• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ برسوں میں ملکی اداروں کی اختتام پذیر ہوتی استعداد ایک اہم ترین چیلنج کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ جس کی وجہ سے ریاست کے بنیادی امورکی کارکردگی پر اثر پڑا ہے اور اس کی عکاسی عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی کمی کی صورت میںبھی ہوتی ہے۔ طرزحکمرانی کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی لڑکھڑاتی ہوئی صورتحال بھی اس کی غماز ہے۔ اب وزیر اعظم نواز شریف پر یہ منکشف ہوگیا ہوگا کہ ایک جانب تو انہیں بھرپور سیاسی طاقت حاصل ہے لیکن دوسری جانب حکمرانی کے اداروں کی کمزوری کی وجہ سے ان کی حکمرانی کی اہلیت محدود ہوگئی ہے، ان اداروںکی کمزوری کی پیچھے عرصہ دراز کا سفر مخفی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ حکومت کوکئی بڑےچیلنجوںکاسامناہے، بہت سوچ بچارکےبعدمرتب کی جانیوالی پالیسیوں پر بھی موثر طریقے سے عملدرآمد نہیں کرایا جاسکتا، لیکن عوام میں بے صبری بڑھ رہی ہے۔ اگرحکومت اس صورتحال میں بہتری لانے کی خواہاں ہے، ادارہ جاتی استحکام اور سول سروس میں اصلاحات اس کے ایجنڈے کا لازم و ملزوم حصہ ہونا چاہئے۔ ایک معاصر انگریزی اخبار میں عشرت حسین نےبھی یہ نکتہ قائل کردینے والے انداز میں اپنے حالیہ آڑٹیکل میںپیش کیا۔ عشرت حسین نے2006 میں قائم ہونیوالے قومی کمیشن برائےحکومتی اصلاحات(این سی جی آر) کی سربراہی کی جس نے اپنی رپورٹ مئی 2008میں پیش کی۔اسکی معقول اورمعیاری سفارشات پر عملدرآمد نہیںہوا۔ابھی تک سرکاری اداروں میں اصلاحات کو حکومتی ایجنڈےپر خاص اہمیت حاصل نہیں ہے۔لیکن حکومت کو پالیسی اہداف حاصل کرنے کیلئے سرکاری اداروں کی اہلیت میں اضافہ اسکے اہلکاروںکو تربیت،پیشہ ورانہ قابلیت اوراس قابلیت سے لیس کرنا ہے جوکہ آج کی پیچیدہ دنیا میں کام کرنے کیلئے ضروری ہے۔ جس کیلئے پبلک سروس میں تربیت اور انکے ملازمین کے حوصلے کو جلا دینے جیسے نظرانداز کیے ہوئے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت کی جانب سے ملک کی معاشی بحالی اور اسے ترقی اور سرمایہ کاری کی راہ پر گامزن کرنے کے علاوہ کوئی چیز اسے زیادہ متاثرکن نہیں بناتی۔ اس کا بنیادی طور پر انحصار مظبوط ادارہ جاتی اصلاحات پرعملدرآمد ہے، جوکہ امن و امان کے مسئلے، وسائل میں موثر طور پر اضافے، بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے مسائل کو حل کرسکتے ہیں اور ایک ایسا ماحول وضع کیا جاسکتا ہے جس میں قانون کی بالادستی قائم ہوسکے اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افرائی کیلئے مساوی مواقع کو یقینی بنایا جاسکے۔ آپس میں رابطہ رکھنے والے ان عناصر کی غیرموجودگی میں معاشی بحالی کا خواب پورا ہونا مشکل ہے، لیکچر اور نصیحتیں حکومتی مشینری کو اتنا بہتر نہیں کرسکتیں بلکہ اس بابت کی جانیوالی تلقینیںکاروباری کمیونٹی کو سرمایہ کاری کی جانب راضی کرسکتی ہیں۔ اسی طرح قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو محض سخت الفاظ میں دیئے جانیوالے احکامات سے امن بحال نہیں ہوگا۔ ملک کے نظام کی خرابیوں کیلئے نظام کی سطح پر ہی اقدامات کی ضرورت ہے۔ آج چیلنج کی کئی اشکال ہیں،جس میں ریاست کے وسائل بڑھانے، اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے اور ملک کے ہر حصے میں عملداری قائم کرنے کی استعدادمیں کمی واقع ہوناہے۔ دوسرے لفظوں میں ریاست کے سب سے بنیادی کام پر سوال کھڑا ہوگیا۔ جب ریاست موثر طور پر ٹیکس نافذ کرنے،کسی چیز پر پابندی عائدکرنے، تحفظ دینے، سزا دینے، قانون کی حکمرانی، تشدد کے وسائل پرگرفت رکھنے اورعوامی اہداف کی حوصلہ افزائی کرنے جیسے اپنے مخصوص اختیارات پر گرفت نہیں کرسکتی تو ایسی صورتحال سے نبردآزمائی کیلئے اسے فوری راست اقدامات کرنے ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہےکہ ایک منفی دائرے نے اسے روک دیا ہے،ریاست کے اقدامات کے موثر ہونے پر عوامی اعتماد میں تنزلی نے ٹیکس کے حوالے سے کیے جانیوالے اقدامات اور بڑی حد تک قوانین کی خلاف ورزی اور ریاست کی عملداری کو درپیش بڑھتے ہوئے چیلنجوںکا موجب بنا ہے،جس کا نتیجہ ریاست کی اختیار میں مزیدکمی کی صورت میں نکلا۔ عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے زمرے میں ریاست کی اہلیت میں کمی ناگزیر طور پر ریاستی اداروں پر عوام کے اعتماد میں کمی وجہ بنی۔ رائے عامہ کے متعدد جائزوں میں اس بات کی نشاندہی ہوئی کہ کس طرح عوام کا اعتمادتسلسل کے ساتھ تنزلی کا شکار ہے۔ این سی جی آر کی رپورٹ میں بھی سرکاری اداروں اور اس کے عملے کے منفی تصور میںاضافے کو تسلیم کیا گیا۔اس رپورٹ میں صاف لفظوں میں پاکستان کے سول سرونٹس کے منفی تاثر اور وزارتوں، سرکاری محکموں، کارپوریشنوں اورحکومت کی مختلف ایجنسیوں کے اقدامات پر بڑی حد تک عوام کی عدم اعتمادی کا حوالہ دیا گیا۔ عرصہ دراز سے سول سروس میں اہلیت اور پیشہ ورانہ قابلیت پرسمجھوتے نے اسکے حوصلے اور اختیارکو تہہ و بالا کردیاہے، اور اس کی استعداد اور توانائیوں کو سلب کرلیا ہے۔ یہ صورتحال کئی عوامل کا نتیجہ ہے، جس میں کوئی ایک حکومت ذمہ دارنہیں بلکہ اقتدار میںآنے والی پے درپے حکومتوں نے ادارہ جاتی کمزوریوںکو تقویت دے کر یا پھر سرکاری اداروں میں اصلاحات کی ضرورت کو نظر انداز کرکے اس بدترین صورتحال میں اپنا حصہ ڈالا۔ عوامل کے دو سلسلے ملک کو اس افسوسناک صورتحال تک پہنچانے کی ذمہ دار ہیں، جنھوں نے 70 کی دہائی میں اپنے قدم جمانا شروع کیے۔ ان عوامل کے پہلے سلسلے کا تعلق اصلاحات کو التواء میں ڈالنے کے نتیجے سے متعلق ہے، نوآبادیاتی دور کےانتظامی ڈھانچے کو معاشرےکی بدلتی ہوئی ضرورتوں کے مطابق تبدیل نہ کرنے سے ریاستی مشینری ضروری آلات کی کمی کا شکار اور بوسیدہ بلکہ دورجدید کے حکمرانی کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ناکارہ ہوگئی۔ مزید برآں، جس وقت معاشرے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی تھیںتو حکمرانی ایسے افراد کے ہاتھوں میں چلی گئی جو کہ سابقہ صورتحال میں تبدیلی کے خواہاں نہیں تھے، انہوں نے نظام کو ایک ایسی ڈگر پر گامزن کردیا جوکہ مراعات یافتہ طبقوںکو فائدہ پہنچاتا اورریاست کے اثاثےاپنے حامیوں کے گروہ میں منقسم کرنے میں استعمال کیے جاتے۔ جس نے عوامی ضروریات کو پوری کرنے کی ریاست کی استعداد مفلوج کو کردیا اور رونماء ہونیوالے تبدیلی کے ساتھ چلنے کیلئے انتظامی ڈھانچے کی اہلیت کو محدودکردیا۔
عوامل کا دوسرا سلسلہ 70اور80کی دہائی میں منظرعام پر آیا اور اس کے بعدجاری رہا جس میں پےدرپے حکومتوں نے ریاست کی مشینری کو سیاسی مقاصدکیلئے استعمال کیا۔ عرصہ دراز سے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے انتظامی اور پولیس کا نظام سیاست زدہ کرنے سے انکے کام میں رخنہ اندازی ہوئی اور اس نے انکے اختیار،مستعدی اورحوصلےکو درہم برہم کردیا،اپنے اصل کام کرنے کے بجائے سیاسی آقاؤںکو خوش کرنے کے عمل سے سول سروس میں اہلیت اور پیشہ وارانہ احساس ذمہ داری کو سنگین حد تک متاثر کیا۔ ان سب کی وجہ سے تباہ کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن اس ڈگر پر چلنے والی سول اور فوجی حکومتیں دونوں ہی یہ دیکھنے سے قاصر رہیں کہ اس تسلسل سے اٹھائے جانیوالے فائدے کی وجہ ایک وقت میں موثر گردانی جانیوالی انتظامیہ پر حکومتوں کا کنٹرول بالآخرزیادہ ہونےکے بجائےکم ہوگیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب بداعمالیوں کے ناقابل فراموش نتائج نے ملک کو آگھیرا تھا۔ انتظامی اختیارات کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے ادارہ جاتی پابندیوںکی غیر موجودگی میں ریاست کے وسائل(زمین، قرضے اور ترقیاتی فنڈز کو استعمال کرنے کا ایک اور تباہ کن عمل کا جاری تھا،جس کے تحت ملک کےحکمرانوں، سیاستدانوں اور انتظامی مشینری کے درمیان ضمیر فروشی کا جال بنا ہوا تھا۔ قومی خزانے کے ضیاؑع کو سرکاری سرپرستی دی گئی اور ایک ایسے کلچر کو جلاء ملی، جس میں ایسی بدعملی کونہ صرف برداشت کیا گیابلکہ قابل قبول بھی گردانا گیا۔ آج ریاستی مشینری کی کمزوری کا شکار استعدادکو بحران کا سامنا ہے، مسئلے کےحل کا پہلا حصہ اس میںاصلاحات کی فوری ضرورت کو تسلیم کرناہے،سرکاری اداروں کی اہلیت کو دوبارہ جلاء بخش اور ان پر عوامی اعتماد کو بحال کرانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس ضمن میں نہ کوئی فوری حل ہے نہ کوئی آسان راستہ۔ جس طرح حکومتی ایجنسیاں سوچتی اور عمل کرتی ہیں ان میں ادارہ جاتی اصلاحات اورغیرقانونی سرگرمیوں کی ریاست کی سرپرستی کے نظام میں ہمہ گیر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس میں انتظامی اداروں اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو حقیقی طور پر دوبارہ قیام شامل ہے۔
این سی جی آر کی 2008 ء کی رپورٹ میں ایسے عمل کو شروع کرنے کی بابت اخذ کرنے کیلئے کافی کچھ موجود ہے۔ یہاں تک کہ اس عمل کے آغاز کیلئے کیے جانیوالے چھوٹے اقدامات بھی عوامی اعتماد کی تقویت کا باعث اور ایک حقیقی دائرے کا آغاز ہوسکتے ہیں۔ ایک اصلاحاتی تذویر میں ایسے قواعد و ضوابط وضع کرنے ہیں، جوکہ ریاست کے اداروں کیلئے آسانیاں پیداکریں تاکہ افسران عوامی مفاد میںکام کرسکیں، اور انتظامیہ کے من مانی پر مبنی اقدامات پر ادارہ جاتی قدغنوں کے ذریعے انہیں روکا جاسکے۔
اصلاحات وضع کرنا صرف اس حصے کا اہم چیلنج ہے۔ دوسرا یہ کہ ان اصلاحات کا نٖفاذ کرتے ہوئے اس کے ذریعے سے ان افراد کی مخالفت کا مقابلہ بھی کیا جاسکتا ہے جنھیں انتظامی امور کے جمود کے حوالے سے خدشات لاحق ہیں۔ اسی لئے ایک جامع سوچ کے ساتھ دوبارہ اختیارات دینے کی حکمت عملی کیساتھ اصلاحات کی پالیسی کے ساتھ آگے آنا ہوگا تاکہ عوامی مفادات کا تحفظ ممکن بنانا ہوگا جو ممکنہ طور پر اصلاحات کی مخالفت کرسکتے ہیں۔ سرکاری مشینری میں ان اصلاحات کو موخر کئے جانے کی کیا قیمت چکانی پڑسکتی ہے یہ بالکل واضح ہے۔لیکن اس کا سب سے زیادہ نقصان بھی اٹھانا پڑسکتا ہے جس میں امن اومان کی خراب صورتحال اور بدنظمی کے باعث معاشی اور اندرونی امن اومان کی صورتحال کی بحالی کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو یہ جاننا ہوگا کہ اقتدار نے انہیں ایک اور موقع فراہم کیا ہے تاہم یہ ان کی کامیابی کا ضامن نہیں ہے۔ نیک ارادوں اور بہترین پالیسیوں کے باوجود اداروں میں کمزوریوں کے باعث اس میں مشکلات پیش آسکتی ہیں اور شہری خدمات کی جانب توجہ نہ دینا بھی اس کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی لئے حکومت کو این سی جی آر کی طرف کی گئی سفارشات کا جائزہ لینا ہوگا اور ترجیحی بنیاد پر پارلیمانی بحث کرنا ہوگی جو کہ حکومت کی جانب سے عملدرآمد کے حوالے سے سنجیدہ کوشش ہوگی۔
تازہ ترین