السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
پورا مضمون فکر انگیز
اُمید ہے، آپ اور آپ کے ساتھ کام کرنے والی ٹیم بخیریت ہوگی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصّہ ذوالقرنین‘‘ کی دوسری اور آخری قسط پڑھی، معلومات میں اضافہ ہوا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رؤف ظفر نے گلوبل وارمنگ کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا۔ ویسے اُن کا پورا مضمون ہی فکرانگیز تھا۔ راؤ محمّد شاہد ’’بارٹر ٹریڈ‘‘ کو اُمید کی کرن ٹھہرا رہے تھے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے ڈالر راج کا متبادل یوآن کو بتایا۔ ’’پلاسٹک کاسمیٹک سرجری‘‘ کے حوالے سے عمّارہ ارشد کاانٹرویو خاصا معلوماتی تھا۔ ثاقب صغیر، کنول بہزاد کے افسانے اور خیام الپاک ظفر محمّد خان کی نظم سیدھے دل میں اُترے۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں خط کی اشاعت کا بے حد شکریہ۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
جھوٹے دعوے، وعدے ہوابُرد ہوئے
شمارہ موصول ہوا، سرِورق پر ماڈل کے ساتھ ہیڈنگ ’’خیال حرف نہ پائیں…‘‘ دیکھتے ہوئے آگےبڑھ گئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں’’فتنۂ مسیح الدجال‘‘ کا ذکرتھا، اُس سےبچنے کی دُعا کرکے ’’حالات و واقعات‘‘ پرجاپہنچے، جس میں منور مرزا چین کی مشرقِ وسطیٰ میں بڑی پیش رفت اور سعودی عرب کے ساتھ 10ارب ڈالر کے معاہدوں کا ذکر کر رہےتھے۔ چین ہمارابھی دوست ہے اور سی پیک اِسی دوستی کی بہترین مثال ہے،مگر لاڈلے کی حکومت نے منصوبے پر سُست روی اختیار کرکے مخلص دوست کے اعتماد کو خاصی ٹھیس پہنچائی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رؤف ظفرنے سمندر کے راستے جانے والے پاکستانیوں کی الم ناک موت کا غم ناک تذکرہ کیا۔ یہ انکشاف کہ 20 ہزار پاکستانی غیر قانونی طور پر یورپ جاتے ہوئے سمندر کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں،انتہائی افسوس ناک تھا۔ اے کاش! کبھی اِس مُلک میں بھی روزگار کے اتنےمواقع پیدا ہوں کہ لوگوں کو باہر جانے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ 50لاکھ نوکریوں کے وہ جھوٹے دعوے اور وعدےبھی ہوا بُرد ہوئے۔
’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ کے قلم کی خوش نوائی کمال تھی۔ مدثر اعجاز نے دنیا کے بہترین ادبی شہ پاروں کا تعارف کروایا، شُکر ہے، ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ’’مراۃ العروس‘‘ نے ہمیں بانجھ ہونے سے بچالیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں حکیم حارث حارث ذہنی دباؤ سے بچاؤ کےطریقےاوراسباب بتارہے تھے، تو سیما وسیم گرمی میں ٹھندے ٹھار مشروبات لائیں۔ طارق بلوچ صحرائی نے بڑے گھر کی بہو کی بڑے مسائل کی طرف توجّہ دلائی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں پروفیسر خالد اقبال جیلانی نے اپنے پیر و مرشد عبدالمعبود نقش بندی کاذکربڑی عقیدت سے کیا، تو محمّد ارسلان فیاض اور فیروزہ بی تایا اور بہن کی عادات و اطوار کی خوبیاں بیان کرتے دکھائی دئیے۔ نئی کتابوں پر اختر سعیدی نے ماہرانہ تبصرہ کیا اور’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز ڈاکٹر تبسّم سلیم کے حصّےآیا، جب کہ باقی لکھاری بھی اچھی کاوشیں لائے۔ (شہزادہ بشیرمحمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج:بجا فرمایا۔ صرف لاڈلے کےدَور ہی میں نہیں، یہ جو ابھی ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ بھی تتّر بتّر ہوا ہے، اِن دونوں حکومتوں میں عوام کے حصّےمیں علاوہ کرپشن، دھوکے،مکر و فریب، جعل سازی، جادو ٹونے، شورشرابے اور رونے دھونے کے ککھ نہیں آیا۔ یک حرفی تجزیہ کریں تو صرف اور صرف ’’شر‘‘۔ خیر کا تو سرے سے ذکرِ خیر ہی نہیں۔
لاجواب، بے مثال تجزیہ
ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔پہلا شمارہ ’’فادرز ڈے اسپیشل‘‘ تھا۔ ’’بابا جان اپنے بچّوں پر قربان‘‘، ’’باپ، باپ ہے، اے ٹی ایم نہیں‘‘، افسانہ ’’ادراک‘‘، نظم ’’جیون کے میلے میں بابا…‘‘، ’’میری دنیا، میری خوشبو، میرے یارا بابا…‘‘اور ’’ایک پیغام پیاروں کے نام‘‘ سب ایک سے بڑھ کر ایک ثابت ہوئے۔ ’’پاکستان تیزی سے ترقی کرتے ممالک کے بیچ معاشی بدحالی کا جزیرہ‘‘ بھی ایک لاجواب، بے مثال تجزیہ تھا۔
یہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ملک فضل الٰہی، محمود میاں نجمی کی نگارشات محفوظ کررہے ہیں۔ دوسرا شمارہ ’’عیدِ قرباں اسپیشل‘‘ تھا اور اس کے ذریعے ’’عیدالاضحٰی اور فریضۂ قربانی‘‘، ’’بڑی عید کا بڑا پن‘‘ اور ’’عیدِ قرباں کی حقیقی رُوح ‘‘ جیسے لافانی مضامین پڑھنے کو ملے۔ حسبِ روایت منور مرزا کا تجزیہ شمارے کی جان ثابت ہوا۔ دونوں شماروں میں ناچیز کے خطوط بھی شامل تھے، جن کے لیے بہت بہت شکریہ۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
باعثِ مسرت رہی
اُمید ہے، خیریت سے ہوں گی۔ مَیں چار ماہ دبئی گزار کر آیا ہوں اور مجھے یہ دیکھ کر بےحد خوشی ہوئی کہ وہاں لگ بھگ تمام پاکستانی اخبارات مِلتے ہیں۔ انڈین اور پاکستانی کتابوں کے بڑے شان داراسٹورز موجود ہیں اور لوگ بھی بہت خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں۔ یقین کریں، اپنے ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کو وہاں دیکھ کر جس قدر خوشی ہوئی، بیان سے باہر ہے۔ بلاشبہ بیرونِ مُلک بھی آپ سب کا نام و مقام لوگوں کے دِلوں میں بہت بلند ہے اور یہی بات میرے لیے باعثِ مسرت رہی۔ (سیّد شاہ عالم زمرد، راول پنڈی)
ج:الحمدُ للہ۔ بےشک، سب عزّت، مقام و مرتبہ دینے والی ذات اللہ ہی کی ہے۔
چھاؤں میں ڈالتا ہے
سلامِ عقیدت، ہمارے ہاں صرف اتوار کو اخبار آتا ہے۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ میرا مَن پسند جریدہ ہے اور اِس میں بھی ’’آپ کا صفحہ‘‘ سب سے زیادہ پسند ہے۔ لکھاریوں کے تاثرات، نوک جھونک اور آپ کے کبھی آم جیسے میٹھے اور کبھی کبھی کڑتمے(Wild bitter gourd)جیسے کڑوے جوابات پڑھ کے مزہ آجاتا ہے۔ حضرات کے ساتھ آپ کے سخت رویے کی وجہ ہمیں بخوبی سمجھ آتی ہے۔ ہمیں پتا ہے، یہ کس حد تک چلے جاتےہیں۔ آپ پردہ داری رکھتے ہوئے جس طرح جھڑکتی ہے، اُس سےآپ کی خاندانی تعلیم و تربیت کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
ویسے مَیں تو تمام ملازمت پیشہ خواتین کو سلامِ ستائش پیش کرتی ہوں۔ محمود میاں نجمی، رؤف ظفر، راؤ محمّد شاہد، منور راجپوت، اختر سعیدی اور منور مرزا صاحب سب ایک سے بڑھ کر ایک لکھاری ہیں۔ دیگر کبھی کبھار لکھنے والوں کا بھی جواب نہیں اور آپ کا رائٹ اَپ ’’ ہیں دھنک رنگ سی لڑکیاں…‘‘ پڑھ کے تو لُطف ہی آگیا۔ آپ کی ایک شخصیت کی بھی نہ جانے کتنی پرتیں، کتنے پہلو ہیں۔ آج آپ کی محفل میں ڈرتے ڈرتے شرکت کر رہی ہوں، وہ کہتے ہیں ناں، گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کا رُخ کرتا ہے۔ اب یہ تو اپنائیت کی بات ہے کہ اپنا مارتا ہے، تو چھاؤں ہی میں ڈالتا ہے۔ (مائرہ شاہین، گل زیب کالونی، ملتان شریف)
ج: ہاہاہا… اچھی بھلی تحریر ہے تمہاری۔ بس، کہیں کہیں بے ربطگی محسوس ہوئی، تو اِتنا تو چلتا ہے۔ یہاں تو جنہیں دوجملے لکھنے نہ آئیں، وہ اپنے تیئں فلاسفر، دانش وَر بنے ہوئے ہیں، تو تمیں اتنا خوف کاہے کو محسوس ہوا اور یوں بھی لڑکیاں اگرذراسی بھی سیانی ہوں تو سیدھی ہمارے دل میں اُترتی ہیں۔
بےچینی سے انتظار!!
گزارش یہ ہے کہ مَیں نے تقریباً تین ماہ پہلے ایک سچّا واقعہ بھیجا تھا۔ آپ نے اُس لیٹر کا جواب نہیں دیا۔ مَیں ہر ہفتے کا ’’سنڈے میگزین‘‘ بہت دل چسپی سے پڑھتی ہوں اور بہت بے چینی سے اپنی تحریر کا انتظار کرتی ہوں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ پڑھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ معلومات میں کافی اضافہ ہوجاتا ہے۔ براہِ کرم میرے اِس لیٹر کا جواب ضرور دیجیے گا، ورنہ میں اس کے بعد کوئی لیٹر نہیں لکھوں گی۔ (رفعت سلطانہ، کراچی)
ج: تحریروں کا جواب اُن کی اشاعت یا عدم اشاعت کی اطلاع کی صُورت دیا جاتا ہے، ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں نہیں۔ اگر تو واقعہ قابلِ اشاعت ہوا، تو باری آنے پر شایع کر دیا جائے گا۔ اور آپ کے اس ’’ لیٹر‘‘ کا جواب بھی آپ کا دل رکھنے کی خاطر دیا جا رہا ہے، بصورتِ دیگر اِس میں کوئی جواب طلب بات ہے نہیں۔
مندرجات پر بات کیوں؟
براہِ مہربانی سنڈے میگزین کا معیار بلند کریں۔ اِس میں زیادہ سے زیادہ کہانیاں شامل کیا کریں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں مندرجات پر بات کرنے کی پابندی ختم کریں۔ آخر مندرجات پربات کرنا کیوں ضروری ہے۔ کرپشن، چوری، اختیارات کے ناجائز استعمال اور سفارش جیسی لعنتوں پر بھی تو بات ہو سکتی ہے۔ یوں بھی زندگی کو اصول و ضوابط سے ہٹ کر بھی گزارنا چاہیے۔ (نواب زادہ بے کار ملک سعید آباد، کراچی)
ج:اصول و ضوابط سے ہٹ کر زندگی گزارنے کے معاملے میں تو خیر سے پاکستانی قوم خُود کفیل ہے، مگر براہِ مہربانی ’’آپ کا صفحہ‘‘ کو آپ اپنی دانش وَری سے پاک ہی رہنے دیں۔ کسی بھی لعنت پر گفتگو کے لیے جب جریدے کےدیگرصفحات موجود ہیں، تو آخراِس صفحے کا فارمیٹ ہی کیوں تبدیل کیا جائے۔
لکھنے پڑھنے کا جنون
بندہ شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہے۔ علاوہ ازیں ایک عرصے تک صحافت کے شعبے سے بھی منسلک رہا ہے، اِس لیے لکھنے پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ کتب کا ذاتی ذخیرہ موجود ہونے کے ساتھ ادارے کی لائبریری سے مستفید ہونے کا بھی پورا موقع میسّر آتا ہے۔ ’’مسیح الدجال، ڈینٹل ہسٹری کے چند حقائق، پاک پتن، صوفیاء کا شہر اورچڑھتے سورج کی سرزمین، جاپان‘‘ جیسے آرٹیکلز کافی معلوماتی اور دل چسپ تھے۔ تمام لکھاریوں کی کاوشیں قابلِ تحسین ہیں۔ علاوہ ازیں ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں اپنا بھیجا ہوا ایک شعر پڑھا۔ آپ کی شفقت کا بے حد شکریہ۔ محرّم الحرام اور حضرت فاطمتہ الزہرہؓ کے موضوعات پر تحریریں حاضر خدمت ہے۔ (بابر سلیم خان، لاہور)
ج: کسی خاص موقعے کی مناسبت سے بھیجی جانے والے تحریروں کے لیےلازم ہے کہ وہ مقررہ دن سے کم از کم ایک ماہ پہلے وصول پا جائیں، وگرنہ اشاعت ممکن نہیں ہوپاتی۔ اور آپ کی ایسی تحریریں عموماً موقع گزر جانے کے بعد ہی وصول پاتی ہیں۔
صُبح کا تارا…؟؟
’’تیرا چہرہ صُبح کا تارا لگتا ہے…‘‘ اچھا !! ویسے یہ صُبح کا تارا ہوتا کون سا ہے؟ خیر، مجھے کون سا نظر آجانا ہے۔ مجھے تو ویسے ہی عینک لگی ہوئی ہے۔ ’’مسیح الدجال‘‘ پڑھ کے سورہ کہف یاد کرنے کا پکّا ارادہ کرلیا ہے۔ ویسے یہ ارادہ پہلے بھی کئی بار بن چُکا ہے، پر بالکل تھوڑی سی آیات ہی یاد ہوئی ہیں ابھی تک۔ صوفیائےکرام کےشہر، پاک پتن سے متعلق پڑھ کر حیرت ہوئی کہ اِس علاقے میں شرح تعلیم 60سے زائد ہے۔ ’’لاہور کی بیکریاں‘‘ اوہ! مَیں ابھی میٹھا کھا کر ہٹی ہوں اور مجھے ’’مسئلہ چینی‘‘ بھی ہے، لہٰذا میں آگے بڑھ رہی ہوں۔
ویسے مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی، آپ کو مخاطب کیسے کیا کروں۔ چلیں، ’’نرجس آپی!‘‘ کہہ لیا کروں گی۔تو، نرجس آپی! اس بار ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں اتنے تھوڑے سےاشعار کیوں؟ پر چلیں،قناعت کرتےہوئےآگےچلتے ہیں۔ ’’چڑھتے سورج کی سرزمین‘‘ بے حد پسند آئی۔ ’’اِک رشتہ، اک کہانی‘‘ میں کہانی ’’میرے بہت پیارے پاپا…‘‘ بہت اچھی تھی، کیوں کہ میرے پاپا بھی بہت اچھے ہیں۔ اور’’وراثت‘‘… تو بھئی، مجھے کیا لگے وراثت سے، مَیں تو ابھی کالج اسٹوڈنٹ ہوں۔ ہاں، سائیڈ والی غزل بہت اچھی تھی،اپنے پاس لکھ لی ہے، تشریح میں کام آئے گی۔ (منتہیٰ ریاض، حفیظ پارک، گوجرہ)
ج:کالج میں آگئی ہو، چشمہ بھی لگ گیا ہے، مگرابھی تک خط کے آخرمیں اپنا نام لکھنا نہیں سیکھا، وہ تو ہمیں تمھاری ہینڈرائٹنگ کی پہچان ہے، وگرنہ آج خط بغیر نام ہی کےشایع ہوتا اور پھر ایک اور رونا دھونا شروع ہوجاتا۔ اور لغت میں’’صبح کا تارا‘‘ کے معنی درج ہیں۔ وہ نہایت روشن ستارہ، جو اکثر صبح کے وقت اور کبھی شام کو بھی دکھائی دیتا ہے۔ مطلب، زہرہ تارا، جو تیسرے آسمان پر ہونے کے سبب بڑا اور قریب دکھائی دیتا ہے۔
فی امان اللہ
ڈھیروں ڈھیر دُعاؤں کے بعد آپ کا بےحد شکریہ کہ میری دوچِٹھیوں کو’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ منتخب کرکےدوبارہ خط لکھنے پر آمادہ کر دیا۔ گرچہ یہ خط کچھ عرصے بعد لکھ رہی ہوں، مگر میگزین کا مطالعہ ہرہفتےکرتی ہوں اور آج جس خاص بات نے قلم اُٹھانے پر مجبور کیا، وہ آپ کا ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ ہے، جس میں ماڈل نے ہر جگہ دوپٹّا زیبِ تن کر رکھا تھا اوراُس پر آپ کا رائٹ اَپ، سونے پہ سہاگا۔ شاباش نرجس، سدا خوش رہو۔ لو، اب پورے جریدےپر تبصرہ، سب سے پہلے ’’قصص القرآن‘‘ سلسلے کی دوسری قسط پڑھی۔ کمال تحریر ہوتی ہے، واللہ پڑھ کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے آئی ایم ایف سے متعلق بہترین معلومات قارئین کے گوش گزار کیں۔
ساتھ ہی اُس حکمتِ عملی سے بھی آگاہ کیا کہ جس پر عمل کر کے ہم مزید ذلّت سے بچ سکتے ہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘میں ڈاکٹررانا نےڈینٹل ہسٹری کے حوالے سے کچھ حقائق بیان کیے، خصوصاً ٹوتھ برش کی ایجاد کا پڑھ کر مزہ آیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ بہت ہی مختصرہوگیا ہے، بہرحال، ڈاکٹر عزیزہ انجم کی گرمیوں کی چُھٹیوں پرعُمدہ تحریرموجود تھی۔ اُن کی بات ’’دِلوں کو بڑا رکھیں کہ مِل جُل کر گزارا جانے والا وقت ہی زندگی کا سرمایہ ہے‘‘ سیدھی دل میں اُتری۔’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رؤف ظفر لاہور کی بیکریز سے متعارف کروا رہے تھے اور پورے مضمون پر گرفت مضبوط تھی، خصوصاً تصاویر کے ساتھ مضمون کو چار چاند لگ گئے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں سرزمینِ جاپان کے بارے میں پڑھا، واقعی جاپان کی ساری ترقی کا راز اُن کی محنت وسچّائی ہی میں مضمر ہے۔
رشوت، سفارش، تعصّب واقرباء پروری کا وہاں تصوّر بھی ممکن نہیں۔ ’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی دونوں کہانیاں محبّت و خلوص میں گندھی ہوئی تھیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں مدثر اعجاز کی ’’وراثت‘‘ زبردست تھی۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں عبدالجبار یوسف زئی کا پیغام بہترین تھا۔ اوراب ’’آپ کا صفحہ‘‘، جو دراصل ہمارا ہی صفحہ ہے، سات چِٹھیوں کے بیچوں بیچ ضیاء الحق قائم خانی کا نام جگمگا رہا تھا، بہت بہت مبارک ہو۔ (خالدہ سمیع، گلستانِ جوہر، کراچی)
ج: خالدہ جی! ہماری تو اوّل روز سے کوشش ہے کہ یہ جریدہ ایک معیاری فیملی میگزین کی تعریف پرسو فی صد پُورا اُترے، کوئی ایک تصویر، سطر بھی اخلاقیات سے عاری نہ ہو، لیکن وقت اورحالات کے تحت اتنا کچھ بدل گیا ہے کہ اب تو یہی سمجھ نہیں آتا کہ دراصل اخلاقیات کا پیمانہ ہے کیا۔ کیا ہمارے یہاں کی مڈل کلاس میں دوپٹّے کے بغیر لباس کا تصوّر بھی ممکن تھا اوراب ڈیزائنرز نےپہناووں کے ساتھ سرے سےدوپٹّوں کا تکلّف ہی ختم کردیا ہے۔
* اُمید ہے، خطوط کے انبار میں گِھری بیٹھی ہوں گی۔ لوگوں کی الف لیلوی داستانوں، رام کہانیوں کا سُن کے ہی ہمارے دماغ کی چُولیں ہل جاتی ہیں، توآپ کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ مَیں نے آخری بار دوسال پہلے اپنی والدہ کے لیے ایک پیغام بھیجا تھا، پھر امّی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد کچھ لکھنے لکھانے کی ہمّت ہی نہ ہوئی، ایک وہی تھیں، جنہیں میرے پیغام کا شدّت سے انتظار رہتا تھا اور بڑے شوق سے جریدہ دیکھا کرتی تھیں۔ خیر، میگزین تو مَیں، اب بھی ہر اتوار پڑھتی ہوں، خصوصاً ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ مَن پسند ہے۔ نیز، باقی صفحات بھی کافی معلوماتی ہوتے ہیں، آپ کی محنت واضح نظرآتی ہے۔ (طاہرہ، کراچی)
ج: طاہرہ! اللہ تعالیٰ آپ کی والدہ کی بہترین میزبانی و مہمان نوازی فرمائے، اُن کے درجات بہت بلند کرے۔ آپ اُن کے لیے اپنے جذبات و احساسات اب بھی ہم سے شیئر کرسکتی ہیں۔ اِک مائیں ہی تو ہوتی ہیں، جو دنیا سے جاکے بھی نہیں جاتیں۔ ہم تو آج بھی اللہ کے بعد اپنا ہر دُکھ، سُکھ اپنی مرحومہ ماں ہی سے شیئرکرتے ہیں۔
* ایک آرٹیکل بھیجنا چاہتی ہوں۔ ای میل کے ساتھ پی ڈی ایف منسلک کردوں یا جس فارمیٹ میں یہ ای میل بھیجی ہے، اُسی میں بھیج دوں یا کوئی اور بھی طریقہ کار ہے؟ (پروفیسر کرن نورین، گورنمنٹ ڈگری کالج، کراچی)
ج: پروفیسر صاحبہ! اگراردواِن پیج میں بھیجیں تو ہمارے لیےتو سب سے بہتر طریقہ وہی ہے۔ بصورتِ دیگر آپ ورڈ کی فائل یا پھرپی ڈی ایف بھی بھیج ہی سکتی ہیں۔
* اُف نرجس جی!! قسم سے ایسے بھانت بھانت کے خطوط، ای میلز پڑھنےاور پھراُن کے اس قدر مدلّل، بھرپور جواب دینے پر آپ کے لیے ایک ایوارڈ تو بنتا ہے۔ سچ میں، مَیں تو دل سے آپ کی قدرد ان ہوں۔ (افشاں حسن، مصطفیٰ ٹاؤن، لاہور)
ج: تمہاری اِس ای میل سے بڑا ایوارڈ کیا ہوگا۔ اورہمیں اِس ایوارڈ کےعلاوہ کسی اعزاز، خلعت کی تمنّا بھی نہیں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk