• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فروری کی پہلی تاریخ کی شہ سرخیاں دیکھ کر قدرت کے نظم عدل اور انصاف پر یقین بڑھتا جارہا ہے اور انسانوں کے بنائے ہوئے انصاف کے قاعدے قوانین اور ان کے وعدے اور لکھ کر اور بول کر کئے ہوئے اعلانات نہ صرف کھوکھلے بلکہ جھوٹے اور کھلی دھوکہ دہی نظر آنے لگے ہیں۔ تین خبروں کی سرخیاں ہر اخبار پر چھائی ہوئی ہیں۔ ایک جنرل مشرف کا کیس اور اُن کی طرف بڑھتا ہوا انصاف کا ہاتھ۔ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی جنرل مشرف ہیں جو گھمنڈ اور غرور کا پیکر بنے ہر ایک کا مذاق اُڑاتے اور اپنی قوت اور طاقت کا بے دریغ استعمال کرتے اور بے قصوروں اور عام لوگوں کی زندگیاں اس طرح حرام کرتے تھے جیسے یہ ان کا پیدائشی حق ہے۔ آج وہ کسی کے قتل میں تو نہیں پکڑے گئے مگر ایک قانونی اور آئینی گرداب میں ضرور گھر گئے ہیں۔ جو اُن کو یاد دلارہا ہے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے جو دیر سے چلتی ہے مگر چلتی ضرور ہے۔ آج ان کے دور کے قیدی، چور اور ڈاکو گردانے جانے والے سیاستدان ملک پر حاکم ہیں اور اپنی من مانیاں کررہے ہیں اور مشرف اور ان کے فوجی ساتھی گردنیں اور جانیں بچائے یا گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں یا ملک سے باہر جاچکے ہیں۔ بوٹیاں نوچنے والے بڑے بڑے وکیل بالکل اسی طرح ٹوٹ کر مشرف کے لاکھوں کروڑوں روپے جیبوں میں ڈال رہے ہیں جس طرح لاکھوں ڈالر کسی وقت مشرف کے اور ان کے ساتھیوں کے بنک اکائونٹ میں خودبخود جمع ہوجاتے تھے۔ آج مشرف کے ساتھ کچھ لوگ کھڑے ہیں مگر وہ صرف اپنی جان، مال اور ساکھ بچانے کے چکر میں ہیں کیونکہ مشرف پھنسے تو وہ کیسے بچیں گے۔ میرے خیال میں یہ سارا سرکس حسین حقانی کے میمو کیس کی طرح ہی حل پذیر ہوگا، عدالت کی بھی ساکھ بچ جائے گی، مشرف پر الزام بھی ثابت ہوجائے گا مگر وہ ملک سے فرار بھی ہونے میں کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ ابھی پاکستان میں کوئی کسی کو سزا دینے کی پوزیشن ہی میں نہیں ہے، سب اس حمام میں بغیر کپڑوں کے کبڈی کھیل رہے ہیں اور ہر ایک اپنے آپ کو پاک پوتر اور دوسروں کو چور ڈاکو ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے، اس ملک کو ایک مینڈیلا کی ضرورت ہے جو خود اپنے لئے کچھ نہ چاہتا ہومگردوسروں کوصحیح راہ دکھا سکے۔ خیر دوسری بڑی شہ سرخی ڈاکٹر عمران فاروق کیس کے بارے میں تھی اوراس پر الطاف بھائی اورمتحدہ کا ردِعمل کچھ پریشان کن لگا۔ اگر برطانیہ والے ان کے ملک میں ایک قتل کی تحقیق کررہے ہیں اور مشتبہ لوگ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور کڑیاں ایک دوسرے سے مل رہی ہیں تو اس میںکسی بے گناہ اور معصوم شخص کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ الطاف بھائی پاکستان سے 22 سال پہلے یہ کہہ کر چلے گئے تھے کہ یہاں ان کی جان کو خطرہ ہے اب 22 سال بعد لندن میں وہ فرمارہے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہورہی ہے اور ان کی جان کو وہاں بھی خطرہ ہے۔ وہاں کے قانون تو قانون ہیں اور اگر کوئی ان قوانین کی گرفت میں آگیا تو بچنا مشکل ہے اگر آج الطاف بھائی باقی دوسرے لیڈروںکی طرح جیسے زرداری یا نواز شریف یا اور بہت سے لوگ جیسے دائود ابراہیم یا ایمن الظواہری یا اسامہ بن لادن یا ملا عمر یا ملا فضل اللہ اگر اپنے آپ کو پاکستان میں زیادہ محفوظ سمجھتے تھے یا ہیں،تو الطاف بھائی بھی آج پُرسکون نیند سوتےمگر برطانیہ کی شہریت لینے کے بعد وہ مجبور ہیں کہ وہاں کے قانون کی پابندی کریں اب اگر وہاں کی پولیس ان کے گھرجاسکتی ہے اور ان کی بیٹی کا لیپ ٹاپ لے جاتی ہے تو وہ یقین رکھیں جب فیصلہ ہوگا اور وہ بے قصور ٹھہریں گے تو یہ سب چیزیں ان کو اسی طرح واپس مل جائیں گی اور پاکستان کی طرح غائب نہیں ہوں گی۔
مگر الطاف بھائی نے شاید صحیح فیصلہ کرنے میں کچھ دیر کردی، جب ان کی حکومت تھی اور وہ مرکز اور صوبے پر ایک طرح سے قابض تھے اس وقت ہی ان کو اپنے ہزاروں لاکھوں چاہنے والوں کے درمیان آجانا چاہئے تھا۔ پاکستان میں ان کی حفاظت اتنی سخت ہوتی کہ کوئی چڑیا پَر نہیں مار سکتی جیسے زرداری صاحب نے پورے کراچی کا ایک حصہ اپنے قبضے میں کرلیا تھا اورکوئی پوچھنے والا نہیں تھا اور آج بھی نہیں۔ 90 کی رہائش گاہ تو ہمیشہ ہی الطاف بھائی کیلئے محفوظ تھی اور مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب وہ باہر سڑک پر بیٹھ کر ہمارے ساتھ گھنٹوں بحث کیا کرتے تھے یا وہ دن جب پہلی دفعہ میں نے 90 سے صحافیوں کا واک آئوٹ کروایا تھا اور وجہ بھی ڈاکٹر عمران فاروق ہی تھے۔ مگر جب ہم صحافی واک آئوٹ کرکے نکلے تو ہر ایک بھاگ رہا تھا کہ کہیں متحدہ کے ورکر گھیر کر واپس نہ لے جائیں۔ وہ کہانی پھر سہی مگر آج کے اخبار میں جو متحدہ کے مظاہرے کی خبریں اور تصویریں چھپی ہیں وہ ایک المیہ ہی لگتی ہیں۔ آخر متحدہ کوکراچی کس کا ہے،دکھانےکی کیا ضرورت پیش آگئی، یہ بات تو سب کو معلوم ہے۔ ایک TV کے پروگرام پر اتنا بڑا ردِعمل سمجھ سے باہر لگتا ہے،کہانی کچھ اور ہے یہ پیغام میرے مطابق BBC یا اسکاٹ لینڈ یارڈ کو نہیں دیا جارہابلکہ پاکستان کی اُن طاقتوں کو دیا جارہا ہے جو شایدڈاکٹر عمران کیس کے مشتبہ لوگوں کو اپنے سیف ہائوس میں رکھے ہوئے ہیں۔ پیغام یہ لگتا ہے کہ اگر ان لوگوں کو متحدہ کے خلاف استعمال کیا گیا تو کراچی والے بھی خاموش نہیں رہیں گے۔ یہ کیس لگتا ہے شطرنج کی بساط پر ایک ایسی مہرے کی چال بن گیا ہے جب شاہ کو پہلے وارننگ دے دی جاتی ہے کہ بچائو ورنہ مات ہونے کو ہے۔ اب اس شطرنج میں کس کو مات ہوتی ہے اور کون شاہ کو بچا کر لے جاتا ہےکہنا مشکل ہےمگر کانٹے کا مقابلہ ہے اور ہوسکتا ہے برطانیہ والے منہ دیکھتے رہ جائیں اور پاکستان میں سیف ہائوس چلانے والوں اور متحدہ میں سمجھوتہ ہوجائے اور ڈاکٹر عمران فاروق کا کیس لٹکتا ہی رہ جائے مگر قدرت کا نظام عدل اپنی جگہ چلتا رہتا ہے۔
آخری شہ سرخی اُس تصویر کے ساتھ تھی جس میں جناب نواز شریف اور جناب زرداری تھر کوئلے کی کانوں سے بجلی بنانے کا افتتاح کررہے تھے اور جو خیالات اوربھائی چارہ نظرآرہا تھا وہ قابل دید اور ناقابلِ یقین سا تھا۔کیا ستم ظریفی ہے کہ زرداری اور نواز شریف نے ہاتھ ملانا تھا بھی تو کوئلوں کی کان پر(ویسے کوئلوں کی دلالی بھی مشہور ہے ویسے اس کام میں منہ کالا ہونا کوئی نئی بات نہیں )اور اب جس طرح اس کوئلے کے کاروبار میں دونوں لیڈر مل جل گئے ہیں، نظر آتا ہے پچھلے سارے گناہ معاف ہوگئے ہیں اور جو نواز شریف اور ان کے برادر شہباز صاحب زور و شور سے اعلان کیا کرتے تھے کہ علی بابا اور چالیس چوروں کو سڑکوں پر لٹکایا جائے گا وہ ماضی کی بات رہ گئی ہےکیونکہ اُس وقت انہیں حکومت نہیں ملی تھی۔ اب نواز شریف کو زرداری کی ضرورت شدت سے ہے کیونکہ اصلی حکومت انہوں نے اب شروع کی ہے اور تمام بڑے بڑے اور اہم عہدوں پر وہ اپنے مہرے بٹھارہے ہیں چاہے وہ لوگ عدالت سے مسترد شدہ ہی ہوں۔ ہر جگہ اپنے آدمی ہی لگائے اور لگ رہے ہیں ابھی ملک کے کھربوں کے اثاثے بیچنا ہیں۔ کھربوں کیلئے منصوبے لگانے ہیں اور اپنے سب دوستوں اور قریبی ساتھیوں کو بھی تو کچھ فائدہ دینا ہے۔ ایک کہانی جو تیار ہے جلد ہی سامنے لائوں گا کہ کس طرح اربوں کا ہیر پھیر کیا گیا اور ڈکار بھی کسی نے نہیں لی۔ نواز زرداری بھائی بھائی کا نعرہ اب ہر جگہ بجے گا۔ الطاف زرداری تو ہیں ہی بھائی بھائی۔
تازہ ترین