• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
والٹن پارک میں گزشتہ ہفتے طاقت کے مستقبل، طویل مدتی عالمی رجحانات اور چیلنجوں اور مواقع کا جائزہ لینے کیلئے ہونے والی کانفرنس میں پالیسی سازوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے مابین پرجوش تبادلہ خیال ہوا۔ کانفرنس نے طاقت کی فطرت کی بصیرت فراہم کی، جس کے عنوان میں 2040ء کے حوالے سے مستقبل کے سفر کی بابت خیالات پیش کئے گئے، جو اس بات کی انتظام کاری کے فرائض انجام دے گی کہ کس طرح مختلف طرز پر عالمی طاقتیں آئندہ برسوں میں تبادلہ خیال کریں گی۔کانفرنس میں زیر بحث آنے والے کچھ کلیدی نکات قابل خلاصہ ہیں کیونکہ اس میں عالمی رجحانات اور عالمی سطح کی انتظام کاروں کی نشاندہی موجود ہے جوکہ طاقت کی فطرت اور مستقبل قریب میں ممالک کے درمیان عالمی سطح پر طاقت کے تعلقات پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ یہ نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ ایسے وقت میں جب دنیا میں غیرمعمولی تبدیلی رونما ہورہی ہے طاقت کا تصور مستقل تبدیلی سے ہمکنارہے۔
2۔ عالمی منظر نامے پر کئی نئے کرداروں کے ابھر کر سامنے آںے کے باوجود بین الاقوامی نظام میں ریاست ہی بنیادی کردار رہے گا۔ 3۔ ہوسکتا ہے کہ طاقت کے ذرائع مستحکم ہوں لیکن جس ماحول میں طاقت کا استعمال کیا جارہاہے بنیادی طور پروہ تبدیل ہورہا ہے۔ 4۔ طاقت کے آلات کو صورتحال کے مطابق ڈھالا جانا ہے۔ 5۔ ممالک کو موثر ہونے کیلئے عسکری طاقت اور معاشی طاقت کا جامع امتزاج وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ 6۔ معاشی طاقت ایک اہم آلۂ کار بن چکی ہے جس کے ذریعے ممالک بین الاقوامی نظام میں من مانی ترامیم کرتے اور اپنی رائے مسلط کرتے ہیں۔7۔ عالمی سطح پر امتیازی حیثیت کے حصول کیلئے عسکری و معاشی طاقتیں کافی نہیں بلکہ ریاستوں کو اس کارہائے عظیم کیلئے اہلیت کی بنیاد پر خاطر خواہاں کارکردگی بھی کر دکھانی ہوگی۔ 8۔ تخلیقی میدان میں کام نہ کرنے والے کا مستقبل میں زیادہ حصہ نہیں ہے۔9۔ اپنی رائے غالب کرنے یا منوانے کی اہلیت طاقت کا ایک اہم جزو ہے۔ 10۔ منفی طاقت بھی حالات و واقعات پر اثرانداز ہوتی ہے، اس سے مراد طاقت کا خلا اور پرتشدد کارروائیاں کرنے والے غیرریاستی جرائم پیشہ گروپوں کی جانب سے طاقت پر غلبہ ہے۔ 11۔ ریاستوں کی جانب سے شعوری بے اعتناعی یا طاقت کا استعمال نہ کرنا، بذات خود طاقت کی تحقیر ہے، جس سے ریاستیں اور حکومتیں اپنی قانونی حیثیت کھو بیٹھتی ہیں۔12۔ ایک فرضیت جوکہ ابھی تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچی وہ یہ ہے کہ ریاستوں کی بین الانحصاری بین الاقوامی معاملات میں قومی خودمختاری کی اہمیت کو کم کردے گی۔ طاقت قومی خودمختاری پر مصر رہنے میں مخفی ہے۔13۔ عالمی طاقت نظام کی تبدیلی کے باعث تغیر کی منازل طے کررہی ہے تاہم عالمی ادارے اب بھی پرانی دنیا کی عکاسی کررہے ہیں۔ان آراء کے دعوے سے یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ کس طرح طاقت تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں تغیر سے ہمکنار ہورہی ہے، ہمارے دور میں عالمگیریت مواقع کے دروازے کھول رہی ہے اور غیر یقینی صورتحال کمزوریوں کو جنم دے رہی ہیں۔ مختصراً دور حاضر کو وضع کرنے میں تین اہم رجحانات کی نشاندہی ہوئی ہے۔ ترقی پر مبنی ٹیکنالوجی کا ارتقاء اور طاقت کی ریاست سے فرد کو منتقلی۔ عالمی سطح پر طاقت کی بڑھتی ہوئی تقسیم کے علاوہ نظام کے جن رجحانات پر زور دیا گیا، ان میں آبادیاتی تبدیلی، آبی مسائل کا دباؤ، وسائل کے حصول کیلئے مسابقت اور عوامی توقعات اور حکومتوں کی اہلیت میں بڑھتا ہوا خلا شامل تھے۔ آج کے مسابقتی ماحول میں وہ ادارے جو چست نہیں تھے انہیں ڈائنوسار قرار دےکر ان کی مذمت کی گئی۔ اس کا اطلاق جتنا اداروں پر ہوتا ہے اتنا ہی ریاستوں پر بھی ہوتا ہے۔کانفرنس میں زیادہ تر بحث اس بات کے گرد گھومتی رہی کہ آیا دنیا کثیرالقطبی یا بے قطبی کی جانب گامزن ہے۔ کچھ شرکاء نے دلیل پیش کی مستقبل میں معاشی امتیازی کے تین مراکز ہوں گے، جن میں امریکہ، چین اور یورپی یونین شامل ہیں دیگر شرکاء نے چین اور امریکہ کے مابین طاقت کے توازن کو اہم رجحان گردانہ۔ اپنی باری پر میں نے یہ دلیل پیش کی کہ مغرب سے چین کی جانب طاقت کے انتقال کی رفتار میں تیزی آرہی ہے، اس عالمی سطح کی تبدیلی کی انتظام کاری کس طرح کی جاتی ہے یہ بین الاقوامی استحکام کا کلیدی جزو ہے، خاص طور پر جبکہ طاقت کی لامرکزیت کے زمرے میں ممالک کا اس بابت اندازہ لگایا جانا مزید مشکل ہوگا اور جہاں طاقت کے استعمال کرنے کے طریقے بھی زیادہ پیچیدہ ہوں گے دیگر شرکاء نے سوال اٹھایا کہ چین کے عروج سے کیا مطلب ہے۔ ایک مقرر نے کئی سخت مشاہدات پیش کئے کہ کس وجہ سے اکثر اس بابت ہونے والی گفت و شنید بے نتیجہ رہتی ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ چین اس حوالے سے کس طرح برتاؤ کرے گا؟ کیا یہ مغرب کی کوئی لاشعوری خواہش ہے کہ مغرب ایک غیرجمہوری ملک کو اپنے سے آگے نکلتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جبکہ مغرب خود پر شک کی آلودگی کا شکار ہے؟
انہوں نے پوچھا کہ آیا چین کے خوف اور مغرب کے جمہوری نمونے کی کمزوری کے مابین کوئی ربط ہے، جس کی نشاندہی سیاست میں شرکت کی دلچسپی کم ہونے سے ہوتی ہے۔ ایسے سوالات سے مغرب کی جانب سے چین کی طویل مدتی سوچ، منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کرنے کی اہلیت کیلئے بالواسطہ طور پر پسندیدگی کا اظہار ہے،جبکہ مغربی جمہورتیں جمود کا شکار اور زیادہ تر مخصوص مفادات کے رحم و کرم پر رہیں۔ کیا چین کا خوف اس کے رویّے یا مغرب میں امور کی انجام دہی پر تنقید ہے؟
کانفرنس کے ایک اور دور میں ایک مقرر کی جانب سے عالمی مستقبل کو وضع کرنے والی قوتوں کی نشاندہی کی گئی، جو تین نکات پر مشتمل تھی، 1۔ سرمایہ کارانہ نظام کے نقائص اور یہ حقیقت کے عالمگیریت ہمیشہ سب کیلئے سود مند ثابت نہیں ہوتی، 2۔ روایتی طاقت کے حامل رہنما تیزی سے اپنی اثرپذیری کھورہے ہیں کیونکہ نئے غیر ریاستی عناصر میں طاقت کے منقسم ہونے کے ماحول وضع ہوا ہے۔ جس کی عکاسی عوامی رائے عامہ کے جائزوں میں سیاسی رہنماؤں کی درجہ بندی میں ہونے والی کمی سے ہوتی ہے۔ 3۔ چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے موجودہ نظام کے نقائص اور کل کی دنیا کی انتظام کاری۔ کانفرنسوں کے زیادہ تر اجلاسوں میں افراد کے طاقتور ہونے، ریاست کی استعداد میں کمی اور توقعات اور طرزحکمرانی کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کے حوالے سے شرکاء نے لب کشائی کی۔ یونان سے ترکی اور برازیل تک دنیا بھر میں ہونے والے عوامی مظاہرے کا ذکر ہوا، تمام شرکاء نے حکومتوں کو اپنے شہریوں سے تعلقات دوبارہ استوار کرنے اور زیادہ موثر طور پر ان کے مطالبات ماننے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس نکتے پر اتفاق رائے ہوا کہ کثیرالقطبی دنیا میں کثیرالاقومی اداروں کو مستحکم کرنے اور ان کی ساخت کو بھی دوبارہ وضع کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس بابت بین الاقوامی اتفاق رائے کی کمی کے حوالے سے خدشات پر بھی تبصرہ کیا گیا۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کثیرالاقومی نظام کی موجودہ خامیوں کا تسلسل جاری رہے گا۔
جب میں نے یہ نشاندہی کی کہ بڑی طاقتیں اور ایک مرتبہ اہمیت اختیار کرنے والی اقوام عالمی اداروں کو قوت دینے کی مزاحمت کررہی ہیں تو اس پر مختلف ردعمل دیکھنے میں آئے جس میں کچھ مقررین کا اصرار تھاکہ عمومی عدم اتفاق رائے کو مورد الزام ٹھہرایا جانے چاہئے لیکن کسی نے بھی اس تخیل سے اختلاف نہیں کیا کہ دنیا ابھی بھی گزشتہ صدی کے ذہنی نقشوں پر کاربند ہوتے ہوئے چلائی جارہی جب عالمی انتظام کاری کیلئے مختلف طرزفکر اور زیادہ طاقتور ادارے درکار تھے۔ کچھ مقررین نے سوال اٹھائے کہ آیا علاقائیت کثیرالاقومی اتحاد کی خامیوں کو دور کرسکتا ہے لیکن پھر فوراً ہی اس بات پر اتفاق رائے ہو گیا علاقائیت کے کثیرالاقومی اتحاد کا متبادل بننے کا کوئی امکان نہیں۔ میں نے علاقائیت کے محدود ہونے کی نشاندہی کی کیونکہ مختلف خطوں کی مختلف استعداد ہوتی ہیں، مختلف خطوں میں علاقائی رقابتیں کارفرما ہورہی ہوتی ہیں، کسی بھی حال میں کئی مسائل کا حل علاقائیت میں نہیں ہے اور ان کے حل کیلئے عالمی سطح پر ہمہ گیر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عالمی سطح کے مسائل کیلئے عالمی سطح کے حل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بات پر اتفاق ہوا کہ عالمی سطح پر کوئی بھی طاقت تن تنہا مستقبل میں بین الاقوامی نظام کیلئے ضابطے وضع کرنے یا اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے میں خود کفیل نہیں ہے۔
یہاں تک کہ آج کی دنیا میں طاقتور ریاستیں کسی معاملے پر نہ تو کرسکتی ہیں لیکن ان کے پاس اپنی مرضی کے مطابق مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔ میں نے ریاست کی توجہ طاقت کے جائز استعمال کی جانب مبذول کرائی اور یہ کہ کس طرح یہ اس کی قابلیت پر اثر انداز ہوکر رائے عامہ کو دھوکہ دیتے ہیں یا اپنی خواہش کے مطابق اس کا نتیجہ حاصل کرتے ہیں۔ عراق میں فوجی مداخلت کی طرح جب طاقت کا استعمال قانون کے مطابق نہیں ہوتا تو اس کے نہ صرف سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں بلکہ اس کے باعث اختیار کا بحران بھی پیدا ہوجاتا ہے اور اپنے اس اقدام کی وجہ سے اس ملک کی حقیقت دنیا پر عیاں ہوجاتی ہے اور اس ملک کے طاقت کے دوبارہ استعمال کا اختیار بھی محدود ہوجاتا ہے۔ برطانوی دفتر خارجہ اور امریکی نیشنل انٹیلی جنس کونسل کے اشتراک سے مختلف موضوعات پر ہونے والے تبادلہ خیال میں یہ بات توجہ کا باعث بنی کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا تبدیلی کی جانب گامزن ہے ہم اب طاقت کے استعمال پر زیادہ دیر تک انحصار نہیں کرسکتے۔ اگرچہ مستقبل کا یہ سفر تمام شراکت داروں کو ایک ہی منزل پر نہیں پہنچا سکتے اور نہ ہی ایسی توقع ہے تاہم یہ عمل اس لئے اہم ہے کیوں کہ ممکنات کے بارے میں سوچنا ہمیں انتخاب سازی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ بہرحال منزل تو موقع سے نہیں بلکہ انتخاب سے ملتی ہے۔
تازہ ترین