• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امام بخاریؒ کے مزار پر

ہمارے بے حد اصرار پر امام بخاریؒ کے مزار پر جانے کا انتظام تو کردیا گیا، لیکن بوجوہ گائیڈ نے ساتھ جانے سے معذرت کرلی۔ مزار کے ساتھ ایک وسیع و عریض مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ ہمارے وہاں پہنچنے تک نماز کا وقت ہوچکا تھا، اس لیے پہلے نماز ادا کی۔ باہر نکلے اور ایک شخص سے مزار کی بابت پوچھا، تو اُس نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا، جہاں ایک چھوٹا سا میوزیم زیرِ تعمیر تھا۔ 

میوزیم کے قریب پہنچے، تو جبّہ پہنے ایک شخص پر نظر پڑی، جو میوزیم سے باہر آرہا تھا۔ سلام کے بعد اُس سے دریافت کیا کہ مزار کہاں ہے، تو اُس نے جواب دینے کے بجائے الٹا مجھ سے سوال کیا کہ ’’کیا آپ پاکستانی ہیں؟‘‘ مَیں نے اثبات میں سر ہلایا، تو کہنے لگے، ’’مَیں یہاں کا امام ہوں، مزار تو یہ سامنے ہے، مگر آپ کو امام بخاریؒ کی قبر پر لے چلتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ہمیں مزار کے زیریں حصّے میں لے گئے۔ چند سیڑھیاں اُتر کر ایک دروازے کا تالا کھولا اور ہمیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ 

اندر داخل ہوئے، تو مزار کے بالکل نیچے ایک کمرے میں امام بخاریؒ کی قبر کے سامنے کھڑے تھے۔ ہمارے پیچھے دو مزید افراد بھی کمرے میں داخل ہوئے اور پھر امام صاحب نے دُعا کروائی۔ دُعا کے بعد کمرے سے باہر نکلے، تو ایک گوناگوں مسّرت کا احساس جاگزیں تھا۔ امام صاحب نے کمرے کو دوبارہ تالا لگایا اور ہمارے ساتھ ہولیے۔ پاکستان کے بارے میں مختلف سوالات کرتے رہے۔ اس دوران چند افراد نے امام صاحب سے کمرا دوبارہ کھولنے کی درخواست کی، مگر انھوں نے انکار کردیا۔ خاص طور پر ہمارے لیے مزار کا دروازہ کھولنے پر ہم نے اُن کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔

نئی منزلوں کی مسافت

ازبکستان سے دوشنبہ واپس آئے چند روز ہی گزرے تھے کہ ہمیں ازبکستان ٹرانسفر کے احکامات موصول ہوگئے۔ یہ خبر ہمارے لیے خوشی کا باعث تھی کہ تاشقند، ہماری نظر میں دوشنبہ سے بہت بہتر جگہ تھی۔ وہاں بہتر سہولتوں کے ساتھ مواقع بھی زیادہ تھے، سب سے اہم بات یہ کہ تاشقند تا لاہور ہفتے میں ایک براہِ راست پرواز بھی جاتی تھی۔ خیر، دوشنبہ میں الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہم نے ایک بار پھر بوریا بستر باندھنا شروع کردیا۔ ہمارا سامان ایک مہربان، پہلے ہی ائرپورٹ لے جاچکے تھے۔

تاشقند کے ابتدائی دن

ازبکستان میں کاروباری معاملات کافی پیچیدہ نوعیت کے تھے۔ اگرچہ ملک کے طول وعرض میں نمائندوں کا ایک جال بچھا ہوا تھا، تاہم اس کے باوجود بہت سے مسائل تھے۔ اس پر مستزاد، تاجکستان کے کاروباری امور بھی ہمیں ہی دیکھنے تھے۔ بہرحال، پہلا مرحلہ ری پریزنٹیٹیو آفیسر، ڈاکٹر پریت پال سے چارج لینے کا تھا۔ بھارت کی سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر پریت، شریف النفس انسان تھے۔ انھوں نے پُرجوش انداز میں ہمارا خیرمقدم کیا اورانتہائی خوش اسلوبی سے تمام معاملات سے آگاہی دی۔ پھر لنچ کے بعد ازبکستان کی ٹیم کے ساتھ ہمارا فرداً فرداً تعارف کروایا گیا۔ دوسرے روز سے معمولات کا آغاز ہوگیا۔ 

دفتری مصروفیات سے کچھ فراغت ہوئی اورسیّاحتی طور پر شہرکا جائزہ لیا، تو معلوم ہوا کہ اسلامی تاریخ کی عظمتِ رفتہ کے بے شمار استعارے ازبکستان میں ملتے ہیں۔ سمرقند و بخارا تو ایسے نام ہیں، جن سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو۔ ان کے علاوہ امام ترمذی کا ترمذبھی موجودہ ازبکستان کا حصّہ ہے۔ موسیٰ الخوارزمی سے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ اُن کا تعلق موجودہ ازبکستان کے علاقے خوارزم سے تھا۔ میں نے بہت پہلے ایک کتاب ’’فرغانہ کا شیر‘‘ پڑھی تھی، جس کے مطالعے سے معلوم ہوا تھا کہ مغل بادشاہ، ظہیرالدین بابر کا تعلق بھی فرغانہ سے تھا۔

مرحبا اور نرگس.....دو خواتین، متضاد زندگیاں

ازبکستان میں دفاتر میں خواتین کی تعداد مَردوں سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ میری ٹیم میں بھی خواتین کی اکثریت تھی۔ ایک خاتون، مرحبا ازبک نسل سے تعلق رکھتی تھیں، وہ پوری ذمّے داری سے اپنے فرائض انجام دیتیں، گھر کے کام کاج اور دفتری امور میں توازن رکھنے میں بھی ماہر تھیں۔ مَیں اکثر ایک شخص کو مرحبا کے کمرے کی کھڑکی سے ان کے ساتھ محوِگفتگو دیکھتا۔

کچھ عرصہ تو مَیں نے نظرانداز کیا، لیکن ایک دن پوچھ ہی لیا کہ یہ صاحب کون ہیں؟ تو بتایا ’’میرے شوہر ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا، ’’یہ روز کیا پوچھنے آتے ہیں؟‘‘ مرحبا نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ’’مختلف معاملات پر بات چیت کے لیے آتے ہیں، مثلاً بچّوں کے اسکول سے متعلق کوئی ضروری بات، گھر کے سودا سلف کی تفصیل یا اسی طرح کی دیگر ضروری باتیں وغیرہ۔‘‘ مَیں نے پوچھا کہ ’’وہ باہر کیوں کھڑے رہتے ہیں، آپ اُنھیں اندر کیوں نہیں بلاتیں۔‘‘ تومرحبا نے سنجیدگی سے جواب دیا کہ ’’چوں کہ میں دفتری اور گھریلو معاملات کو اکٹھا نہیں کرنا چاہتی، اس لیے میرے شوہر کو جب کوئی مشورہ کرنا ہوتا ہے، تو وہ اس کھڑکی سے آکربات کرلیتے ہیں اور بس-‘‘

دوسری طرف ایک دن میں نے کچھ اہم معاملات پر غور کے لیے شام پانچ بجے ایک ارجنٹ میٹنگ بلائی اور مقررہ وقت سے کچھ دیر پہلے میٹنگ روم جانے کے لیے اپنے کمرے سے نکلنے لگا، تو دیکھا، ہماری ایک خاتون کولیگ، نرگس (جسے ازبک زبان میں ’’نرگزا‘‘ کہا جاتا ہے) میرے کمرے کے باہربہت پریشان کھڑی ہیں۔ مَیں نے حیرانی سے پوچھا، تو بتایا کہ ’’آپ نے جو میٹنگ کال کی ہے، اگر پانچ بجے شروع ہوئی، تو کم از کم آدھا گھنٹہ تو چلے گی۔‘‘ مَیں نے کہا ’’جی بالکل، 20یا25 منٹ، ایک اہم بات آپ سب کو بتانی ہے اور اُس پر آپ کی رائے لینی ہے۔‘‘ نرگس نے پریشانی کے عالم میں میری طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’اس طرح میرے لیے مسئلہ کھڑا ہوجائے گا۔ 

مجھے ہرحال میں ساڑھے پانچ بجے سے پہلے گھر پہنچنا ہوتا ہے، کیوں کہ میرا شوہر دفتر سے ساڑھے چھے بجے گھر پہنچتا ہے، اگرمیں اُس کے آنے سے پہلے کھانا تیار کرکے نہ رکھوں، تو لڑائی جھگڑا کرنے لگتا ہے، حتیٰ کہ تشدّد سے بھی گریز نہیں کرتا۔‘‘ مَیں نے ترحم آمیز نگاہوں سے اُسے دیکھا اور کہا ’’کوئی بات نہیں، آپ معمول کے مطابق پانچ بجے چھٹّی کرسکتی ہیں، ہم میٹنگ کل صبح کرلیں گے۔‘‘ پھر میں نے میٹنگ منسوخ کردی اورسوچنے لگا کہ زندگی کے بھی کتنے رنگ ہوتے ہیں، ایک طرف مرحبا کا شوہر ہے اور دوسری طرف نرگس کا۔

فنِ تعمیر کے بہترین نمونے..... جامع مسجد اور چار سُو بازار

تاشقند کی مرکزی جامع مسجد فنِ تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔ مسجد اپنی وسعت کے باوجود جمعۃ المبارک کو مکمل بھر جاتی ہے۔ مسجد کے ایک حصّے میں قرآنِ مجید کا وہ نسخہ بھی رکھا ہے، جس کی حضرت عثمان غنیؓ بہ وقتِ شہادت تلاوت فرمارہے تھے۔ اُس قرآنِ مجید کا رسم الحظ بہت مشکل ہے، جسے ہم بھرپور کوشش کے باوجود نہ پڑھ سکے۔ تاشقند کے پُرکشش مقامات میں سے ایک چار سُوبازار بھی ہے۔ 

ایک بہت بڑے گنبد تلے پُرہجوم بازار میں روز مرّہ ضروریات کی تمام اشیاء مناسب دام میں مل جاتی ہیں۔ تاشقند کی سڑکیں اور شہرکے مرکزمیں موجود خریداری کی جگہیں عموماً پُرسکون نظر آتی ہیں، لیکن چارسُوبازار میں داخل ہوتے ہی چہل پہل کا انداز ہی مختلف ہوتا ہے۔ یہاں شوروغل، خریدوفروخت، گاہکوں اور دکان داروں کی بھاگ دوڑ دیکھ کر راول پنڈی کے راجہ بازار کا گمان ہوتا ہے۔

انڈسٹریل کیریئر چھوڑ کر اکیڈیمیا جوائن کرنے کا فیصلہ

ابھی ازبکستان میں چند ماہ ہی گزرے تھے کہ ہیڈ آفس سے فون کال موصول ہوئی کہ ہم ازبکستان کا آپریشن تھرڈ پارٹی کو دے رہے ہیں۔ اس لیے آپ واپس کراچی آنے کی تیاری کریں، لیکن مَیں نے کراچی جانے کے بجائے اپنے ایک واقف کار،انٹرنیشنل بزنس ڈویژن کے کنٹری ڈائریکٹر، عمر بھائی سے رابطہ کیا، تو انھوں نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا اور فون ہی پر آمادگی ظاہر کردی۔ 

اس سے قبل بھی وہ مجھے آفرکرچکے تھے کہ ’’آپ جب چاہیں، ہمارے دروازے آپ کے لیے کُھلے ہیں۔‘‘ سو، مَیں نے اُسی لمحے اپنا19سالہ انڈسٹریل کیریئر چھوڑ کر اکیڈیمیا جوائن کرنے کا فیصلہ کیا اور عُمر بھائی کے پاس پہنچ گیا۔ انھوں نے میرے سامنے دو ممالک کے آپشنز رکھ دیئے کہ ’’ہم آذر بائیجان اور چیک ری پبلک میں آپریشنز کا آغاز کرنا چاہ رہے ہیں، آپ کہاں جانا پسند کریں گے۔‘‘ مَیں نے اسلامی طرزِ زندگی کے حامل ملک، آذر بائیجان کو ترجیح دی۔ دوسرے روز دفتر کے ساتھیوں نے ہمارے لیے الوداعی دعوت کا اہتمام کیا اور آذربائیجان سے متعلق اپنی اپنی معلومات شیئر کیں۔

رواداری، مذہبی ہم آہنگی

آذربائیجان کے دارالحکومت ’’باکو ‘‘پہنچنے کے دوسرے ہی روز ماسکو سے سائوتھ ایشیا کے ریجنل ہیڈ، عباد الرحمٰن اور کنٹری ہیڈ آذر بائیجان، ڈاکٹر وہاج بھی باکو آگئے۔ ابھی ہم آذربائیجان کی مارکیٹ کے حالات، ریگولیٹری معاملات اور رہن سہن کی ضروریات سے متعلق تفصیلات ہی اکھٹی کررہے تھے کہ جمعے کا دن آن پہنچا۔ جمعے کو صبح آفس پہنچ کر جلدی جلدی اپنے کام نمٹائے اور نمازِ جمعہ کے لیے قریب ہی موجود ایک چھوٹی سی مسجد چلے گئے، جو نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ 

اندر داخل ہوئے تو پتا چلا کہ یہ اہلِ تشیع کی مسجد ہے۔ اہلِ تشیع کی مسجد میں سیکڑوں سُنیوں کو نمازِ جمعہ ادا کرتے دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی- یہاں نماز کے بعد پاکستانی حضرات ایک دوسرے سے ملنے رُک جاتے ہیں۔ ہماری بھی بہت سے پاکستانی بھائیوں سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اُن سے اس رواداری، مذہبی ہم آہنگی پر اپنی خوش گوار حیرت کا اظہار کیا، تو ایک صاحب نے بتایا کہ چوں کہ یہاں مساجد کی کمی ہے، اس لیے حکومت نے کئی ایسی مساجد میں یہ نظام رائج کر رکھا ہے، جہاں سُنّی اور شیعہ ایک ہی جگہ اپنی اپنی فقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔

پورا باکو شہر، ایک پہاڑ پر

باکو، آذربائیجان کا دارالحکومت اور بہت خوب صورت شہر ہے۔ اگرچہ پورا شہر ایک پہاڑ پر واقع ہے، لیکن سڑکیں اور دیگرعمارات فنِ تعمیر کا دل کش نمونہ ہیں۔ شہر کے مرکز میں موجود اکثرعمارات سرمئی رنگ کی ہیں اور سر شام مخصوص انداز کی لائٹنگ سے چمک اٹھتی ہیں۔ شہر کے مرکزی حصّے میں کسی بھی گاڑی کو آنے کی اجازت نہیں۔ اِرد گرد سے سڑکیں گزرتی ہیں، جوکہ اکثر ون وے ہیں، اور اسی وجہ سے ٹریفک کی روانی برقرار رہتی ہے۔ دُکانوں، ریستورانوں کے اطراف کا ماحول اور منظم آمدورفت دل کو بہت بھاتی ہے۔ 

باکوکی زیرِ زمین گزر گاہیں بہت شان دار، خودکار برقی سیڑھیوں کی وجہ سے آسان طرز اور برف باری کے موسم کے لیے بے حد محفوظ ہیں، اس لیے زیادہ تر شہری اِن زیر زمین گزرگاہوں ہی کو استعمال کرتے ہیں، جس کا فائدہ ٹریفک کی روانی کی صُورت ہوتا ہے۔ پھر باکو کی زیر زمین ریل گاڑی بھی عوام کے لیے بہت بڑی سہولت ہے، جو دفاتر سے چُھٹی کے اوقات میں کھچا کھچ بھری ہوتی ہے۔ 

چند زیرِ زمین گزرگاہوں میں روزمرّہ ضروریات کی دکانیں بھی نظر آتی ہیں، البتہ زیر زمین ریل گاڑیوں کے داخلی اور خارجی حصّے کے اردگرد اکثر بڑی بڑی مارکیٹیں ہیں، جہاں ہر طرح کی دکان دیکھنے کو ملتی ہے۔ شہر میں عوامی پارکس بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں، جو بہار کے موسم میں پھولوں کی آماج گاہ بنے ہوتے ہیں۔ بعض پارکس میں باقاعدہ پھولوں کی نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

آذر بائیجان میں ملتان سرائے

مجھے ایک مقامی شہری نے بتایا کہ باکو میں ’’ملتان سرائے‘‘ کے نام سے ایک جگہ ہے۔ ابتداً لگا، شاید مذاق کررہا ہے، مگر جب اس نے ملتان سرائے کی وجۂ تسمیہ بتائی، تو یقین آگیا کہ پُرانے زمانے میں آنے والے تجارتی قافلوں میں ملتان سے آنے والے قافلوں کی تعداد خاصی ہوتی ہوگی، جن کے لیے خصوصاً ملتان سرائے بنائی گئی، لہٰذا ہم نے بھی ملتان سرائے دیکھنے کا پکّا ارادہ کرلیا، لیکن مصروفیات میں ایسے الجھے کہ بھول گئے۔ 

پھر ایک ویک اینڈ پر اہلیہ کے ساتھ پرانے قلعے میں نمائش دیکھنے گئے، وہاں آمنہ ایک اسٹال سے مقامی کشیدہ کاری کا ایک نمونہ خریدنے لگیں تو خاتون نے پوچھا کہ آپ کس ملک سے ہیں؟ ہمارے بتانے پرجھٹ بولیں کہ ’’کیا آپ نے ملتان سرائے دیکھی ہے؟‘‘ ہم نے انکار میں سرہلایا اور پوچھا کہ کس طرف ہے، تو انہوں نے ایک نوجوان کو ہمارے ساتھ کردیا، جس نے ہمیں قلعے کے بیچوں بیچ ملتان سرائے تک پہنچادیا۔ 

ملتان سرائے میں کھانے کے کمرے میں پاکستان کے سفارت خانے نے شیشے کے شوکیسوں کے اندر پاکستانی ظروف سجا رکھے ہیں، جو بہت بھلے لگتے ہیں۔ سرائے کی دیکھ بھال کرنے والے شخص نے ہمیں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’’پہلے لوگ یہاں سویا کرتے تھے اور اپنے گھوڑے باندھا کرتے تھے۔ بہرحال، ہمیں پاکستان کے ملتان اور آذربائیجان کے باکو کا یوں باہم جُڑا ہونا بہت اچھا لگا۔

امام شامل کے دیس میں

کسی دَور میں مجھے اسلامی تاریخ کے ہیروز پر لکھے گئے ناولز پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ مَیں کافی عرصہ اُن کے سحر میں گرفتار رہا۔ آج بھی اگر کسی ایسے علاقے سے گزر ہو، جہاں کسی وقت کسی مسلمان حاکم یا مجاہد کا طوطی بولتا تھا، تو وہ جگہ دیکھنے کا لُطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ ہمارے آفس کی ایک کولیگ، آئیگُن نے باتوں باتوں میں امام شامل کا ذکر کیا، تو میں ایک دم متوجّہ ہوگیا۔ میری دل چسپی دیکھتے ہوئے وہ بتانے لگی کہ ’’میرا شہر، گُوسار،امام شامل کے علاقے کے بہت قریب ہے۔اگر آپ وہاں جانا چاہیں، تو میں آپ کے ٹھہرنے کا بندوبست کروادوں گی۔‘‘ آئیگُن کی پُرخلوص پیش کش پر چند روز بعد ہی ہم امام شامل کے دیس جانے کے لیے نکل پڑے۔ گُوسار انتہائی خوب صورت جگہ ہے۔ 

آئیگُن نے ہمارے قیام کے لیے ایک ریسٹ ہائوس بُک کروادیا تھا، گھنے جنگل میں ریسٹ ہائوس بہت دل کش منظر پیش کررہا تھا۔ پہلے دن ہم وہاں باربی کیو سے لُطف اندوز ہوئے۔ دوسرے دن گُوسار شہر اور گردونواح دیکھنے کے بعد حسبِ وعدہ آئیگُن ہمیں پہاڑوں کے بیچ آبادی کی طرف امام شامل کے علاقے تک لے گئیں۔ امام شامل کو گزرے صدیاں بیت گئیں، لیکن مقامی لوگوں کی یادوں میں وہ آج بھی موجود ہیں، جو ان کی حرّیت اور جرأت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کا رہن سہن ہمارے شہر، ایبٹ آباد سے بہت ملتا جُلتا ہے۔ 

یعنی وہی خاندان کے تمام افراد کا ایک جگہ بیٹھنا، ساتھ ہی چولھے جل رہے ہیں اور کھانا پکایا جا رہا ہے، چائے، قہوے کے دَور بھی چل رہے ہیں اور گپ شپ ہورہی ہے۔ جیسے ہمارے ہاں مہمانوں کے لیے عموماً گھر کی پالی پوسی مرغی ذبح کی جاتی ہے، انہوں نے بھی ہمارے لیے گھر کی مرغی ذبح کی، یخنی پیش کی، پلاؤ بنایا اور پھر گھر کا دہی بھی ساتھ تھا۔ آئیگُن اور اس کے اہلِ خانہ نے ہماری خُوب مہمان نوازی کی۔ روانگی پر سارے گھر والے الوداع کہنے گاڑی تک ساتھ آئے۔

کوہ قاف کی پریاں.....

باکو میں پاکستانی کمیونٹی بہت کم تعداد میں ہے۔ سفارت خانے کے دوستوں کے علاوہ محض درجن بھر خاندان ہی وہاں مقیم تھے، اس لیے سب ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ کسی کے گھر میں کوئی روایتی پاکستانی پکوان، مثلاً نہاری، پائے، بریانی وغیرہ پکتے، تو سب اُس گھر میں جمع ہوجاتے اور اگر کوئی نہ آ پاتا، تویہ لذیذ پکوان اس کے گھر ضرور بھیجے جاتے۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں کسی کے گھر کھانا بھیجنا ہوتا، تو عموماً کسی بچّے کے ہاتھ بھجوادیا جاتا ہے، لیکن باکو میں کسی کے گھر کچھ بھیجنا ہو، تو کم از کم دو افراد اہتمام کے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ یوں ملاقات بھی ہوجاتی اور باہمی ربط اور دعوتوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ایک دن اسی طرح کی ایک محفل میں کوہ قاف کی پریوں کا ذکر چِھڑگیا۔ 

سب کا یہی کہنا تھا کہ ہم کوہ قاف کے دیس میں تو ہیں، مگر اب تک کوہ قاف نہیں دیکھ سکے۔ لہٰذا اسی وقت فیصلہ ہوگیا اور ہمارے پڑوسی کامران بھائی نے پروگرام ترتیب دے کر سب کو کوہ قاف کی دعوت دے ڈالی۔ کامران بھائی کے دفتر کی ایک ساتھی گبالہ سے تعلق رکھتی تھیں، جو کہ کوہ قاف کے دامن میں واقع ہے۔ یوں ہفتے کے اختتام پرگیارہ افراد پر مشتمل، تین گاڑیوں میں سوار قافلہ، گبالہ کی طرف رواں دواں تھا۔ باکوسے گبالہ پہنچنے میں تقریباًچارگھنٹے لگتے ہیں، لیکن راستے میں کئی خُوب صُورت مقامات پرپڑائو کے سبب ہمارا سفر طویل ہوگیااور گبالہ پہنچتے پہنچتے شام کے سائے گھنیرے ہوگئے۔ ہماری میزبان کا گھر گبالہ شہر سے بھی آگے کوہ قاف کے پہاڑوں پر تھا۔

بہرحال، دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے بالآخر منزلِ مقصود پر پہنچ ہی گئے، جہاں مشروبات اور خشک میوہ جات سے ہماری تواضع کی گئی۔ چند منٹ سستانے کے بعد ہم سب نے ایک ساتھ ہی کوہ قاف کی پریوں کا ذکر شروع کردیا۔ قافلے میں موجود سب خواتین و حضرات یہی کہہ رہے تھے کہ یہ سب افسانے ہیں، جو ہم بچپن سے سنتے چلے آئے ہیں۔ 

ہم اردو میں باتیں کررہے تھے، لیکن ہماری میزبان نے کچھ بھانپ لیا اور ہم سے انگریزی میں استفسار کیا کہ ’’کیا آپ لوگ کوہ قاف کی پریوں کی بات کررہے ہیں؟‘‘ سب نے یک زبان ’’ہاں‘‘ کہا، تو وہ یک دَم کھڑی ہوئیں اوراپنے دونوں بازو پھیلا کر پرندوں کی طرح لہراتے ہوئے چہک کر کہنے لگیں، ’’ہم ہیں کوہ قاف کی پریاں۔‘‘ ان کے اس انداز پر سب ہی محظوظ ہوئے اور ہنستے ہوئے تالیاں بجا کر انھیں بھرپور داد دی۔ پھر انھوں نے سنجیدگی سے بتایا کہ ’’کوہ قاف سے متعلق بہت سی دیو مالائی کہانیاں وابستہ ہیں، مگران کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ سب افسانوی باتیں ہیں۔‘‘

واپسی کا سفر.....

قصّہ مختصر، باکو میں ہمارا وقت بہت اچھا گزرا۔ یہاں متعین پاکستان کے سفیر عبدالحمید ہمیشہ شفقت سے بہت پیش آتے اورہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ڈیفینس اتاشی، بریگیڈیئر شاہد بھی بہت نفیس انسان تھے، اُن سے دوستی کا رشتہ آج بھی قائم ہے، تجارتی اتاشی اختر صاحب بھی ایک بہترین پروفیشنل اور اچھے ساتھی تھے۔ اُن سے بھی گاہے گاہے رابطہ رہتا ہے۔ 

یہاں سے کنٹریکٹ ختم ہونے اور دانہ پانی اُٹھنے کے بعد جب سب کو ہماری باکو سے روانگی کی اطلاع ملی تو الوداعی ملاقاتوں، دعوتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سفیر صاحب نے اپنی رہائش گاہ پر دعوت کا اہتمام کیا، جس میں پاکستانی دوستوں اور سفارت خانے کے احباب کے علاوہ میرے دفتر کے آذربائیجانی ساتھی بھی موجود تھے۔ 

سب کی موجودگی نے پُروقارماحول میں خاصی خوشی و مسّرت اور شدّت و حدّت پیدا کرکے محفل کو یادگار بنا دیا۔ سفیر صاحب نے اپنی گفتگو میں ہماری کمی شدّت سے محسوس ہونے کا ذکر کیا، تو ہماری آنکھوں میں بھی نمی تیرنے لگی۔ بہرحال، اِک نہ اِک روز واپس تو لوٹنا ہی تھا۔ اُن تمام یادگار لمحات کو مختلف گروپ فوٹوز کی صُورت محفوظ کرتے چلے گئے۔ بقول خواجہ حیدر علی آتش؎ سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے..... ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہیں۔ تو دور دراز کے سفر، مسافتیں ایسے ہی سایہ دار درختوں کے سبب ہی تو سرمایۂ حیات بن جاتی ہیں۔ وسط ایشیا یوں ہی تو ہمارے دل کے اتنے قریب نہیں، آج بھی کوئی نام لے، تو دل و دماغ میں ایک فلم سی چلنے لگتی ہے۔