• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان سمیت دنیا کے 40 ممالک ایسے ہیں ، جہاں 2014ء میں فوجی بغاوت کا خطرہ ہے۔ یہ بات امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ یہ رپورٹ جے الفیلڈر نامی ایک شخص نے مرتب کی ہے جنہیں سیاسی امور کا ماہر تصور کیا جاتا ہے۔ جے الفیلڈر گزشتہ تین سال سے ایک ایسے ماڈل پر کام کررہے ہیں جس کی بنیاد پر دنیا کے تقریباً ہر ملک کے بارے میں یہ پیش گوئی کرنا ممکن ہے کہ آیا وہاں فوجی بغاوت کا امکان ہے یا نہیں ۔رپورٹ کے مطابق اس سال جن ملکوں میں فوجی بغاوت کا خطرہ ہے،ان میں پاکستان، افغانستان، تھائی لینڈ، یمن، مصر، ہیٹی، ایکواڈور اور بعض دیگر افریقی ممالک شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں مختلف نسلی اور سیاسی گروہوں کے درمیان رسہ کشی کی وجہ سے فوجی مداخلت ہو سکتی ہے جبکہ پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یہاں سیاسی ڈھانچہ انتہائی کمزور ہے اور فوج کی رائے آزادانہ ہے۔
مذکورہ رپورٹ میں جس خطرے کا اظہار واضح الفاظ میں کیا گیا ہے،اسی خطرے کے بارے میں پاکستان کے کچھ حلقے بین السطور باتیں بہت پہلے سے کررہے ہیں۔جے الفیلڈر نے پاکستان میں فوجی بغاوت کے جو اسباب بیان کئے ہیں، ان سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں سیاسی ڈھانچہ انتہائی کمزورہے یہ اور بات ہے کہ سیاست دان اپنی دولت کے اعتبار سے بہت طاقتور ہو چکے ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ مختلف ایشوز پرقومی سیاسی قیادت اور فوج کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ بار بار سیاسی قیادت کو یہ کہنا پڑتاہےکہ سیاسی اور عسکری قیادت فلاں معاملے پر ایک ہی سوچ رکھتی ہیں۔ اگلے روز میاں محمد نوازشریف نے کوئٹہ میں کور ہیڈ کوارٹرز کے دورے اور بعد ازاں ارکان بلوچستان اسمبلی سے خطاب کے موقع پر کہا کہ بلوچستان میں امن کے لئے سیاسی و فوجی قیادت مشترکہ لائحہ عمل بنائے گی۔ ذرائع ابلاغ میں وزیراعظم کی اسی بات کو بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا گیا اور شہ سرخیوں کے طور پر شائع کیا گیا۔ دنیا میں سیاسی قیادت کا لفظ تو استعمال کیا جاتا ہے لیکن کہیں عسکری قیادت کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ دنیا کا کوئی وزیراعظم بھی اس طرح کی بات نہیں کرتا کہ سیاسی اور فوجی قیادت مشترکہ لائحہ بنائے گی۔ اس سے ازخود یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت کچھ اور سوچ رہی ہے اور ’’فوجی قیادت‘‘ کچھ اور سوچ رکھتی ہے۔ اگر ہم خود ہی یہ تاثر پیدا کریں گے تو جے الفیلڈر جیسے سیاسی دانشوروں کا کوئی قصور نہیں ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملے میں بھی ہرکوئی یہی بات کر رہا ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت کو ’’ایک پیج ‘‘ پر آنا ہو گا ۔ سیاسی تجزیہ نگار، صحافی، ماہرین اور سیاست دان سب دانستگی یا نادانستگی میں یہ بات کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لاشعور میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت کی سوچ میں فرق ہے۔ کراچی کا مسئلہ ہو یا بلوچستان کا، طالبان کا مسئلہ ہو یا دہشت گردی سے متعلق دیگر مسائل ہوں، سیاسی قیادت رسمی کارروائیوں اور بیانات سے آگے نہیں بڑھ پاتی ہے۔ ملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت ان مسائل سے نمٹنے کی خاطر گہرے پانیوں میں اترنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے ۔کوئی سیاسی رہنما ان مسائل کے بنیادی اسباب پربھی کھل کر بات نہیں کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کی سیاسی حکومتوں کی تمام پالیسیاں ناکام ہو جاتی ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں صرف ان افراد پر انحصار کررہی ہیں ، جنہیں پاکستان کے کمزور سیاسی ڈھانچے میں نام نہاد پاور بروکرز کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ افراد پاکستان، بعض عرب ممالک اور امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا عوام پر انحصار ختم ہو گیا ہے۔ مخلص اور نظریاتی کارکن ہر سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعت سے مایوس اور الگ تھلگ ہوتے جارہے ہیں۔ الیکشن لڑنے والی سیاسی جماعتوں میں صرف ان لوگوں کو اہمیت دی جاتی ہے،جو اپنے ذاتی اثرورسوخ ، طاقت اور دولت کے بل بوتے پر الیکشن جیت سکتے ہیں۔ انہی لوگوں کو بعد ازاں مراعات اور ٹھیکے بھی دیئے جاتے ہیں۔ یہ لوگ سیاسی جماعتوں میں پیسہ خرچ کرتے ہیں اور پھر پیسہ وصول کرتے ہیں۔ جو سیاسی اور مذہبی جماعتیں ایسے لوگوں کی حمایت حاصل نہیں کر سکتی ہیں، وہ ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کرتی ہیں، جو ان کی طاقت کی دھاک بٹھا سکیں۔ بعض جماعتیں دونوں قسم کے لوگوں کی خدمات حاصل کرتی ہیں یعنی الیکشن لڑنے والوں کی بھی اور دھاک بٹھانے والوں کی بھی۔ تبدیلی کے خواہشمند اور نظریاتی کارکنوں کی کہیں بھی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے کمزور ہونے کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت قتل عام کے خلاف کبھی کھل کر میدان میں نہیں آئی۔ روزانہ لاشیں گرتی ہیں اور لوگوں کو پرسہ دینے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ کوئی بھی سیاسی جماعت مہنگائی کے خلاف بڑی عوامی تحریک چلانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ عوام کو درپیش خوفناک مسائل پر سب خاموش ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی اصل بات کرنے کے لئے جسارت نہیں کرتا۔
جے الفیلڈر نے جو پیش گوئی کی ہے، اس کے بارے میں پاکستان کا ایک ایک فرد پہلے سے ہی خدشات کا شکار ہے۔ سب کو ہی اندازہ ہو رہا ہے کہ پاکستان کے حالات کس طرف جارہے ہیں ۔ ہمارے لئے سب سے زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش جے الفیلڈر کی اس فہرست میں شامل نہیں ہے، جہاں فوجی بغاوت کا خطرہ ہے حالانکہ بنگلہ دیش میں بھی سیاسی استحکام نہیں ہے۔ ہرمنتخب حکومت کے خلاف اپوزیشن کی جماعتیں سڑکوں پر ہوتی ہیں۔ چاہے حکومت عوامی لیگ کی ہو یا بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی۔ کم ازکم بنگلہ دیش دہشت گردی کے اس عذاب سے تو بچا ہوا ہے جس میں پاکستان مبتلا ہے ۔ سب سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ پاکستان اس فہرست میں ہے، جس فہرست میں افریقہ کے انتہائی غریب اور پسماندہ ممالک شامل ہیں۔ اس طرح پاکستان دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے جسے انتہائی غریب، پسماندہ، افراتفری کے قہر میں مبتلا اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ممالک کی صف میں کھڑا کیا گیا ہے۔ بحیثیت پاکستانی ہم یہ دعا کر سکتے ہیں کہ پاکستان میں فوجی مداخلت نہ ہو لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے پاکستان میں دہشت گردی اور بدامنی بڑھتی جارہی ہے اور سیاسی قیادت میں یہ صلاحیت نظر نہیں آتی کہ وہ اسے روکے۔ اللہ کرے 2014ء خیریت سے گزر جائے اور یہ پیش گوئی غلط ثابت ہو۔
تازہ ترین