غالباً 2003 ء کی بات ہے۔میں سرکاری ٹی وی کے لیے سکرپٹ لکھا کرتا تھا ۔ آج ہی کی طرح اُس وقت بھی سرکاری ٹی وی کے سکرپٹ ایک کمیٹی کی طرح ہوتے تھے جس کا کچھ پتا نہیں ہوتا تھا کب نکلنی ہے۔ چیک بن بھی جاتے تو فنانس ڈپارٹمنٹ میں پڑے رہتے۔ اُس وقت سرکاری ٹی وی کے تمام سکرپٹ رائٹر احتیاطاً کافی سارے رسیدی ٹکٹ گھر میںرکھتےتھے کیونکہ چیک کے پیچھے رسیدی ٹکٹ لگانا ضروری تھا۔میرے بھی کئی چیک جمع ہوچکے تھے لیکن میں لاعلم تھا۔یہ چیک کوئی زیادہ رقم کے نہیں تھے لیکن بہرحال اُن دنوں یہ بھی کسی نعمت سے کم نہیں تھے۔ میں ایک فلیٹ میں رہائش پذیر تھا۔ جون جولائی کی شدید گرمی کے دن تھے۔ ایک روز دوپہر 2بجے گھنٹی بجی ۔ دروازہ کھولا تو ٹی وی کے ایک معروف ایکٹر سامنے کھڑے مسکرا رہے تھے۔ یہ میرے بہت سے ڈراموں میں کردار ادا کرچکے تھے لیکن آج تک کبھی فلیٹ پر نہیں آئے تھے۔ میں نے خوشدلی سے اُنہیں اندر بلایا۔ میراخیال تھا کہ یہ یہاں سے گذر رہے ہوں گے اسی لیے ملنے چلے آئے۔ لیکن ان کے پاس میرے فلیٹ کا ایڈریس کہاں سے آیا؟ اس سوال کا جواب انہوں نے خود ہی دے دیا۔ کہنے لگے’میں پی ٹی وی گیا ہوا تھا، میرے کچھ چیک ملنے تھے، فنانس ڈپارٹمنٹ میں اپنے چیک وصول کر رہا تھا کہ آپ کے نام پر نظر پڑی ، آپ کے آٹھ چیک بنے پڑے تھے، میں نے سوچا ہر انسان کو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور نوخیز کون سا کوئی سیٹھ ہے اس لیے میں نے پروڈیوسر سے کہہ کر یہ چیک خود وصول کر لیے تاکہ آپ کو پہنچا سکوں، آپ کا ایڈریس اُن کے پاس موجود تھا اس لیے میں یہ چیک خود دینے آگیا ہوں، ملتانی ہونے کے ناتے اتنا تو میرا فرض تھا۔‘ یہ کہہ کر انہوں نے لفافہ میری طرف بڑھا دیا۔میں ہکا بکا اُن کی شکل دیکھے جارہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے ایسا لگاجیسے کوئی شفقت بھرا بڑا بھائی میرے سامنے بیٹھا ہے۔ میں نے اُن کا شکریہ ادا کیا۔
اُس روز وہ دیر تک میرے پاس بیٹھے رہے۔ میں نے نیانیا انٹرنیٹ لگوایا تھا۔ سپیڈ کم تھی لیکن وہ بڑے شوق سے اس بارے میں پوچھتے رہے۔ میں نے بتایا کہ گوگل پر سرچ کرنے سے بہت سی پرانی چیزوں کے بارے میں معلومات بھی سامنے آجاتی ہیں۔ بڑے شوق سے پوچھنے لگے ، میری سرائیکی فلم بھی آجائے گی۔ میں نے نام پوچھا اور گوگل پر ٹائپ کیا۔ فلم تو نہیں البتہ فلم کے بارے میں دو تین لائنوں کی معلومات سامنے آگئیں۔ وہ پرجوش ہوگئے۔ بتانے لگے کہ یہ فلم انہوں نے بڑے شوق سے بنائی تھی لیکن ناکام رہی۔ پھر انہوں نے شوبز کے قصے چھیڑ لیے۔دلچسپ کہانیاں، سیٹ پر ہونے والے واقعات، ریکارڈنگ کے دوران ہونے والی غلطیاں اور اپنی شدید محنت کی داستانیں۔یہ خوبصورت ، رحمدل اور دوست پرور شخصیت تھی مرحوم خالد بٹ کی تھی۔ مرحوم خالد بٹ ریکارڈنگ کے دوران بہت سنجیدہ ہوجایا کرتے تھے اور اس دوران اچانک ہی ان کا مزاج سخت ہوجاتا تھا۔ ان سے متعلق مشہور تھا کہ جس طرح لاہور کی نہر ہر سال ایک بندہ لیتی ہے، خالد بٹ صاحب بھی ہر ریکارڈنگ میں ایک بندہ ضرور لیتے ہیں۔ وہ ریکارڈنگ کے دوران سارا غصہ اُس غریب پر اتارتے اور بعد میں اُسے جپھی ڈال کر پیار کرتے، معافی مانگتے اور اگلی ریکارڈنگ پر ٹائم سے آنے کی تاکید کرتے ہوئے چلے جاتے۔ایک دفعہ ہنستے ہوئے مجھ سے کہنے لگے کہ ’یارغصہ اس لیے آتا ہے کہ جو کام میں اِن بچوں کو سمجھا رہا ہوتا ہوں وہ ڈائریکٹر کو سمجھانا چاہیے لیکن پتا نہیں آج کل کے ڈائریکٹر ایکشن اور کٹ کو ہی ڈائریکشن کیوں سمجھتے ہیں۔یہ شکوہٰ اُنہیں ہر نئے ڈائریکٹر کے ساتھ رہا لیکن چار دن کی ریکارڈنگ کے بعد اُسے ہی تھپکیاں دے رہے ہوتے تھے۔ میں نے خالد بٹ کو بہت قریب سے دیکھا ہے، ملتان سے لاہور اور پھر لاہور سے کامیابی کا یہ سفر انتہائی تھکا دینے والا تھا۔ آخری دم تک وہ اپنے کام میں جتے رہے۔ بیماری کی حالت میں ریکارڈنگ کرواتے رہے۔ اُن کی گاڑی میں بیسیوں جوڑے، گیٹ اپ کا سامان اور ریکارڈنگ سے متعلقہ چیزیں پڑی رہتی تھیں۔ کہتے تھے اکثر ڈائریکٹر پراپس کا خیال نہیں رکھتے تو مجبوراً مجھے گاڑی سے سامان نکال کر انہیں دینا پڑتا ہے تاکہ سین اچھا نظر آئے۔لباس کے معاملے میں خالد بٹ صاحب انتہائی حد تک نفیس تھے۔ چونکہ خوبصورت تھے اس لیے ہر لباس اُنہیں سج جاتا تھا۔سوٹ پہنتے تو ایک دم بابو لگنے لگتے۔شلوار قمیض میں اُنہیں کم ہی دیکھا۔ملتان کے تھے اس لیے ملتانیوں سے اُن کی محبت کچھ خاص تھی۔ ایک دن کہنے لگے مجھے لگتاہے ملتان سے آیا ہوا ہر شخص میری طرح بہت پریشان اور گھبرایا ہوا ہوتاہے اس لیے میں کوشش کرتاہوں کہ اُسے لاہور جیسے بڑے شہر کے جنگل میں ہاتھ پکڑ کرراستہ دکھائوں۔ خالد بٹ صاحب کو ڈراموں میں باقاعدہ متعارف کرانے کا سہرا عارف وقار کے سر ہے۔ یہ وہی عارف وقار ہیں جنہوںنے پی ٹی وی کا مشہور ڈرامہ ’دوبئی چلو‘ پروڈیوس کیا تھا۔میں نے وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جب عارف وقار اور خالد بٹ کا آمنا سامنا ہوا تو خالد بٹ اُن کے پائوں میں جھک گئے تھے۔ عاجزی اور زندگی سے بھرپور انسان اب ہم میں نہیں لیکن اُن کا کام ، اُن کی محنت سکرین پر محفوظ ہے۔ خالد بٹ صاحب ! اللہ تعالیٰ آپ کی آخری منازل آسان فرمائے اور آپ کو اپنے جوار رحمت میں رکھے۔آمین!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اورواٹس ایپ رائےدیں00923004647998)