارے فادرز ڈے اور عید ایڈیشن کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔ افرادی قوّت کی بتدریج کمی کے باوجود میگزین کا اعلیٰ معیار، بہترین تحریروں کا چنائو اور شان دارپریذنٹیشن نے جریدے کو تاحال چارچاند لگا رکھے ہیں، جو یقیناً تمہاری قابلیت، انتظامی صلاحیت، ہارڈ ورکنگ اور کلوز سُپرویجن ہی کے مرہونِ منّت ہے۔ میرے خیال میں تو اِس وقت جریدے کے بیش تر لکھاری فِری لانسرز ہی ہیں اور یقیناً اِس ساری ’’کہکشاں‘‘ کو جمع کرنے کا کریڈٹ بھی تم ہی کوجاتا ہے بلکہ مجھے تو لگتا ہے، یہ جو تم خطوط کے جواب دیتے ہوئے خواہ مخواہ، بلاوجہ کی ڈانٹ ڈپٹ کرتی ہو، یہ بھی کسی مقصد کے تحت کرتی ہو۔ (شاہدہ تبسّم، ڈی ایچ اے، کراچی)
ج: آپ کی تمام باتیں سو فی صد درست ہیں، پڑھ کے سخت حیرت ہورہی ہے کہ اتنے اندر کی باتیں بھلا آپ کیسے جان گئیں۔ ہاں مگر، ہم اِس خواہ مخواہ، بلاوجہ کی ڈانٹ ڈپٹ کی وضاحت ضرورکرناچاہیں گے۔ دراصل آپ یا دیگر مہذّب قارئین اندازہ ہی نہیں لگا سکتے کہ ہمیں بعض اوقات کس نوعیت کے خطوط موصول ہوتے ہیں، کچھ خطوط پڑھ کے تو لکھنے والے کے منہ پرتھپڑ جڑ دینے کا جی چاہتا ہے، ڈانٹ ڈپٹ تو بہت معمولی بات ہے(اِسی لیے اب ہم ایسے خطوط کی ایک آدھ سطر پڑھتے ہی ٹکڑے ٹکڑے کر کے اُسےاُس کی آخری آرام گاہ ’’ڈسٹ بِن‘‘ تک پہنچا دیتے ہیں) جب کہ برملا ڈانٹ ڈپٹ والوں میں سے بھی زیادہ تر تو ’’مستحق‘‘ ہی ہوتے ہیں کہ خط کی ایڈیٹنگ کے سبب قاری کو اندازہ نہیں ہو پاتا۔ ہاں البتہ ’’کچھ‘‘ کے لیے یہ ضرورایک پیشگی تنبیہی اشارہ ہوتا ہے۔
میدان چھوڑ گئے!
یہ یقیناً آپ کی حُسنِ کارکردگی، علمی فضلیت ہی کے سبب ہے کہ بڑے بڑے نام وَر فصلی بٹیرے، ماہر کلاکار یا تو میدان چھوڑ گئے یا پھر ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ ہاں البتہ شری مُرلی چند، زاہد حسین، خادم ملک، پرنس افضل شاہین، رونق افروز، شہزادہ نقش بندی اور ضیاء الحق قائم خانی تاحال بزم کا حصّہ ہیں۔’’ قصص القرآن‘‘ سلسلے کی اشاعت کےلیے آپ کا بےحد شکریہ۔ یہ یہود و نصاریٰ امریکا، برطانیہ، اسرائیل وغیرہ اِسی کے انتظار میں ہیں۔ اللہ پاک ہمیں محفوظ و مامون رکھے۔
منور مرزا عالمی ہی نہیں، مُلکی حالات پر بھی کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔ آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہنے کا بہترین نسخہ پیش کیا، مگرکوئی عمل درآمد کرنے والا بھی تو ہو۔ ڈاکٹر میمن نے ہیپاٹائٹس سے مفت آگاہی دے کر ممنون کیا۔ مدثر اعجاز ’’وراثت‘‘ کے ذریعے بہترین سبق دے گئے۔اس بار کئی صاحبان بزم کی زینت تھے، جب کہ ضیاء الحق قائم خانی سُرخیل ٹھہرے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل و ضلع کوٹ ادّو، مظفر گڑھ)
ج: لڑکی! یہ تمھاری غلط فہمی ہے کہ وہ ماہر کلاکار میدان چھوڑ گئے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ بہت بے آبرو ہو کر تِرے کوچے سے ہم نکلے۔ لیکن وہ ’’فصلی بٹیرے‘‘ خُود ہرگز نہیں نکلے، ہم نے نکال دیئے ہیں۔ وہ تو ہنوز موجود ہیں، بس تمھاری نظروں سے اوجھل اِس لیے ہیں کہ اب اُن کی مُدتِ میعاد اور ہماری قوتِ برداشت ختم ہوگئی ہے۔ وہ تو وقتاً فوقتاً اپنی لن ترانیوں کے ساتھ پھر آ ہی دھمکتے ہیں، مگر اب اُنکے خطوط سے صرف ہماری بھوکی بلّی (ڈسٹ بِن) کی پیٹ پوجا ہی ہو پاتی ہے۔
بےحد خوش ہوئیں
تاحیات خوشیوں کے جُھولوں میں جھولیں! میری بیوی کی غزل شائع کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ میری اہلیہ شدید علیل ہیں۔ 4سال سے زیرِعلاج ہیں۔ سنڈے میگزین میں اپنی غزل دیکھ کر بےحد خوش ہوئیں، میری شکل دیکھ کر مُسکراتی رہیں۔ آپ کا مَیں جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے۔ (سیّد سخاوت علی ہاشمی جوؔہر)
ج:اِس قدرممنونیت کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔ غزل قابلِ اشاعت تھی، سو باری آنے پر شائع کر دی گئی۔
بذریعہ ای میل آگاہ کریں
مجھے نہیں معلوم، آپ میرا آرٹیکل پسند آنے پر کب اور کس صفحے پر شائع کریں گی۔ آیا صفحہ تعلیم پر یا سنڈے میگزین میں۔ لیکن، آپ سےگزارش ہےکہ آرٹیکل شائع ہونے پر مجھے بذریعہ ای میل آگاہ ضرورکیجیے گا۔ مزید یہ کہ صفحہ تعلیم، صفحہ نوجوان اور دیگر صفحات کے ای میل ایڈریسزکیوں نہیں دیے گئے ہوتے، اگر ای میل کے ذریعے کوئی تحریر بھیجنی ہو توسخت مشکل ہوتی ہے۔ براہِ مہربانی اِن صفحات کے ای میل ایڈریسز بھی پرنٹ کردیا کریں، ہمیں آسانی ہوجائے گی۔ (نام نہیں لکھا)
ج:خُود تو آپ نے خط کے ساتھ اپنا نام لکھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ اور ہم سے توقع ہے کہ آرٹیکل شایع کرنے کے بعد بذریعہ ای میل آگاہ بھی کیا جائے۔ تواطلاعاً عرض ہے کہ ہم ایسے لکھاریوں کی قابلِ اشاعت تحریریں بھی شائع کرنے کے حق میں نہیں کہ جو جریدے کے مطالعے کی زحمت نہیں کرتے۔ اور ہماری ذمّے داریاں صرف ’’سنڈے میگزین‘‘ تک محدود ہیں اور ہم اِسی سے متعلق کسی بھی سوال کا جواب دینے کے پابند ہیں۔ باقی صفحات سے متعلق آپ کی شکایت آگے تو بڑھا سکتے ہیں، لیکن دُور کرنے کے مجاز نہیں۔
بڑی خوشی ہوئی
سنڈے میگزین میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘، ’’حالات و واقعات‘‘، ’’پیارا گھر‘‘ اور ’’سنڈے اسپیشل‘‘ کا بصد شوق مطالعہ کیا۔ ہم آپ کے قابلِ قدر لکھاریوں کے دل سے معترف ہیں اورشکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس قدر خُوب صُورت تحریریں عنایت کررہے ہیں۔ سرورقِ،اسٹائل کی ماڈل، سحرش کے ملبوسات کے حوالے سے آپ کارائٹ اَپ کمال تھا۔ ’’جہان دیگر‘‘، شُکر ہے کہ ایک ہی قسط میں پورا ہوگیا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں اُمِّ ایمان کےپاپا اور محمّد محسن شاد کی والدہ کی داستان پڑھ کردل خوش ہوا۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں ضیاء الحق قائم خانی کے نام پورے خاندان نے پیغام بھیجا، ماشاءاللہ۔ اور ہاں، گوشئہ برقی خطوط میں سلیم راجہ کا خط پڑھنےکوملا، بڑی خُوشی ہوئی۔
زیادہ خُوشی اِس بات کی ہوئی کہ جناب خیریت سے ہیں۔ اور آپ نے گوشئہ برقی خطوط میں محمّد اسماعیل کوجوجواب دیا، یہ درس توآپ ہر ہفتے دو ہفتے بعد دیتی رہتی ہیں، اس کا کوئی مستقل حل بھی ہونا چاہیے۔ ضیاء الحق قائم خانی نے اس ہفتے پھر جھڈو کا نام روشن کیا اور بہت عرصے بعد مصباح طیب کا خط بھی پڑھنے کو ملا، اچھا لگا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
خطوط جمع نہ کیا کریں
اس دفعہ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے صفحات غائب تھے۔ البتہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں مضمون نگار’’مسیح الدّجال، قربِ قیامت کا ایک بڑا فتنہ‘‘ لے کر آئے اور دجّال کی نشانیاں بتائیں۔’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا مشورہ دے رہے تھے کہ چین، سعودی عرب معاہدے پر ہمیں بھی غور کرنا چاہیے۔ اللہ کرے، ہمارے حُکمرانوں کویہ مشورہ سمجھ آجائے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹرمحمّد زوہیب حنیف نے مِزمارول کے کردار کو مسلم دنیا کا مثبت کردار بتایا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رئوف ظفر غیر قانونی طور پر مُلک سے باہر جانے والوں کی کہانیاں لے کر آئے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں طارق بلوچ صحرائی نے بتانے کی کوشش کی کہ بڑے گھر کی بہو کِسے کہتے ہیں۔ سیّد آفتاب حسین اور سیدہ نورجہاں کی غزلیات قابلِ تعریف تھیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط نہیں تھا،لیکن آپ سے ایک مرتبہ پھر التماس ہے کہ آپ ہمارے خطوط جمع نہ کیا کریں۔ باری آنے پر چاہے ایک ہی خط شائع ہو جائے، مگر شائع کر دیں۔ اگلے شمارے میں بھی مختلف حوالوں سے دجّال کی نشانیاں بتائی گئیں۔
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے سوال کیا کہ کیا ہم آئی ایم ایف کو خیرباد کہنے کو تیار ہیں؟ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹرصادق میمن اور ڈاکٹر رانا محمّد اطہر رضا کے معلوماتی مضامین موجود تھے۔’’پیاراگھر‘‘ میں ڈاکٹرعزیزہ انجم نے مہمان نوازی اور میزبان نوازی میں فرق کی وضاحت کی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رئوف ظفرنےبلاوجہ دوصفحے ضائع کر دیئے، بیکریاں تو کراچی میں بھی موجود ہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں مدثر اعجاز نے وراثت پرخُوب صُورت افسانہ تحریر کیا۔ شبینہ گل انصاری کی غزل اچھی لگی۔ اور…آپ کاصفحہ میں ہمارا خط بھی شامل تھا، جو کافی پراناہوچُکا تھا،تو پلیزخطوں کو جمع نہ کیا کریں، جیسے ہی باری آئے، شائع کردیا کریں۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج: کبھی کبھی توہمیں لگتاہےکہ کہیں آپ لوگوں سے مغزماری کرتے کرتے خُود ہمیں علاج کی ضرورت نہ پڑ جائے۔ آپ کو آخر کس طرح سمجھایا جائے کہ باری کے انتظار ہی میں تو خطوط کا مواد پرانا ہوتا ہے اوراِسی سبب تودو دو خطوط یک جا کرکے شایع کیے جاتے ہیں۔جب کہ ہمیں زیادہ تر آپ کےایک ساتھ دو دوخطوط ہی وصول پاتے ہیں۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
بیٹی نرجس! نرگس کے دل کش و خُوش رنگ پھولوں کی طرح مُسکراتی، ہمارے لیے یوں ہی میگزین کی تزئین و آرائش کرتی رہو۔ اب تو ’’سینٹراسپریڈ‘‘ کو حُسنِ ترتیب سےآراستہ کرنے کے ساتھ رائٹ اَپ لکھنے کی ذمّے داری بھی مستقلاً تم پر آن پڑی ہے۔ بہرحال، تبصرے کی طرف آتی ہوں۔ اتوار کے روز ابھی سورج اپنی نارنجی کرنیں بکھیر ہی رہا ہوتا ہے کہ اِک بے قراری کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ہر آہٹ پرلگتا ہے کہ ہاکر آگیا۔ خیر، جوں ہی اخبار ہاتھ میں آتا ہے، توسارا اخبار’’اُن‘‘ کو دے کر، خُود میگزین لے کر بیٹھ جاتی ہوں اور جب تک ہر مضمون کے اہم پوائنٹس انڈر لائن نہ کرلوں، ناشتے کی میز پر نہیں آتی۔
عام لکھاریوں اور تمھاری ٹیم کی محنتِ شاقّہ نےمیگزین میں ایک مقناطیسی کشش سی پیدا کردی ہے۔ رواں ہفتے کا شمارہ اُٹھایا تو سرِورق پر سحرش راجا صبح کےتارے کارُوپ دھارے ہر سمت روشنی بکھیر رہی تھی۔ٹائٹل پر ہرماڈل کےساتھ ایک برجستہ، منفرد مصرع جریدے میں گویا روح پھونک دیتا ہے۔ سرِورق پلٹا تو ’’مسیح الدجال‘‘ کی دوسری قسط علم و عرفان میں ڈوبی نظر آئی۔ تعریف کا حق ادا کرنے کے لیے الفاظ کا انتخاب ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ ’’ہم آئی ایم ایف کو خیرباد کہنے کے لیے تیار ہیں؟‘‘ منور مرزا کی تحریر ہر ایک پاکستانی کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ویسے مجھے تو دُور دُور تک اس تیاری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے، کیوں کہ نہ تو ہم ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر قربان کرنے پہ آمادہ ہیں اورنہ ہی قبیلے، زبان اورمذہب کی زنجیروں سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔
بہرکیف، مضمون نگار نے تو قوم کو جگانے کی بھرپور کوشش کی۔ ڈاکٹر صادق میمن نے ہیپاٹائٹس کی ہر قسم پر سیرحاصل روشنی ڈالی، تو ڈاکٹررانا محمّد اطہر نےڈینٹل سرجری کی تاریخ بڑے جامع انداز میں بیان کی۔ اُن سے گزارش ہے کہ دانتوں کی بروقت صفائی نہ کرنے کے خوف ناک نتائج سے بھی سب کو آگاہ کریں کہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ اکثریت ٹُوتھ برش کے درست استعمال ہی سے ناواقف ہے، جب کہ مسواک کلچر کو فروغ دینا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مہمان داری اور میزبانی کے آداب پر سب ہی کچھ تو لکھ دیا، ڈاکٹر عزیزہ انجم نے۔ بے شک، مہمان رحمت ہوتا ہے اوراُسے رحمت ہی بن کے رہنا چاہیے۔ ’’لاہورکی بیکریاں‘‘ پڑھ کر سوچا کہ اِس کا نام تو ’’پاکستان کی بیکریاں‘‘ ہونا چاہیے تھا۔
ہمارے چٹورے عوام نے اب بھلا کون سی سوغات کسی خاص جگہ تک محدود رہنے دی ہے، آن لائن سب ہی کچھ تودست یاب ہے۔ اگلے تین برس ہم تیس ارب کے بیکری آئٹمز ہڑپ کرنے جا رہے ہیں۔ اللہ رحم کرے، ہمارے حال پر۔ ’’چڑھتےسورج کی سرزمین‘‘ کی کام یابی کا راز شاہان القریش نے تفصیلاً بیان کیا، لیکن اِس بے مثال ترقی و کام یابی کے متعدّد پہلو تقاضا کرتے تھےکہ ابھی اِس کی مزیدچند اقساط لکھی جاتیں۔ خصوصاً نسلِ نو کو جاپانی قوم کی کئی خوبیاں اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں اُمِ ایمان اور محمّد محسن شاد کا اندازِ بیاں بہت دل آویز تھا۔ ’’نئی کتابیں‘‘ ایک ایسا سلسلہ ہے، جو مطالعے کےشوقین افراد کے لیے اپنی پسندیدہ کتب کا انتخاب سہل کردیتا ہے۔ آخر میں ضیاءالحق قائم خانی کا شکریہ کہ ناچیز کی کاوشوں کو خُوب صُورت الفاظ میں سراہا، وگرنہ اتنے منجھے ہوئے لکھاریوں کے سامنے تو مَیں ابھی طفلِ مکتب ہی ہوں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ سب کے جوہر نظر میں آئے دؔرد… بے ہُنر تُونے کچھ ہنر نہ کیا۔ (شاہدہ ناصر، گلشنِ اقبال، کراچی)
ج: ہم نے تو جِن چند ایک لکھاریوں کا اندازِ تحریر بہت تیزی سےسنورتےدیکھا ہے، اُن میں آپ کا نام سرِفہرست ہے۔ اورہاں، یہ نرگس کا پھول بھلا کب مُسکراتا ہے، وہ تو ازل ہی سے اداسی، انتظار یا خُود پسندی کی علامت ہے۔ بقول اقبال ؎ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے اور بقول مجید امجد ؎ میری مانند خُود نگر تنہا … یہ صراحی میں پھول نرگس کا۔
گوشہ برقی خطوط
* گستاخی معاف!! اصل میں ہمیں شاید بات کرنے کی تہذیب، تمیز ہی نہیں، جیسا کہ مَیں نے اپنی ای میل میں ایک جملہ لکھا کہ ’’آپ اپنےچاہنےوالوں کویاد رکھتی ہیں۔‘‘ واقعی جملہ تھوڑا مشکوک، نامناسب بلکہ تھرڈ کلاس سا تھا، تو آپ نے اُسے یوں ایڈٹ کردیا کہ ’’یہ جریدہ اپنے چاہنے والوں کو یادرکھتا ہے۔‘‘ ظاہر ہے، آپ ایک اتنے بڑے میگزین سے منسلک ہیں، تو آپ کو ایسی باتوں کا دھیان، خیال رکھنا ہی پڑتا ہے۔ بہرحال، ایک بارپھر معافی کی خواستگار ہوں۔ (صاعقہ سبحان)
ج: ہمیں لڑکیاں اِسی لیے زیادہ اچھی لگتی ہیں کہ اپنی معصومانہ لغزشوں پربھی فوراً معذرت خواہانہ اندازاختیارکرلیتی ہیں، حالاں کہ یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں۔ اِس قسم کی ایڈیٹنگ تو ہم دن میں بیسیوں جگہ کرتے ہیں، کیوں کہ حضرات کی تو اکثریت دانستہ ایسی کئی لغویات لکھنا اپنا حق اور فرض سمجھتی ہے اور حرام ہے، جو کبھی کسی کو رتّی بھر شرمندگی بھی ہوئی ہو۔
* مَیں سنڈے میگزین بہت ہی اشتیاق سے پڑھتی ہوں۔ لکھنے لکھانے کا بھی بے حد شوق ہے۔ میری شدید ترین خواہش ہے کہ میری بھی کوئی تحریر جنگ، سنڈے میگزین میں شایع ہو۔ کیا ایسا ممکن ہے، کیا آپ مجھے یہ موقع دیں گی۔ (ایم عبداللہ خان)
ج: آپ نے اپنا نام نہیں لکھا۔ ای میل آئی ڈی ’’ایم عبداللہ خان‘‘ کے نام سے ہے اور ساتھ لکھ رکھا ہے کہ ’’محمّد عبداللہ بہت اچھا ہے۔‘‘ اب اِس کا کیا مطلب ہے۔ ای میل کا اندازخاصا بچکانہ ہے۔ اِسے دیکھ کر تو ہمارا سوال بنتا ہے کہ ’’کیا آپ ہم سےیہ موقع لیں گی ؟؟‘‘
* اِس ای میل کے ساتھ ایک تحریر بھیج رہی ہوں، پلیز جلدازجلد شایع کرکے شکریہ کا موقع دیں۔ (بتول آرائیں، سکھر)
ج: آپ کی ای میل کے ساتھ کوئی تحریر اٹیچڈ نہیں تھی۔ صرف ’’دردِ دل‘‘ پرایک جملہ لکھا ہواتھا۔ اگر اُسی کو تحریر کہہ رہی ہیں، تو وہ تو آپ کی ہتھیلی پر بھی شایع ہوسکتا تھا۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk